دونوں درست ہیں لیکن دونوں کا مفہوم الگ ہے۔ مَنَّت (مِیم پر زبر کے ساتھ ) ارد و( پراکرت یا ہندی کہہ لیجیے )کا لفظ ہے اور یہ ’’ماننا ‘‘سے بنا ہے ۔اسی لیے قدیم اردو میں اسے ’’مانتا ‘‘ اور ’’مَنتا ‘‘بھی کہتے تھے۔ اس کا مطلب ہے عہد، قسم، وعدہ۔ یہ کسی نذریا نیازیا بھینٹ کا عہد کرنے کے مفہوم میں بھی مستعمل ہے۔مَنَّت ماننا محاورہ ہے۔ کسی مراد یا خواہش کی تکمیل کے لیے مَنَّت(میم پر زبر) مانی جاتی ہے ، جیسے :اس نے کام یابی کے لیے مَنَّت مانی ہے ۔مَنَّت پوری کرنا بھی محاورہ ہے۔ مراد پوری ہونے پر جب عہد کے مطابق کوئی نذر نیاز کی جائے تو اسے مَنَّت پوری کرناکہتے ہیں۔
جبکہ مِنَّت (میم کے نیچے زیر )کا مفہوم فارسی اور اردو میں ہے: التجا، التماس، عاجزانہ درخواست، نیز عاجزی، خوشامد۔یادرہے کہ مَنَّت(میم پر زبر) مانی جاتی ہے لیکن مِنَّت (میم کے نیچے زیر) کی جاتی ہے، جیسے: میں نے اس کی بہت مِنَّت کی۔مِنَّت کرناسے مراد ہے عاجزانہ درخواست کرنا ،کسی سے بھلائی یا احسان کی درخواست کرنا۔دراصل’’ مِنَّت ‘‘کی اصل عربی کا لفظ ’’ مِنَّۃ ‘ ‘(یعنی مِن نَ ۃ)ہے اوراس کے معنی احسان اور بھلائی کے ہیں ۔ عربی میں اس کا سہ حرفی مادّہ ’’م ۔ ن۔ن ‘‘ ہے۔ اسی سے مَنّان کا لفظ بنا ہے جس کامطلب ہے بہت احسان کرنے والا اور یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے ۔ لہٰذافارسی اور اردو میں ترکیب بنی مِنَّت کش ، جس کے معنی ہیں احسان اٹھانے والا،وہ جس پر احسان کیا جائے ، احسان مند، ممنون۔ اسی لیے اقبال نے کہا کہ:
نہیں مِنَّت کش ِ تاب ِ شُنیدن داستاں میری
خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری
(شُنیدن یعنی سننا۔گویا میری داستان کسی کی سماعت کی احسان مند نہیں ہے)۔
جو کسی کا احسان قبول کرلے یا احسان مند ہو اسے مِنَّت پذیر کہتے ہیں ۔ اقبال کا شعر ہے :
گیسوے اُردو ابھی مِنَّت پذیرِ شانہ ہے
شمع یہ سودائی دل سوزیٔ پروانہ ہے
لطف کی بات یہ ہے کہ فارسی میں شانہ کا مطلب کندھا بھی ہے اور کنگھی بھی۔