• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’مخدوم غلام عباس پاٹائی‘ حدیث، فقہ اور علم تفسیر میں شہرت کے حامل تھے

سندھ ہمیشہ ہی سے علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔یہاں معروف شعرائے کرام ، بین الاقوامی شہرت یافتہ فقہا، محدثین، ماہرین علوم اسلامی، مورخین و اُدبا نے اپنے علم اور تخلیقات کے ذریعے دنیا بھر میں نام روشن کیا ہے۔سندھ کے علما و فضلا کے قلمی مخطوطات ٹوکیو یونیورسٹی، جامعہ الازہر، کنگ سعود یونیورسٹی سعودی عرب کے کتب خانوں کے علاوہ ایل ایسکوریل لائبریری اسپین، توپ قاپی محل استنبول اور سندھ کے مختلف سرکاری و نجی کتب خانوں میں موجود ہیں۔ ایسے ہی صاحبانِ علم و فضل میں سے ایک نام مخدوم غلام عباس صدیقی پاٹائی کا بھی ہے جنہوں نے اپنے وقت میں حدیث، فقہ، علم تفسیر میںشہرت حاصل کی۔ مخدوم غلام عباس صدیقی سولہویں صدی کے اوائل میںضلع دادو کے تاریخی مقام پاٹ کے مشہور صدیقی گھرانے میں پیدا ہوئے، ان کا سن پیدائش نا معلوم ہے، ان کے والد کا نام شیخ جلال بن شیخ رکن الدین المعروف مخدوم متو تھا۔مخدوم غلام عباس کاسلسلۂ نسب سلسلہ سہروردیہ کے بانی ابو حفص شیخ شہاب الدین عمر سہروردی بغدادی سے جا کرملتا ہے۔ اس خاندان میں شیخ شہاب الدین سہروردی ثانی پاٹائی وہ شخصیت ہیں جنہیں سندھ کے سمہ حکمرانوں نے ضلع دادو کے تاریخی قصبہ پاٹ کا علاقہ بطور جاگیر دیا اور وہ سندھ میں آکر مقیم ہوئے۔ آپ کا حسب نسب اس طرح ہے: شہاب الدین سہروردی ثانی پاٹائی بن شیخ نور الدین محمد بن شیخ سراج الدین بن شیخ وجہ الدین بن شیخ مسعود بن شیخ رضی الدین بن شیخ قاسم بن شیخ محمد وہو المعروف شیخ احمد عماد الدین سہروردی بن شیخ شہاب الدین عمر سہروردی ۔ شہاب الدین سہروردی ثانی پاٹائی کی اولاد پاٹ ہی کے علاقے میں پروان چڑھی اور اس خاندان سے بڑے نامی گرامی بزرگ پیدا ہوئے۔

سندھ کے ارغون خاندان کے دورِ حکمرانی میں پاٹ کے صدیقی بزرگان نے سندھ سے ہجرت کرکے ہندوستان کے شہر گجرات اور پھر برہان پور میں سکونت اختیار کی تووہیں اس خاندان کے ایک بزرگ مخدوم غلام عباس صدیقی سن 947 ہجری میں اپنے آبائی قصبے پاٹ سے ہجرت کرکے ضلع خیرپور کے شہر ہنگورجا میں جا بسے۔ آپ کی وجہ سے ہنگورجا میں علم و عرفان کا ایک دریا جاری ہوگیا۔ معروف مورخ میر محمد معصوم بکھری اپنی تصنیف ـ تاریخ معصومی میں رقم طراز ہیں کہ’’مخدوم صاحب علم تفسیر، حدیث، فقہ اور دیگر علوم میں کمال مہارت رکھتے تھے، مسائل کی تحقیق و تفتیش احسن انداز میں کرتے تھے، زہد و تقویٰ میں بے مثال تھے۔ دن اور رات کے جملہ اوقات میں عبادات میں مشغول رہا کرتے تھے۔ تلاوت حدیث کے موقع پر وہ بڑے عجز و انکساری سے کام لیا کرتے تھے۔ احادیث سناتے وقت بے اختیار ہوجاتے اور ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات ہونے لگتی تھی، جس کی وجہ سے سامعین کو احادیث سننے کی تاب نہ رہتی۔‘‘ یہی وجہ تھی کہ علم و معرفت کے متلاشی جوق در جوق سفر کی صعوبتوں کو سہتے ہوئے مخدوم غلام عباس صیدیقی کے پاس فیض حاصل کرنے کے لئے تشریف لاتے تھے۔ آپ نے دمِ آخر تک درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان سے علم حاصل کرنے والوں کی تعداد کثیر ہے جن میں سے قاضی عبد السلام اور مولانا شیخ مبارک زیادہ مشہور ہوئے۔ آپ کی اولاد میں مخدوم جنید اللہ ہنگورجا کے قریبی شہر ہالانی میں جابسے، جن کے فرزند مخدوم اسماعیل تھے اور ان کے فرزند مخدوم عثمان اور ان کے فرزند مخدوم داؤ د تھے۔ مخدوم داؤد کی اولاد میں سے مخدوم نور محمد مشہور ہوئے۔ انہی کی اولاد تا دم زمانہ تھریچانی(سکھر کے نواح) میں مقیم ہے۔ مخدوم غلام عباس صدیقی 96 سال کی عمر میں بروز پیر 14 شعبان 998 ہجری بمطابق 18 جون 1590عیسوی میں سندھ کے تاریخی شہر ہنگورجا میں اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔

تازہ ترین