• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنوں کی غداری کے بعد انگریزوں سے تنہا لڑتے رہے

17فروری 1843 کی منحوس شام ڈھل چکی تھی، اپنوں کی غداری اور بزدلی کی وجہ سےحیدرآباد اور خیرپور کے میروں کا پرچم سرنگوں ہوچکا تھا۔ سر چارلس نیپیرفتح کی خوشی میں اپنے خون آلود ہونٹ چاٹ رہا تھا کہ شیر جیسی گرج نے اسے دہلا دیا۔ میرپور خاص کے مانکانی تالپوروں کی حکومت کا پھریرا بھی لہرا رہا تھا۔ ابھی میر شیرمحمد خان تالپور زندہ تھے۔ انگریزوں کو ابھی ایک اور جنگ لڑنا تھی، ایک اور معرکہ سر کرنا تھا۔میانی کی جنگ انگریز فوج نے اس لیے جیت لی تھی کہ حیدرآباد اور خیر پور کے حکم راں عوام سے بہت دور رہتے تھے اور انہوں نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے آخری وقت میں انگریزوں کی دوستیکا دم بھرا تھا۔برٹش سامراج،سندھ کے سینے میںمسلسل چھرا گھونپ رہا تھا لیکن حیدرآباد کا والی انگریزوں سے دوستی کے امکانات نظر انداز نہیں کرنا چاہتا تھا۔میانی کی جنگ مر نصیر خان کی شدید ترین خواہش کے باوجود نہ ٹل سکی۔ جب میر شیرمحمد خان تالپور کو میانی کی جنگ کا علم ہوا تو وہ حیدرآباد کے حکم راں کی مدد کے لیے دوڑا لیکن اسے تالپور حکمران کی شکست کی اطلاع ملی۔ کہا جاتا ہے کہ میر شیر محمد خان حیدرآباد پر انگریزوں کے قبضے کے بعد ٹنڈوالہ یار سے آگے بڑھ کر انگریزوں کا قلع قمع کرنا چاہتا تھا لیکن اسے، اس اقدام سے روک دیا گیااور اس سےکہا گیا کہ وہ فی الحال واپس چلا جائے۔

ایک روایت کے مطابق میرشیر محمد خان کے جنگی مشیروں نے انہیں مشورہ دیا کہ اس وقت لڑنا مناسب نہیں ہے۔ اس روایت کے برعکس نامور سندھی محقق ، مرزا عباس علی بیگ اپنے مضمون ’’دبی جی جنگ‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ ’’میجر آٹو رام نے کوئی حیلہ بہانہ کرکے انہیں وہاں سے لوٹنے پر مجبور کردیا‘‘۔ میر حاجی محمد بخش خان تالپور کے بیان سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ انگریزوں نے چالبازی سےکام لیتے ہوئے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے میر شیر محمد خان کو واپسی پر مجبور کیا۔ لیکن انہوں نے اس سلسلے میں ایک بالکل ہی مختلف واقعے کا تذکرہ کیا ہے ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’چارلس نیپیر نے میر صوبیدار خان تالپور کو لالچ دیتے ہوئے کہا کہ سندھ کے خطے میں میری کوئی دلچسپی نہیں ہے، میں حکومت تمہارے حوالے کرکے بمبئی لوٹ جاؤں گا، تم جس طرح سے بھی ہوسکے، شیر محمد خان کی حیدرآباد کی جانب قدمی رکواؤ۔ میر صوبیدار خان،قرآن پاک ساتھ لے کر ٹنڈو الہ یار پہنچا اور میر شیر محمد خان کو قرآن پر ہاتھ رکھ کر بتایا کہ انگریز سپہ سالار،حکومت اس کے حوالے کرکے سند ھ سے جارہا ہے، اگر بغیر لڑے ملک ہمارے پاس رہے توجنگ نہیں کرنا چاہئے۔ میر شیر محمد خان کو بخوبی علم تھا کہ میر صوبیدار خان غلط بیانی کررہا ہے لیکن قرآن کریم کا احترام کرتے ہوئے اس نے انگریزوں سے جنگ کرنے کا ارادہ ملتوی کرکے پیش قدمی روک دی۔ کچھ مبصرین کی رائے کے مطابق، اگر وہ اس وقت تھکی ہوئی انگریز سپاہ پر حملہ کردیتے تو چارلس نیپیر کی شکست یقینی تھی۔

