• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ن لیگ، پیپلز پارٹی کے اعتراض پر JUI کے حکومت سے مذاکرات منسوخ، اپوزیشن رہبر کمیٹی آج فیصلہ کریگی

ن لیگ، پیپلز پارٹی کے اعتراض پر JUI کے حکومت سے مذاکرات منسوخ

اسلام آباد، راولپنڈی، مردان، پشاور (نمائندہ جنگ،نیوز ایجنسیاں) مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے اعتراض پر جے یو آئی نے حکومت سے مذاکرات منسوخ کردیے ہیں۔

حکومتی ٹیم سے رابطے اور مذاکرات کی خبروں پر اپوزیشن جماعتوں کے شدید ردعمل کے بعد جے یو آئی کی قیادت نے معذرت کرتے ہوئے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کو مذاکرات کی منسوخی سے آگاہ کردیا۔

سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ مذاکرات کا فیصلہ آج اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی کرے گی، تمام اپوزیشن کے اہداف ایک ہیں فیصلے بھی مشترکہ ہوں گے،اداروں میں تصادم نہیں چاہتے، وزیر مذاکرات کی بات کم دھمکیاں زیادہ دے رہے تھے، حکومت پروپیگنڈا کرکے غلط فہمیاں پیدا کررہی ہے، مذاکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، رہبر کمیٹی کےفیصلے پر عمل ہوگا۔

ادھر رہبر کمیٹی کا اجلاس کل طلب کرلیا ہے جس میں آزادی مارچ اور آل پارٹیز کانفرنس بلانے پر غور ہوگا۔

مصدقہ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے حکومتی ٹیم کے ساتھ رابطے اور مذاکرات کی خبروں پر اپوزیشن جماعتوں کے شدید ردعمل اور اظہار ناراضی کے بعد جمعیت کی قیادت نے حکومت سے مذاکرات کرنے پر معذرت کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو مذاکرات کی منسوخی سے آگاہ کردیا ہے اور واضح کیا کہ اتوار کی شب مولانا عبدالغفور حیدری کی رہائش گاہ پر ملاقات اور مذاکرات کو منسوخ سمجھا جائے۔

واضح رہے کہ ہفتے کی شب جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے اس بات کی باضابطہ تصدیق کی گئی تھی کہ اتوار کی شب اسلام آباد میں حکومتی نمائندوں سے جے یو آئی کے مذاکرات ہوں گے۔

اتوار کو جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے میڈیا کو ان مذاکرات کی منسوخی کی اطلاع دیتے ہوئے بتایا گیا کہ آج مولانا عبدالغفور حیدری نے ذاتی حیثیت میں حکومتی کمیٹی سے ملاقات کرنی تھی جو منسوخ کردی گئی ہے اور حکومتی مذاکراتی ٹیم سے مذاکرات کا اختیار پہلے سے موجود رہبر کمیٹی کو دے دیا گیا ہے جو اکرم درانی کی سربراہی میں کام کر رہی ہے۔

اس کمیٹی کا اجلاس آج 21اکتوبر کو اسلام آباد میں بلایا گیا ہے جس میں اہم فیصلے ہوں گے جن میں یہ فیصلہ بھی کیا جائے گا کہ حکومت سے مذاکرات کرنے ہیں یا نہیں اور اگر کرنے ہیں تو کیا اپوزیشن کی جانب سے اس ضمن میں کوئی لچک پیدا کی جائی گی یا پھر مذاکرات کے لئے وزیراعظم کے استعفے کی شرط پر ہی قائم رہنا ہے۔

مذکورہ نمائندے کے اس حوالے سے اپوزیشن کے بعض رہنماؤں اور جے یو آئی کے ذرائع سے رابطے کرنے کے بعد سامنے آنے والی صورت حال کے مطابق جمعیت علمائے اسلام اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا معاملہ سامنے آنے کے بعد مولانا فضل الرحمان کو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے جے یو آئی کے اس فیصلے کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ مذاکرات کے حوالے سے انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا جبکہ اپوزیشن کے مشترکہ اعلامیہ میں جو فیصلے شامل ہیں یہ فیصلہ صریحاً ان کی خلاف ورزی۔ 

مسلم لیگ (ن) کے ایک مرکزی رہنما نے اس فیصلے کو جے یو آئی کی سولو فلائٹ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کو اعتماد میں لیے بغیر اس قسم کا اقدام بداعتمادی کی فضا پیدا کر سکتا ہے۔ 

مذکورہ رہنما نے مولانا فضل الرحمان کے اس بیان کا حوالہ بھی دیا جس میں 16 اکتوبر کو انہوں نے حکومت کی جانب سے مذاکرات کے لئے کمیٹی کی تشکیل کے حوالے سے کہا تھا کہ وزیراعظم کے استعفے سے پہلے کوئی مذاکرات نہیں ہو سکتےاس لئے اب مولانا فضل الرحمان تنہا کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

تازہ ترین