• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ہندوستان میں تین ہفتے گزار کر آیا ہوں۔ پہلے بھی کئی بار گیا لیکن اس بار ایک عجیب احساس میرے ساتھ چلا۔ پہلی مرتبہ محسوس ہوا کہ میں پردیس میں آیا ہوں۔

پورے معاشرے پر مذہب کی چھاپ بہت نمایاں تھی۔ ہندوستانی معاشرہ اب ہندو معاشرہ بنتا جارہا ہے۔ ہر چیز پر مذہب کا رنگ چڑھ رہا ہے۔ جس میں نریندر مودی کا تھوڑا بہت دخل ہوگا لیکن بہت سے دوسرے عوامل بھی کار فرما نظر آتے ہیں۔

توہم پرستی مذہب کے لبادے میں پروان چڑھ رہی ہے۔ لوگ جگہ جگہ مندر بنا رہے ہیں۔ میرے شہر روڑکی کی دلکش نہر کے بیچوں بیچ مندر کھڑا کردیا گیا ہے۔ جہاں جگہ کم ہے، چھوٹے چھوٹے پوجا گھر بنا دئیے گئے ہیں۔

لباس کی تراش خراش ایسی کردی گئی ہے کہ پہننے والے کا مذہب پہچانا جائے۔ سڑکوں کے کنارے جو چیز افراط سے بیچی جارہی ہے وہ مختلف دیوی دیوتاؤں کی رنگ برنگی چمکتی دمکتی مورتیاں ہیں۔

اس سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ لوگ اپنے گھروں میں بھی مندر بنارہے ہیں، غرض یہ کہ ہر جانب پوجا پاٹھ کا زور ہے جس سے اور کچھ ہو نہ ہو، ملک کی سیاست ضرور متاثر ہو رہی ہے۔

ہندوستان میں پہلی بار ہندو عقیدے کی بنیا د پر حکومتیں بن رہی ہیں اور عقیدے کا حساب بےباق کرنے کے لئے پھر یہی حکومتیں دھرم کے نام پر جو جی چاہے کررہی ہیں۔ سیاست مذہب کو بڑھاوا دے رہی ہے، مذہب سیاست کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر اسے فروغ دیتا نظر آرہا ہے۔

اس آنچ کے شعلوں کی لپیٹ میں مسلمانوں کا آنا طے تھا، سو وہ آکر رہے۔ ان کے خلاف نفرت کے مظاہرے کی خبریں آئے دن آرہی ہیں۔

شکر ہے کہ میں نے کہیں کوئی ایسا منظر نہیں دیکھا لیکن جو بات بہت واضح دکھائی دی وہ یہ تھی کہ مسلمان علاقے الگ سے پہچانے جارہے تھے۔

لوگوں نے بتایا کہ ایسے علاقوں میں عرصے سے آباد ہندو باشندے دوسرے علاقوں کو منتقل ہو رہے ہیں۔ مسلمان علاقوں میں غلاظت عام تھی، گلیوں اور سڑکوں کی حالت خراب تھی۔

صفائی ستھرائی کا وہ اہتمام نہیں تھا جو ہندو بستیوں میں دکھائی دیا۔ یہ ضرور ہے کہ گزرے ہوئے بہتر زمانوں میں متوسط طبقے نے اچھی زندگی گزاری ہوگی۔

اس کا پتا اس بات سے چلتا ہے کہ مسلمانوں نے بہتر مکان تعمیر کئے ہیں۔ ان میں جدید سہولتیں ہیں، ٹائل لگے ہیں، غسل خانے نئی وضع کے ہیں۔ ایئر کنڈیشننگ ہے یا بڑے بڑے کولر کام کر رہے ہیں۔

یہ اس دور کی نشانی ہے جب ہندوستان میں متوسط طبقہ فروغ پارہا تھا۔ اب میں نے تمام ہی لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ حالات دشوار ہوتے جارہے ہیں۔ کاروبار سست ہے، آمدنی کم ہو رہی ہے اور مہنگائی زوروں پر ہے۔

