افواج پاکستان سے یکجہتی کا تصور گویا روح کو سرشار کردیتا ہے، دل جذبے سے بھر جاتا ہے اور فوجی جوانوں کی لازوال قربانیوں کی داستانیں آنکھیں نم کردیتی ہیں۔ جنگ ستمبر کا تذکرہ دلوں کو گرماتا ، جوش وجذبے کو اُبھارتا اور ایمان ویقین کو تازہ کردیتا ہے۔ تاریخ عالم میں کبھی نہ بھولنے والے اس قابلِ فخر دن کے حوالے سے کچھ چیدہ نکات آج ہم اپنی تحریر کا حصہ بنارہے ہیں۔
جنگ کی شروعات
ستمبر1965ء کی جنگ کا سبب بھی ’’ مقبوضہ کشمیر تنازعہ‘‘ بنا۔ تقسیم ہند کے بعد سے ہی بھارت نے بین الاقوامی برادری کے سامنے کشمیر سے متعلق کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کی اور مسلسل ایسے اقدامات کیے جو کشمیر کی بین الاقوامی سطح پر متنازعہ حیثیت کے بالکل برعکس تھے۔ ایک طرف بھارت کا بین الاقوامی برادری کے سامنے کشمیر میں استصواب رائے کا وعدہ تو دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے نندا کمیشن رپورٹ پر عملدرآمد کی صورت وفاقی ڈھانچے میں شامل کرکے بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دینا اور پھر رن آف کچھ میں پاکستانی علاقے پربھارت کا حملہ، یہ تمام عوامل ایسے تھے جن کے باعث پاکستان کا جوابی رد عمل ہر صورت لازمی تھا۔
جارحیت کا ارتکاب
رن آف کچھ میں پاکستان سے پنجہ آزمائی کے دوران منہ کی کھانے کے بعد بھارت نے فیصلہ کیا کہ پاکستان سے اس شکست کا بدلہ لیا جائے گا۔ 6ستمبر 1965ء کے روز بھارت نے رات کی تاریکی میں میجر جنرل نرنجن پرشاد کی قیادت میں پچیسویں ڈویژن ٹینکوں اور توپ خانے کی مدد سے لاہور پر 3 اطراف سے حملہ کردیا۔ دشمن یہ سوچ کر پاکستان پر حملہ آور ہوا تھا کہ لاہور پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ دشمن کے ناپاک عزائم خاک میں ملانے کے لیے پہلے پہل اس کے لاہور کی جانب بڑھتے قدم روکنے تھے، جس کے لیے ستلج رینجرز کے نوجوانوں نے نہ صرف جان کے نذرانے پیش کیے بلکہ بی آر بی نہر کا پل تباہ کرکے دشمن کا لاہور میں پہنچنا ناممکن بنادیا گیا، اس تمام تر صورتحال کو یقینی بنانا کسی طور معجزے سے کم نہ تھا ۔
چونڈہ،بھارتی ٹینکوں کا قبرستان
تاریخ نویس ستمبر کی پاک بھارت جنگ کو دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ قرار دیتے ہیں۔ طاقت کے نشے میں چُور بھارت نے پاک فوج کی توجہ لاہور محاذ سے ہٹانے کے لئے600 ٹینکوں اور ایک لاکھ فوج کے ساتھ سیالکوٹ میں چارواہ،باجرہ گڑھی اورنکھنال کے مقام پر حملہ کردیا۔ لیکن پاک فوج کے جوان اپنے جسموں پر بم باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے اور چونڈہ کے محاذ کو دشمن کے ٹینکوں کا قبرستان بنادیا، سینکڑوں ٹینک ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ چونڈہ کے مقام پر پاک فوج کی قیادت جنرل ٹکا خان کررہے تھے، جنھوں نےہمت وبہادری اور شجاعت کے ذریعے نہ صرف سیالکوٹ کو بچایا بلکہ بھارتی کمانڈروں کی جانب سے پاکستان کی لائف لائن جی ٹی روڈ کو کاٹنے کی خواہش بھی ناکام بنا دی۔
پاک فضائیہ کا لازوال کردار
دوسری جانب ملکی دفاع کے لیے پاک فضائیہ کا جذبہ بھی کسی طور کم نہ تھا، یہی وجہ ہے کہ اس نے اس جنگ میں لازوال کردار ادا کیا ۔ پاک فضائیہ نے6ستمبرکو بھارت کے فضائی اڈوں پٹھان کوٹ، آدم پور اور ہلواڑہ پر بھر پور انداز میں حملے کئے۔ پٹھان کوٹ میں پاک فضائیہ نے بھارت کے دس طیارے تباہ کیے اور متعدد کو نقصان پہنچایا۔ 1965ء کی 17روزہ جنگ میں پاکستان نے مجموعی طور پر 35طیاروں کو فضااور 43کو زمین پر تباہ کیا جبکہ 32بھارتی طیاروں کو طیارہ شکن گنوں نے نشانہ بنایا۔ اس طرح مجمو عی طورپر بھارت کے 110طیارے تباہ ہو ئے اور پاکستان کے صرف 19طیارے اپنے ملک کے دفاع میں کام آئے۔
سمندری حدود کی حفاظت
جنگ کے آغاز کے دوسرے دن 7ستمبر کو اپنے ساحل کے دفاع کے لیے پاک بحریہ کے جنگی جہاز حفاظتی گشت پر مامور تھے کہ اس دوران نیول ہیڈکوارٹرز کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا، جس میں ہدایت کی گئی کہ جتنی تیزی سے ممکن ہو جنوبی دوارکا سے مغرب میں 120میل کی طرف بڑھیں اور شام 6بجے تک پوزیشن سنبھال لیں۔دوارکا میں بھارتی بحریہ کا ریڈاراسٹیشن اورفضائی اڈہ تھا۔ پاک بحریہ نے دفاعی جنگ لڑنے کے بجائے جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا۔ ساڑھے چار منٹ تک مسلسل بمباری کرکے50،50راؤنڈز فائر کیے، مطلوبہ ہدف تباہ کیا اور دشمن کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیا۔ اس کے علاوہ رن وے کو بھی مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا، جب کہ انفرااسٹرکچر اور سیمنٹ فیکٹری کو بھی راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔
جنگ ستمبر میں دشمن کے مقابلے میں چھوٹے مگر غیور اور متحد ملک نے دشمن کے جنگی حملوں کا اس پامردی اور جانثاری سے مقابلہ کیا کہ اس کے سارے عزائم خاک میں مل گئے۔ اس جنگ میں جنگی سازو سامان کی کم تعداد کے باوجود پاکستانی افواج اور قوم نے اپنے جوش، ولولے اور جذبہ شہادت سے ثابت کیا کہ وہ اپنی مقدس سرزمین کے چپے چپے کا دفاع کرنے کی ہر ممکن صلاحیت رکھتی ہیں اور انشاءاللہ آئندہ بھی ہمیشہ رکھیں گی۔