میرشیر محمد جب اپنی پیش قدمی روک کر واپس ہوا اور میر صوبیدار خان اپنے مشن کی کامیابی کے بعداپنی کارگزاری کے بدلے انگریزوں سے مفادات حاصل کرنے کے لیےحیدرآباد واپس پہنچا تو انگریزوں نے اسے گرفتار کرلیا۔ میر شیرمحمد خان کو جب اس کا علم ہوا تو وہ فوراً انگریزوں سے جنگ کے لیے تیار ہوگیا، اس موقع پر ہوش محمد شیدی بھی شیر محمد تالپور کے پاس پہنچا اور اس کے فصلے کا خر مقدم کیا۔ دوسری جانب میر صوبیدار خان خان کو گرفتار کرنے کے بعد چارلس نیپیر اپنی فوج کے ساتھ حیدرآباد سے چند میل کے فاصلے پر نایجن جی گوٹھ پہنچ گیا۔ میر شیر محمد خان جو اس دوران پیش قدمی کرتے ہوئے حیدرآباد سے بارہ میل کے فاصلے پر پڑاؤ ڈالے ہوا تھا، اس نے نیپیر کو پیغام بھیجا کہ اگر وہ گرفتار شدہ میروں کو رہا کردے تو اسے سندھ چھوڑ کر واپس جانے کا راستہ دے دیا جائے گا۔ اس پیغام کا جواب انگریز سپہ سالار نے توپ کا گولا داغ کر دیاجس کے بعد دبی کے میدان میں دونوں افواج کا آمنا سامنا ہوا۔ اب تالپورحکم راں، جنگ میانی کی بہ نسبت مختلف پوزیشن میں تھے۔ بلوچوں نے گیارہ توپوں کے ساتھ انگریز فوج پر حملہ کردیا ، انگریزی فوج نے بھی توپوں سے گولے برسا کرتالپورر فوج کے بارود کے ذخیرے کو تباہ کردیا، جس سے بے شمار سپاہی شہید ہوگئے۔ اس کے بعد نیپیر نے پھلیلی کی طرف سے حملہ کیا لیکن اس محاذ پر اسے بلوچوں کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑااور وہ پسپا ہونے پر مجبور ہوگیا۔ اس ہزیمت سے غضب ناک ہوکر اس نے تالپور افواج پر مختلف اطراف سے حملہ کیا۔ ہوش محمد شیدی جس بہادری اور شجاعت سے لڑ رہا تھا ، اس سے انگریزوں کے چھکے چھوٹ گئے تھے۔ یہ حبشی غلام ، جو میروں کی فوج کا سپہ سالار تھا ،د دشمن پر قہر بن کر نازل ہوا ۔ جب انگریز فوج کی شکست کے آثار نظر آنے لگے تو چارلس نیپیر نے عیاری اور مکاری سے کام لیتے ہوئےتالپور لشکر کے چند ضمیر فروش سپاہیوں کو اپنے ساتھ ملا لیا ۔ ان غداروں نے بارود میں آگ لگا دی جس کی تباہی کے بعد تالپور سپاہ بے دست و پا ہوگئی۔ ہوش محمد شیدی کے سپاہیوں نے ہمت نہیں ہاری بلکہ تلوار اور نیزے سنبھال کر انگریزی فوج پر ٹوٹ پڑے ۔ ہوش محمد شیدی نے صورت حال کی نزاکت کوبھانپ کر میر شیر محمد خان کو میدان جنگ سے دور جانے کا مشورہ دیا لیکن شیر محمد خان نے کہا کہ ’’ سندھ کا شیر،جنگ کامیدان چھوڑ کربھاگ کر،مادروطن کی مٹی کو شرمندہ کرے یہ مجھے گوارہ نہیں، برطانوی جرنیل کو میرا زندہ جسم نہیں بلکہ لاش ملے گی‘‘۔ ہوش محمد شیدی نے دوبارہ اصرار کرتے ہوئے کہا کہ ’’سرکار آپ سے سندھ کے عوام کی امیدیں وابستہ ہیں، جب تک آپ زندہ رہیں گے ، سندھ دھرتی بھی زندہ رہے گی، اگر آپ نہیں رہیں گے تو سندھ کاستارہ بھی غروب ہوجائے گا‘‘۔ہوشو شیدی کے شدید اصرار پر میر شیر محمد تالپور نے میدان جنگ سے کوچ کیا، جس کے بعد گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ انگریزی فوج اس دور کے جدید ہتھیاروں سے لیس تھی جب کہ بلوچ سپاہی روایتی اسلحے کے ساتھ مقابلہ کررہے تھے۔ آخر کب تک لڑتے، ہوشو کی فوج کے تمام سپاہی شہید ہوگئے، ہوش محمد شیدی نے آخری سانس تک مقابلہ کیا ، بالآخراس نے بھی جام شہادت نوش کیا۔

