ایک دن مشہور و معروف مارکیٹ میں اپنے بھتیجوں اور بھتیجیوں کے لیے کچھ کپڑے وغیرہ دیکھ رہا تھا، کہیں پسند نہیں آرہے تھے تو کہیں پسند آنے کے بعد قیمت ہوش اُڑا دیتے، اِسی سرگردانی میں ایک دُکاندار میری باتوں سے سمجھ گیا کہ اتنا خوار کیوں ہورہا ہوں، اُس نے بچوں کے کچھ سوٹ میرے سامنے رکھے اور کہا کہ پسند کرلو، قیمت کا بعد میں تعیُن کرلیں گے۔ اتنے میں چائے والا آیا تو اُس دُکاندار نے ہمارے لئے چائے بھی منگوائی، میں دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ صحیح سیانا کاروباری ہے، خالی ہاتھ جانے نہیں دے گا۔ اسی اثناء میں دُکان دار نے پوچھا کہ، کون سے سوٹ پسند ہیں؟ میں نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ پسند تو سارے آئے ہیں مگر میری استعداد بس اتنی ہے، اُس نے کہا کوئی بات نہیں، اِن سب سوٹس کو مَیں اگر آپ کو آپ کے حساب سے دوں تو پھر بھی مجھے اتنا منافع ہے، اس لیے اگر کہو تو پیک کردیتا ہوں۔ مَیں نے کہا مجھے اور کیا چاہئے، باقی دُکاندار اس کے ڈَبل مجھ سے مانگ رہے تھے اور آپ اس قیمت پر راضی ہیں تو بِسْمِ اللہ۔ چائے بھی آگئی، چائے پیتے ہوئے میں نے دُکان دار سے پوچھا کہ کیا اِس طرح کاروبار کرنے سے آپ کو نقصان نہیں ہوگا؟ وہ ہلکے سے مُسکان کے ساتھ کہنے لگے، یہ ایک کہانی ہے اگر آپ کے پاس وقت ہو تو سُنا دیتا ہوں۔ مَیں نے کہا کہ میرے پاس وقت ہی وقت ہے لیکن آپ کے پاس گاہک آتے رہیں گے تو مُشکل ہوگا، کہنے لگے وہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں، باقی لڑکے سنبھال لیں گے میں نے کہا ٹھیک ہے، مَیں بھی ہمہ تن گوش ہوں کچھ دیر ایسے خاموش رہے جیسے ماضی کو کھوج رہا ہو اور بات شروع کرنے کیلئے واقعات کا سِرا نہیں مِل رہا ہو یا الفاظ کو یکجا کررہا ہو، خیر چند ثانیے کے بعد کہا، میرا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ والدین نے بڑی مشکلات سے مجھے پڑھایا لکھایا بعدازاں بی اے کرنے کے بعد نوکری ملنے کیلئے بھاگ دوڑ شروع کی جو بے نتیجہ نکلی۔ کسی نے والدین کو مشورہ دیا کہ بیٹے کی شادی کر دیں، بیٹے کی قسمت کھل جائے گی، میری شادی خاندان کی ایک بہت ہی سُگھڑ اور اچھی لڑکی سے ہوگئی شادی کے بعد بیوی نے کاروبار کرنے کا مشورہ دیا۔ میں نے کہا کہ میرے پاس تو پھوڑی کوڑی تک نہیں، جو کچھ تھا وہ شادی کے اخراجات کی مَد میں چلا گیا۔ بیوی نے کہا کہ ضروری تو نہیں کہ کاروبار لاکھوں کروڑوں سے شروع کیا جائے آپ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار بھی تو شروع کرسکتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہی تو مسئلہ ہے کہ چھوٹے کاروبار کے لیے بھی تو کچھ نہ کچھ رقم کی ضرورت ہوتی ہے، میرے پاس وہ بھی نہیں، اوپر سے بابا نے شادی کا حکم جاری کرتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچا کہ میں بیروزگار ہوں۔ نئی نویلی دلہن صاحبہ نے مایوس، ناامید اور غصہ ہونے کی بجائے فیصلہ کُن لہجے میں حکم صادر فرمایا کہ اگر ہمت ہے تو میرے پاس سلامی کے جو چند ہزار روپے جمع ہوئے ہیں، اسی سے کاروبار شروع کر سکتے ہو۔ مَیں تھوڑی دیر خاموش رہا، پھر کہا کہ ٹھیک ہے لیکن کاروبار اپنے گاؤں میں نہیں پنڈی یا اسلام آباد میں شروع کروں گا۔ بیوی کو کوئی اعتراض نہیں تھا اس طرح شادی کے چند دنوں بعد ہی کوئی لائحہ عمل طے کئے بغیر میں اسلام آباد آیا اور کاروبار کے متعلق معلومات لینے کبھی چھولے والے کے پاس تو کبھی فروٹ یا سبزی والے کے پاس، کبھی پھول بیچنے والے کے پاس تو کبھی کھلونے بیچنے والے کے پاس جاتا اور ہر جگہ سے یہی جواب ملتا کہ اس کاروبار میں کچھ بھی نہیں رکھا، اسی خجل خواری میں جو چند ہزار روپے تھے وہ بھی خرچ ہو گئے، یہاں تک کہ صرف ہزار روپے رہ گئے تھے، سوچا کہ کاروبار تو کر نہیں سکا کیوں نا واپس چلا جاؤں، حساب لگایا کہ اگر ہزار میں سے کرایے کے پیسے نکال لوں تو ایک سوٹ بیوی کیلئے بطورِ تحفہ خرید سکتا ہوں، پھر مختلف دکانوں میں گھومتا رہا، مگر ہر سوٹ مہنگا تھا، آخر کار اِس دکان میں جس میں ابھی آپ بیٹھے ہو آگیا، یہاں خواتین اور بچوں کے سوٹ ملتے تھے۔ میں سب کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا رہا مگر میرے مقصد کا سوٹ ایک بھی نہیں تھا، اتنے میں دُکان کے مالک نے میرے ساتھ وہی سلوک کیا جو تھوڑی دیر پہلے میں نے آپ کے ساتھ کیا، بس فرق یہ تھا کہ انہوں نے مجھ سے پریشانی کا سبب بھی پوچھ لیامیں نے ساری رام کہانی اُن کو سنادی، اُن کو سب حاجی صاحب کہتے تھےحاجی صاحب نے کہا کہ ابھی آپ کے پاس ہزار روپے ہیں؟ جی میں نے جواب دیا۔ حاجی صاحب نے ایک لڑکے کو آواز لگائی کہ فلاں فلاں بچوں کے تین سوٹ اُتار کر لے آوہ، لڑکا جب تک سوٹس لے کر آتا حاجی صاحب نے ایک رسی اور چند کیل بمعہ ہتھوڑے کے ایک دراز سے نکالے اور کہا میرے پیچھے آؤ، میں کسی روبوٹ کی طرح اُن کے پیچھے چل پڑا۔ دکان کیوں کہ کارنر پر تھی، حاجی صاحب نکلتے ہی دائیں طرف مُڑے اور دکان کی دیوار پر کیل ٹھوکنے لگے. دونوں کیلوں کو کچھ فاصلے پر ٹھوک کر رسی کے دونوں سِروں کو دونوں کیلوں سے باندھا اور پھر بچوں کے سوٹس دکان سے لے کر اس رسی پر ٹانک دیئے اور کہا کہ یہ تینوں سوٹس 80 روپے کے ہیں، اب آپ کتنے منافع کے ساتھ بیچتے ہیں، یہ آپ کی مرضی اور اہلیت پر منحصر ہے اور جب یہ تینوں بِک جائیں تو منافع کی رقم ملا کر سوٹس میں اضافہ کرتے جائیں باقی آپ کے کھانے پینے اور رہائش کا انتظام میرے دکان کے لڑکوں کے ساتھ ہوگا، اس کی فکر نہیں کریں بس خلوصِ نیت اور توکل علی اللہ کے ساتھ کام شروع کریں اور مجھے میرے روپے دے دیں۔ یہ کہہ کر وہ واپس دکان میں گئے اور میں ہکا بکا اپنے "اسٹال" کے پاس کھڑا ہوگیا۔ خدا خدا کرکے ایک گاہک آیا اور تھوڑی سی لے دے کے بعد ایک سوٹ خرید لیا اسی طرح کچھ دیر میں اچھے خاصے منافع کے ساتھ تینوں سوٹس بیچ کر حاجی صاحب کے پاس گیا اور منافع ملا کر مزید سوٹس لے لئے، کچھ عرصے بعد وہ دیوار بچوں کے سوٹس سے بھری ہوئی تھی اور میرا اچھا خاصا کام چل پڑا تھا۔ دو سال بعد میرے پاس ایک کام کرنے والا لڑکا بھی تھا۔ اب میں دکان لینے کے بارے سوچنے لگاحاجی صاحب سے مشورہ کیا تو کہنے لگے کہ کل بات کریں گے، اس بارے میں اگلے دن حاجی صاحب نے مجھے بلایا اور کہنے لگے کہ جیسا آپ کو معلوم ہے میرے دونوں بیٹے دبئی میں سیٹل ہیں اب وہ زور دے رہے ہیں کہ میں بھی اُن کے پاس آ جاؤں۔ لیکن میں کاروبار کو ایسے کیسے چھوڑتا، جب آپ نے کل دکان لینے کی بات کی تو مجھے لگا کہ مجھے بچوں سے مشورہ کرنا چاہیے، اس لیے آپ کو کل پہ ٹال کر بچوں سے مشورہ کیا، وہ بھی یہی چاہتے تھے کہ میں دکان بیچ کر ان کے پاس آ جاؤں۔ اب میری خواہش ہے کہ یہ دکان آپ لے لیں۔ مگر میرے پاس اتنی ساری رقم نہیں میں کیسے لے سکتا ہوں؟ میں نے کہا۔ یہ سُن کر حاجی صاحب نے کہا، کوئی بات نہیں، آپ دکان کی کسی سے بھی قیمت لگوا سکتے ہیں اس کے بعد جس قیمت پر ہم متفق ہوں گے وہ طے کرلیں گے پھر جتنا آپ نقد دے سکیں گے وہ دے دینا باقی ہر مہینے یا سال میں، جو آپ کو مناسب لگے، میرے اکاؤنٹ میں جمع کرتے رہیے۔ یہ سارا کام گواہوں کے سامنے اور اسٹامپ پیپر پر ہوگا۔ مجھے ان کی بات ٹھیک لگی اور وہ دکان ان سے خرید لی۔ لیڈیز کے سارے سوٹس بیچ کر صرف بچوں کے گارمنٹس رکھ لئے اور آج میں اللہ تعالٰی کے فضل اور حاجی صاحب کی مدد سے اس دکان کا مالک ہوں۔ قرضہ بھی واپس کرچکا ہوں۔ گھر بھی یہاں ہی لیا ہے، سب گھر والے میرے ساتھ ہیں۔ حاجی صاحب بھی کبھی کبھار آتے ہیں وہ بھی اب میرے گھر ہی کا حصہ ہیں۔ اس لئے جب آپ کے چہرے پر ہوائیاں اُڑتی ہوئی دیکھں تو مجھے میرا ماضی یاد آگیا اور آپ کو آپ کی پسند آپ ہی کی مقرر کردہ قیمت پر دے دیں۔ مَیں نے اُن کا شکریہ ادا کیا اور دکان سے نکلتے ہوئے اللہ تعالٰی اور اس کے نظام پر ایمان اور پُختہ ہوتا گیا۔ اس لیے بے روزگار نوجوانوں کو میرا مشورہ ہے، عزت سے جو کام ملے، کر لیں۔ وقت بہت کچھ سکھا دیتا ہے۔ معمولی کام کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