• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی عوام کی امیدیں مایوسیوں میں تبدیل ہو چکی ہیں، جو صورتحال ہمارے سامنے ہے اس کو دیکھتے ہوئے ہمارے سامنے کوئی اور متبادل راستہ بھی نہیں ہے، صرف ایک راستہ ہے جس کی آخری حد پر ہم کھڑے ہیں، اس سے آگے پستی کی انتہا، ذلت اور محکومیت ہے، ہمیں بہت سنبھل کر راستہ تبدیل کرنے کے لئے مکمل حوصلے اور کامل قومی اتحاد کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر تمام سیاسی و دینی جماعتیں (حکمران، اپوزیشن) ملک میں موجود ادارے، عوام یہ جان لیں کہ ان کے محکوم بننے میں بس کچھ ہی دیر باقی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ تمام فریق اپنی اپنی غلطیوں کا ازالہ کر کے ملک کو خطرناک صورتحال سے نکالیں۔ ملک کو درپیش سنگین ترین خطرہ دہشت گردی کا تھا جس پر اب کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ لیکن یہ ابھی جڑ سے ختم نہیں ہوا ہے۔ بہرحال یہ مسئلہ اب افواج پاکستان کے کنٹرول میں ہے۔ لیکن مسلم ممالک کے حکمرانوں اور عوام کو اس ہدف کو ضرور سمجھنا چاہئے کہ اسلام مخالف قوتوں (یہود و نصاریٰ) نے اسلامی ممالک کو منظم طریقے سے دہشت گردی کا شکار کیوں کیا؟ اور دُنیا بھر کے مسلمانوں کو بطور دہشت گرد عالمی خبروں میں کیوں لایا گیا۔ اگر غور کریں تو جان لیں گے کہ یہ ا ن کے گلوبل ورلڈ آرڈر کا ابتدائیہ ہے۔ یعنی گلوبل ورلڈ آرڈر میں مسلمانوں کو محکوم بن کر رہنا ہو گا۔ صہیونی و سامراجی (بشمول ان کے اتحادی) اپنے مندرجہ بالا ہدف کے حصول میں جزوی طور پر کامیاب ہو گئے ہیں اور وہ یہ ہے کہ آج ہر مسلمان ملک یہ کہتا نظر آ رہا ہے کہ ہم دہشت گرد نہیں، دہشت گردی کا شکار ہیں۔ دوسری جانب مغربی دنیا کی دو نسلوں کے بچوں اور نوجوانوں کے دماغ میں مغربی میڈیا اور خود مسلم دنیا کے میڈیا نے دانستہ یا نادانستہ یہ بٹھا دیا کہ مسلمان دہشت گرد ہیں۔ اس مرحلے کے بعد یا یوں کہیں کہ اس پیش بندی کے بعد جب مسلم ممالک آپس میں ہی ایک دوسرے کو دہشت گرد کہنے لگے ہیں، فرقہ واریت کی جنگ شروع کرنا آسان ہے۔ اگرچہ اس جنگ کے لئے بھی گلوبل ورلڈ کا نقشہ پیش کرنے والوں نے بہت پہلے کام شروع کر رکھا ہے۔ جس میں برطانیہ بھی شامل ہے۔ لیکن ابھی شاید وہ وقت نہیں آیا ہے کہ اس آگ کو اچانک بھڑکا دیا جائے۔ بہرحال ماضی کی تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ یہ کام دشمن جب چاہے نہایت آسانی سے کر سکتا ہے۔ اس اعتراض کے بعد کہ 9/11کا ڈرامہ، طالبان، داعش اور دیگر ایسی ہی بہت سی تنظیمیں خود امریکہ، اسرائیل اور ان کے حلیفوں نے بنائی تھیں۔ دشمن نے اب دوسرا فیز شروع کیا ہے۔ اس فیز میں دفاعی طور پر مضبوط اسلامی ممالک کی معیشت کا جنازہ نکالنا ہے۔ عوام کو سڑکوں پر لانا اور عوام کے ہاتھوں ہی ملک کا انفرااسٹرکچر تباہ و برباد کرانا ہے، یعنی صورتحال یہ کر دی جائے گی کہ حکمران اور عوام سب محکوم ہو جائیں۔ ایک گہری نگاہ اب ذرا ان مسلم ممالک پر دوڑائیے جو دفاعی طور پر مضبوط اور گلوبل ورلڈ آرڈر کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ ان کی اولین ترتیب میں تو صرف 3ممالک ہی نظر آتے ہیں اور وہ ہیں پاکستان، ایران اور ترکی، ان میں پاکستان ایسا ملک ہے جسے کبھی سامراجی قوتیں اپنا حلیف کہتی ہیں اور کبھی آمرانہ اندازِ اختیار کرتی ہیں، یہ سامراجی طاقتیں پاکستان کے حوالے سے کیا ایجنڈا رکھتی ہیں اس کا صحیح ادراک تو ملک کی دفاعی ایجنسی کے سربراہ کو ہی معلوم ہو گا اور یقینا ً وہ اس طرف پوری طرح متوجہ اور اس کے توڑ میں مصروف ہوں گے۔ لیکن سیاسی نظر رکھنے والے تو ایک طرف یہ تو ایک عام آدمی بھی سمجھ رہا اور اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ پاکستان کی معیشت کی زبوں حالی میں جہاں اپنوں کا ہاتھ ہے، وہیں سامراجی چالیں بھی شامل ہیں۔ سامراج نے IMFکے ذریعہ پاکستان کو قرضوں میں جکڑنا اور مہنگائی کا لیول اس قدر بلند درجے پر لانا ہے کہ عوام صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں اور خود ہی اپنے ملک کی بربادی پر آمادہ ہو جائیں۔ پی ٹی آئی حکومت ایمنسٹی اسکیم کے حوالے سے تذبذب کا شکار رہی، اب اگرچہ اس اسکیم کا اعلان کر دیا گیا ہے لیکن یہ زیادہ جاذبِ نظر نہیں ہے لہٰذا وزیراعظم اس جانب مزید توجہ دیں اور ایمنسٹی اسکیم میں کچھ اور رعایت کا اعلان کریں۔ علاوہ ازیں وزیراعظم ایمنسٹی اسکیم کا دائرہ مزید وسیع کرتے ہوئے اس میں نیب زدہ افراد کو بھی شامل کر دیں تاکہ تیزی سے دولت ملکی خزانے میں آئے۔ جس کی اشد ضرورت ہے۔ اگر اس طرح پاکستانیوں کی دولت پاکستان میں آتی ہے تو صرف معاشی سرگرمیاں ہی نہیں بڑھیں گی بلکہ کاروباری مسابقت بھی بڑھے گی۔ دوسری جانب ایک خاص منصوبہ بندی کے ساتھ آزادی کی تحریکیں ابھار کر ملک کی یکجہتی پر وار کیا جائے گا۔ پشتون تحفظ موومنٹ تو حال کی بات ہے، بلوچستان میں آزادی اور خود مختاری کے نام پر دہشت گردی تو برسوں سے جاری ہے اور کون نہیں جانتا کہ بی ایل اے اور اس جیسی تنظیموں کی قیادت کس کی پشت پناہی سے میدان میں اُتری ہے اور نام نہاد آزادی کے نام پر قتل عام کرانے والے کہاں پناہ لیتے ہیں اور کون ان کی مدد کر رہا ہے۔ سی پیک سے کن بردار دوست ممالک کا مفاد متاثر ہو رہا تھا کہ وہ بھی ’’را‘‘ اور ’’موساد‘‘ کی طرح سرگرم ہو کر دہشت گردانہ کارروائیوں پر اُتر آئے۔

آخر میں صرف اتنا عرض ہے کہ پاکستان کے حکمران انتخابی نعروں سے نکل آئیں اور اپنی توانائیاں چور چور کا شور مچانے پر ضائع کرنے کے بجائے پاکستان کے مستقبل کو بہتر اور محفوظ بنانے کی طرف مرکوز کریں۔ اسی طرح حزبِ اختلاف کے رہنما بھی جو منجھے ہوئے سیاستدان ہیں حالات کی نزاکت کا اندازہ کریں اور اگر حکمران ایک قدم آگے بڑھیں تو وہ دو قدم آگے بڑھیں۔ ایسا ممکن ہے کہ حزب اختلاف کا اتحاد حکومت کو گرا دے لیکن حکومت کے گرانے سے عوام کی مشکلات میں کمی تو نہیں ہو گی جو خطرات ملک کی سالمیت پر منڈلا رہے ہیں، وہ اور بھی بڑھ جائیں گے۔ اس لئے یہ تمام سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ اپنی لڑائی کسی اور وقت کے لئے رکھیں۔

تازہ ترین