مرزا عطا محمد شکارپوری نے اپنی تصنیف ’’تازہ نوائے معارک‘‘ میں لکھا ہے کہ’’ جب انگریزوں نے میروں کو حیدرآبادمیں قید کرلیا تو میر شیر محمد تالپور دبی میں ان کے خلاف خیمہ زن ہوا۔ پہلے ہوش محمد شیدی فوج کے ایک دستے کے ساتھ انگریز فوج کے ساتھ مقابلے پر آیااور بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگیا۔ پھر میر غلام علی ابن عبداللہ تالپور، رحیم خان تالپور ، کما ل خان مری ، تین سو بلوچ سپاہیوں کے ساتھ انتہائی بہادری سے لڑے اور انگریزوں کا کافی نقصان کیاجس سے نیپیرسخت ہراساں ہوا اور اس نے سیاسی چالبازی سے کام لیتے ہوئے بلوچ لشکر کے سرکردہ افسروں، محمد خان ٹھوڑھو، میر محمد خان اور غلام محمد لغاری کو ساتھ ملالیا۔ وہ عین لڑائی کے وقت میدان جنگ سے بھاگ گئے ، نتیجتاً تالپور فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

اس سے قبل کہ ہم میر شیر محمد خان کی ان سرگرمیوں کا تذکرہ کریں جو انہوں نے ہوشوشیدی کے اصرار پر میدان جنگ چھوڑنے کے بعد شروع کی ہوئی تھیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دبی کی جنگ میں تالپوروں کی شکست کے اسباب کا جائزہ لیا جائے، تاکہ ان کی ان غلطیوں کا علم ہو سکے جن کے باعث انگریز سندھ کے خطے میں قدم جمانے میں کامیاب ہوئے۔

اس سلسلے میں تالپور حکمران، میر نصیر خان کی عوام سے دوری اور سندھ کے میروں کا جنگ سے مسلسل گریز ، میانی کی جنگ میں شکست کا سب سے بڑا سبب تھا۔اگر یہ کہا جائے کہ میانی کی جنگ سے بہت پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی سندھ کے دو بڑے حصوں، حیدرآباد اور خیرپور میرس پر قابض ہوچکی تھی تو غلط نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں ہمیں ان تمام شرم ناک معاہدوں کو نہیں بھولنا چاہئے جوبعض سرداروںکے تعاون کی وجہ سے سندھیوں پر وقتاً فوقتاً ٹھونسے جاتے رہے۔ میانی کی جنگ میں دراصل انگریزوںنے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا، جس میں کامیاب ہونے کے بعد انہوں نے سندھی قوم پر ظلم و بربریت ، اورخطے میں لوٹ مار کا بازار گرم کیا تھا۔میرپور خاص کے حاکم میر شیر محمد تالپور نے انگریزوں کی بالادستی قبول نہیں کی جس کی وجہ سے دبی کی جنگ لڑی گئی جو مقامی سرداروں کے انگریزوں کی ایما پر غداری کے باعث تالپوروں کی شکست پر ختم ہوئی۔

سندھ کی ریاست کو چویاری نظام کے تحت تالپوروں کے تین خاندانوں نے آپس میں تقسیم کیا ہوا تھا۔ممتاز سندھی مؤرخ، مولائی شیدائی اپنی تصنیف ،’’ تاریخ ، تمدن سندھ‘‘، میں رقم طراز ہیں کہ میر علی مراد خان مانکانی او میر سہراب خان تالپورکےانتقال کے بعد تالپوروں کی آپس کی نااتفاقی نےانگریزوں کو سندھ پر قبضے کا سنہری موقع فراہم کیا۔ حیدرآباد اور خیرپور کے تالپور حکمرانوں نے انگریزوں کی حاکمیت تسلیم کرتے ہوئے تمام علاقہ ان کی تحویل میں دے دیا۔ حیدرآباد کے میروںسے شیر سندھ کے اختلافات کی اصل وجہ بھی یہی تھی۔ میر شیر محمد تالپور ،میانی کی جنگ میں میر نصیر کی شکست کےبعدحیدرآباد کے میروں کی مدد کے لیے پہنچے تھے مگرانگریزوں کی سیاسی ریشہ دوانیوں، عیاری اور مکاری کی وجہ سے انہیں راستے سے ہی واپس لوٹناپڑا۔

