• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

بیورو کریٹس بدلنے کے بعد وزراء کے محکمے تبدیل کرنے کا فیصلہ

وزیر اعظم عمران خان نے لاہور میں حالیہ دورہ کے دوران ایک مرتبہ پھر وزیر اعلیٰ عثمان احمد بزدار کی مکمل حمایت کا اظہار کر دیا،عثمان بزدار کو بااختیار وزیر اعلیٰ بنانے کے لئے پہلے شہباز گل اور عون چودھری کو وزیر اعلیٰ ہائوس سے ہٹایا اور اس مرتبہ صوبہ میں اعلیٰ بیورو کریسی میں بڑے پیمانے پر رد و بدل کر کے میجر ( ر ) اعظم سلیمان کو چیف سیکرٹری اور شعیب دستگر کو آئی جی پنجاب تعینات کر دیا گیا،متعدد صوبائی سیکرٹری، کمشنر اور ڈپٹی کمشنربھی تبدیل ہو گئے، آئندہ صوبائی کابینہ کی باری ہے اور شنید ہے کہ عثمان بزدار کی پالیسیوں کی تائید و حمایت نہ کرنے والے وزیروں سے قلمدان واپس لینے اور بعض کے اہم محکمے تبدیل کر کے ہم خیال وزیر وں کو سپرد کیے جائیں گے ، اس سلسلہ میں فیاض چوہان کو بھی وزارت اطلاعات کا قلم دان دے دیا گیا۔ 

وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اپنی پالیسیوں کی حمایت نہ کرنے پر کابینہ میں شامل لاہور کے وزرا محمود الرشدید، میاں اسلم اقبال، ڈاکٹر مراد راس، ڈاکٹر یاسمین راشد سمیت نعمان لنگڑیال چیف وہپ سید علی عباس، جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے قریبی ساتھیوں سے نا خوش اور ان کی وزارتوں میں رد و بدل چاہتے ہیں جس وجہ سے فیاض الحسن چوہان، اسد کھوکھر کو اہم محکمے سپرد کرنے اور سبطین خان سمیت بعض دیگر ارکان اسمبلی کو وزارتیں ملنے کا امکان ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی، چودھری سرور اور چودھری پرویز الہیٰ جیسی مضبوط ترین سیاسی شخصیات کی موجودگی میں عثمان بزدار کو تبدیل کیا تو نیا پنڈورا بکس کھل جائے گا جس کو سنبھالنا مشکل ہو گا، عثمان بزدار وزیر اعظم سے غیر مشروط وابستگی رکھتے اور سمجھتے ہیں کہ ان کی وزارت اعلیٰ صرف اور صرف عمران خان کو خوش رکھنے میں قائم ہے، عمران خان نے 8کلب روڈ ایوان وزیر اعلیٰ میں تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے بھرے اجلاس کے دوران عثمان بزدار کے ساتھ مل جل کر گڈ گورنس اور انتظامی اصلاحات کے ذریعے پنجاب کو آگے بڑھانے کا عزم ظاہر کیا ۔ 

پنجاب میں کاشت کارزرعی اجناس کی امدادی قیمتوں میں کمی کے باعث شدیداضطراب کا شکا ر ہیں،پنجاب حکومت نے کسانوں کا دیرینہ مطالبہ پورا کر تے ہوئے گنے اور گندم کی قیمتوںمیں اضافہ کر دیا ہے ، گنے کی قیمت 180 روپے من سے 190 روپےمن اور گندم کی امدادی قیمت1300روپے من سے 1365روپے من مقرر کر دی گئی، گندم کی قیمت میں پہلے 50روپے من اضافہ کیا گیا لیکن شدید تنقید کے بعد مزید 15روپے اضافے کر دیا۔ کسان حلقوں کے مطابق گنے کی قیمت میں سات برسوں بعد 10روپے من اضافہ اور گندم کی قیمت میں پانچ سال بعد 65روپے من اضافہ ناکافی ہے جبکہ چینی کی بازار میں قیمت گزشتہ سال 52روپے اور اس وقت 75روپے کلو ہے ۔

صوبہ میں شوگر مل مالکان گنے کی کرشنگ میں تاخیر کر رہے ہیں، گنے کی خرید 15نومبر سے شروع ہونی چاہئے تھی لیکن دسمبر شروع ہونے کے باوجود ملیں بدستور بند ہیں ، کسانوں نے گنے کی کٹائی کے بعد گندم کاشت کرنی ہے جس وجہ سے گڑ بنانے پر مجبور ہو چکے ہیں، مل مالکان گنے کی ناقص وڑائٹی کا بہانہ بنا کر قیمتوں میں کٹوتی اور مڈل مین کے ذریعے کنڈوں پر گنا کم قیمت پرخرید نے کے ہتھنکڈے استعمال کر تے ہیں، شوگر مل مالکان نے کسانوں کو گزشتہ سال کی ادائیگیاں بھی کرنی ہیں جس سے گنے کی پیدا وار رواں سال 7فیصد کم ہو چکی ہے اور صرف 18لاکھ ایکڑ رقبے پر گنا کاشت ہوا ، شوگر سیس فنڈ جس کی گنے کی قیمت سے کٹوتی ہو تی ہے اس مد میں سرکاری خزانے میں 2ارب 20کروڑ روپے جمع ہو چکے ہیں۔ 

جس سے گنے کی کاشت والے علاقوں میں سڑکوں کی تعمیرو مرمت ہونا تھی وہ بھی خرچ نہیں ہو رہا جس سے دیہی علاقوں میں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں۔ وزیر خوراک پنجاب سمیع اللہ چودھری نے بتایا کہ صوبہ کی چار شوگر ملوںپتوکی شوگر مل قصور، العربیہ شوگر مل سرگودھا ، رمضان شوگر مل چنیوٹ، عبداللہ شوگر مل اوکاڑہ نے گنے کے کسانوں کو مجموعی طور پر گزشتہ سال کے 72کروڑ روپے ادا کرنے ہیں ، حکومت قانون سازی کر رہی ہے کہ کسانوں کو بقایا جات ادا نہ کرنے والی شوگرملوں کو گنا خریدنے کی اجازت نہیں دیں گے اورچینی کے سٹاک اور مل اثاثے فروخت کرکےکسانوں کی ادائیگیاں کریں گے ،برادر شوگر مل جس نے کسانوں کے ڈیڑھ ارب روپے ادا کرنے ہیں اس کی 15دسمبر کونیلامی کر رہے ہیں، ملوں اور ان کے اثاثے پہلی مرتبہ فروخت ہو رہے ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین