مرشد کہتے تھے کہ شاعری سمیت ہر تحریر کا ایک سیاسی پس منظر ہوتا ہے۔ جوانی میں یہ غالب کے ’مسائل تصوف‘ تھوڑے کم سمجھ میں آتے تھے اور باقیماندہ بنام ایمان تسلیم کر لئے جاتے تھے۔ شاید اسی چکر میں حلقہ ارباب ذوق ادبی اور سیاسی میں منقسم ہوا تھا جس کے سیاسی گروہ کے جنرل سیکرٹری منوبھائی اور ادبی کے سہیل احمد خان مقرر ہوئے تھے۔ اب یقین نہیں کہ پچاس سال بعد یہ ’مسائل تصوف‘ سمجھ میں آنے لگے ہیں یا عمر کے تقاضے کے باعث سٹھیا رہے ہیں کہ پنجاب کے ہسپتالوں کے نجیانے پر میر تقی میر کی ایک غزل کے بظاہر عاشقانہ شعر ذہن میں گردش کرنے لگے:
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
یہ اشعار شاید اس لئے طاق نسیاں سے کھسک آئے کہ میں کیا میری ایک پوری نسل پچھلے پچاس سالوں سے جو قلم گھسیٹ گھسیٹ کر کا غذوں کا ضیاع کر رہی ہے اس کا کسی پر بھی ذرہ برابر اثر نہیں ہوتا۔ اب امریکہ سمیت جب ساری سرمایہ دار دنیا میں یہ حقیقت پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ سماجی زندگی کے ہر شعبے کو نجی ملکیت میں دینا انتہائی ضرر رساں ہے اور تعلیم و صحت جیسی سہولتوں کو ریاستی سطح پر ہی بہتر چلایا جا سکتا ہے تو پاکستان کےحکمران سرکاری اسپتالوں کو نجیانے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔اس سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا گیا کہ پچھلے چالیس سالوں میں تعلیم کو نجی شعبے کے سپرد کرنے سے جو بیڑہ غرق ہوا ہے اب اس کا مداوا نا ممکن نظر آرہا ہے۔ حاکم وقت تو یہ نعرہ لگاتے تھے کہ وہ تعلیمی نظام کو مساوی بنیادوں پر لائیں گے : وہ تو ان سے ہو نہ سکا اور اب وہ بچا کھچا صحت کا نظام بھی اسی طرف دھکیل رہے ہیں۔
تعلیمی نظام کے نجیانے سے سوائے طبقاتی بعد کی گہرائی کے اور کچھ حاصل نہیں ہوا کیونکہ نام نہاد ـ’ماڈرن‘ تعلیمی اداروں سے علم و دانش میں تو اضاٖفہ نہیں ہوا، صرف کوٹ پتلون سینے والے درزیوں کی آمدنی بڑھ گئی ہے۔ اگر ہمارے نجی شعبے میں اتنے ذہین و فطین اور ’پھنے خان‘ موجود ہیں تو وہ کسی بھی کاروبار میں عالمی سطح پر کیوں نظر نہیں آتے؟ دنیا کے ہر ملک میں جن اشیاء کی پیداوار سے معاشی ترقی کی جا رہی ہے ان میں تو پاکستان کا نجی شعبہ سکڑاؤ کا باعث بن رہا ہے، ہاں صرف عوام کی بنیادی ضرورتوں اور مجبوریوں (صحت اور تعلیم) کو بیچ کر مال بٹورا جا رہا ہے۔یہ اب صرف نعرہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ مجبور اور لاچار عوام کی لوٹ کھسوٹ کی تمام حدیں پار ہو چکی ہیں۔ اور سب سے زیادہ المناک امر یہ ہے کہ حکمرانوں میں شامل بہت سے لوگوں کو یہ شعور بھی نہیں کہ وہ کر کیا رہے ہیں۔
بنیادی طور پر یہ شعور ہی ناپید ہے کہ ’سماج‘ بھی ایک چیز ہوتی ہے اور اس کے بہت سے تقاضے ذاتی سطح سے بالا تر ہوتے ہیں۔ سماجی خوشحالی اور بقا کے لئے ہی ریاست وجود میں آتی ہے اور افراد اس کا بھاری بھرکم بوجھ اٹھاتے ہیںوگرنہ ریاست جیسے ہاتھی کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اسی پس منظر میں معاشی ارتقاکے عمل میں انسانوں کی مجبوریوں کی ذمہ داری ریاست نے لینا شروع کی ہے۔ جاپان سے لے کر امریکہ تک بنیادی تعلیمی نظام ریاستوں کے سپرد ہے۔ یہ اس لئے ضروری سمجھا گیا کہ معاشرے میں پیدا ہونے والی نئی نسل کے ہر فرد کو زیادہ سے زیادہ مساوی مواقع فراہم کئے جائیں: انتہائی مفلس اور بالائی درمیانے طبقے کے بچوں کو ایک ہی ہائی اسکول میں پڑھا کر غریب کو یہ موقع فراہم کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی ہمت اور ذہانت سے مالی تہی دستی کے عذاب سے اپنے آپ کو محفوظ کر سکے۔ اسی طرح کا بندوبست صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے لئے بھی کیا گیا ہے۔ اب تو امریکہ کے2020 میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لئے ڈیموکریٹک پارٹی کے تمام امیدوار مفت صحت عامہ کا وعدہ کر رہے ہیں اور دیر بدیر ایسا ہو کر رہے گا۔پاکستان کی مراجعت الٹی ہے، وہ وہاں جارہا ہے جہاں سے دنیا نکل کر آگے جانے کی تیاری کر رہی ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں صرف ذوالفقار علی بھٹو نے سماجی کل کو افراد سے بالاتر سمجھ کر اس میں تبدیلیاں لانے کی کوشش کی۔ یہ بھی درست ہے کہ وہ بہت شدید غلطیوں اور کوتاہیوں کا شکار ہوئے جیسے صنعتی پیداوار کو قومی ملکیت میں لینانہایت ضرر رساں تھا۔ ان کی اس غلطی کا یہ مطلب نہیں کہ نجی شعبے کو بے لگام چھوڑ دیا جائے اور وہ عوام کی مجبوریوں کو بیچ کر اپنے محل تعمیر کرنے لگیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ صاحب جاہ کی ذہنی سطح اتنی پست ہے کہ وہ اجتمائی تقاضوں کے تصور سے بھی نا آشنا ہیں : وہ اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی اہلیت سے ہی عاری ہیں۔ اسی لئے ہر نیا دور پہلے سے بد تر ہوتا جا رہا ہے۔ اسی کی دہائی کے آغاز سے ہی میرے جیسے درجنوں ’قلم گھسیٹئے‘ چلا چلا کر کہہ رہے تھے کہ جہادی پروجیکٹ پاکستان کے اجتماعی مفاد کی نفی اور مستقبل کُش ہے لیکن کوئی سننے والا نہیں تھا۔ پھر بار بار یہ آہ و زاری بھی کی گئی کہ ریگن تھیچر کا لایا ہوا رجعت پسند سرمایہ دارانہ معاشی ماڈل بربادی کی طرف لے کر جائے گا لیکن کسی کے کانوں پر نہ جوں رینگی اور نہ ہی اس کا امکان ہے۔ اب تو دوستوں کے جنازوں کے ساتھ ساتھ حسرتوں کے جنازے بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ اگرچہ اس سارے عمل میں ہمارے’ ہاتھ تو قلم نہیں ہوئے‘ (جن کے ہوئے ان سے معذرت کے ساتھ)اور ہمارے سمیت اس شعر کے خالق بھی اچھی خاصی درمیانے طبقے کی زندگی جی کر روانہ ہوئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ ’بھسم‘ ضرور ہوئے ہیں۔ گویا کہ ’تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے‘ ’ہم نے سو سو طرح سے مر دیکھا‘!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)