جنگ دبی کی شکست کا ایک اوربڑا سبب تالپور فوج میں شامل بعض سرداروں کی غداری تھی جنہوںنے اپنے کارندوں کے ذریعے بارود کے ذخیرے کو نذرآتش کرواکےاپنی ہی فوج کو بے دست و پا کردیا تھا۔ دوسری جانب سندھی فوج کسی ایک سپہ سالار کی ماتحتی میں نہ تھی بلکہ سپاہی اپنے اپنے قبیلے کے سرداروں کے احکامات کے پابند تھے۔ تالپوروں کو نومڑیوں، جوکھیوں، کلمتیوں اور چانڈیو نے عین میدان جنگ میںساتھ چھوڑ دیا۔ مولائی شیدائی نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے کہ’’ دبی کی جنگ میں تالپوروں کی شکست کے خطرے کو بھانپ کر بعض سرداروں کے مشورے پر شیر محمد تالپور ، ہوش محمد شیدی کو فوج کی باگ ڈور سونپ کر میدان جنگ سے چلے گئے تھےجس کے بعدبلوچ سردار ، ایک شیدی غلام کیزیرکمان لڑنا اپنی توہین سمجھ رہے تھے۔ ہوش محمد شیدی نے کئی بار پیغامات بھیج کر میدان جنگ کے آس پاس مقیم بلوچ سرداروں کو انگریزوں سے جنگ کی درخواست کی لیکن انہوں نے لڑائی سے علیحدگی اختیار کیے رکھی۔ ہوشو شیدی کی شہادت کے بعد انگریزوں نے مذکورو قبائل پر بھی حملہ کرکے سخت تباہی مچائی، جس کے بعد وہ مختلف علاقوں کی جانب فرار ہوگئے۔

دوسری جانب میر شیر محمد تالپور دبی کے میدان جنگ سے نکل کر میرپورخاص پہنچے اور عمر کوٹ کے قلعہ میں سکونت پذیر ہوگئے۔ ان کے وفادار سپاہی بھی میدان جنگ میں شکست کھانے کے بعد عمر کوٹ کے قلعہ میں پناہ گزین ہوئے۔ اس کے کچھ عرصے بعد انگریزوں نے اپنی قوت مجتمع کرکے،عمر کوٹ پر حملہ کرکے قلعہ پر یورش کی۔ تالپور فوج کے بچے کچھے سپاہوں نے ایک ہفتے تک انگریز فوج کا مقابلہ کیا بالآخر شکست کھاگئے اور قلعہ پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا۔ میر شیر محمد تالپور، عمر کوٹ سے فرار ہوکر تھرپارکر میں نوکوٹ کے قلعہ میں منتقل ہوگئے۔ وہاں پر اپنی فوج کو منظم کیا اور دس ہزار سپاہیوں کے ساتھ شہدادپور کے مقام پر انگریزوں کے مقابلے پر آئے لیکن اپنے ایک وفادار ملازم کی غداری کی وجہ سےوہاں سے بھی پسپائی اختیار کرنا پڑی جس کے بعد وہ سکرنڈ چلے گئے ۔ انگریزی فوج نے ان کا پیچھا کیا ، ہالا شہر کے قریب ایک نہر کے کنارے،جنرل جان جیکب اور جنرل رابرٹسن کی قیادت میں انگریزوں کی منظم فوج سے ان کا مقابلہ ہوا۔ اس جنگ میں ان کے سپاہی انتہائی بہادری سے لڑے لیکن یہاں بھی انگریزوں نے چالبازی کی سیاست سے تالپور فوج کے چند سرداروں کو اپنے ساتھ ملا لیا اور انہیں شکست ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے انگریزوں کے ساتھ طویل عرصے تک چھاپہ مار جنگ لڑی لیکنمسلسل ناکاموں کے بعد انہوں نے سندھ کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا اور کسی نامعلوم مقام پر روپوش ہوگئے۔ 

تازہ ترین