لوگ حکومت کا نام لے کر کہتے ہیں کہ وہ بھانت بھانت کے ٹیکس وصول کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ انسانی حقوق کی آواز اٹھانے والے بولتے بھی ہیں تو یوں لگتا ہے کہ ان کی بات میں تاثیر نہیں۔

اور آخر میں سب سے زیادہ حسّاس معاملہ۔ ہندوستان میں آباد مسلمان کیا سوچ رہے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں کیسا تلاطم ہے۔

معمر لوگوں کے سوچنے کا کیا انداز ہے اور نوجوانوں کو کیسی فکریں کھائے جا رہی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ تاریخ میں پہلی بار پورے ہندوستان کے سارے مسلمان کسی بات پر متفق ہیں، یہ کہ حالات اچھے نہیں۔ پہلی بار پورے ملک کے مسلمانوں میں یکساں ہراس پھیلا نظر آتا ہے۔

خاص طور پر نوجوانوں کا اندازِ فکر پریشان کن ہے۔ مجھ سے دو چار نے نہیں، دس بارہ نے نہیں، جتنے بھی ملے سب نے ایک ہی سوال کیا، یہ کہ برطانیہ جاکر وہاں آباد ہونے کے لئے کیا کرنا چاہئے۔

ان کی باتوں سے پتا چلتا تھا کہ انسانی اسمگلر نام کی شارک مچھلیاں آس پاس منڈلانے لگی ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں کو اپنے جال میں پھنسانے کی تدبیریں شروع ہو چکی ہیں۔

وہ مسلمان جن کی عمریں پچاس سے بڑھ کر ساٹھ کو پہنچنے والی ہیں۔ ان پر پریشانی حملہ آور نہیں ہوئی ہے، وہ زمانے کے نرم و گرم کو اچھی طرح بھگت چکے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ بھی گزر جائے گا۔

وہ یوں بھی نئی نسل سے کٹ چکے ہیں۔ ہندوستان میں نئی نسل تعداد کے لحاظ سے بہت بڑی ہے اور بظاہر اندیشوں میں مبتلا نہیں، ان کے دل و دماغ کیونکر کام کررہے ہیں، کچھ کہنا مشکل ہے۔

شاید ان کا مسجدوں میں آنا جانا کم ہے اور وہ برادری کے انداز فکر سے ذرا فاصلے پر رہتے ہیں لیکن اگر حالات یوں ہی رہے تو آگے چل کر ملازمتوں اور ترقیوں کے مسائل ان کے آگے دیوار بن کر کھڑے ہوں گے اور ضرور ہوں گے۔

پھر ان کے اندر کیسی لہریں اٹھیں گی، یہ بھی کہنا مشکل ہے۔ بس معمر لوگوں کی ذرا سی بچت یوں ہے کہ ہندو معاشرے میں بزرگوں کا احترام ابھی باقی ہے۔ میں جہاں بھی گیا، لوگوں نے ہاتھ جوڑے یا گھٹنوں کو ہاتھ لگائے۔ میں آئی آئی ٹی کے مہمان خانے میں ٹھہرا ہوا تھا جہاں مجھے شدید نزلہ ہوا اور ہچکیاں بندھ گئیں۔

میرے میزبان محمود علی مجھے ادارے کے شفاخانے لے گئے جہاں ایک ہندو ڈاکٹر نے مجھے بڑی توجہ سے دیکھا اور فوراً ہی دوا دی۔ پھر وہ مجھے چھوڑنے باہر تک آئے اور ہاتھ ملاتے ہی میری کلائی پکڑ لی اور بولے کہ آپ کو تو بخار ہے۔

مجھے دوبارہ اندر لے گئے اور بخار کی دوا دیتے ہوئے کہا کہ کل بھی میری ڈیوٹی ہے۔ ذرا سا بھی مسئلہ ہو تو چلے آئیے گا۔ میں متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ سب ایک جیسے نہیں ہوتے، یا ہوتے ہیں؟ (جاری ہے)                    

تازہ ترین