• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے گزشتہ ہفتے ملک بھر میں طلبہ نے جو مظاہرے کیے وہ کئی عشروں کے بعد پاکستان کی سیاست میں ایک مثبت اور خوش آئند پیشرفت ہے۔ 

 اس سے پاکستان کی نوجوان نسل میں سیاسی بیداری کا عندیہ ملتا ہے۔ پاکستان کی کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں ان کے اس مطالبے کی تائید کر رہی ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ طلبہ کی سرگرمیوں پر وہ پابندی فوری طور پر ختم کردی جائے، جو 35سال قبل ضیاء الحق کی حکومت نے عائد کی تھی۔

اس بات کو سمجھنے کے لیے کہ ان 35برسوں میں طلبہ اور نوجوان خاموش کیوں رہے اور اب اچانک ملک کے 35شہروں میں طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے انہوں نے اس قدر منظم مظاہرے کس طرح کیے، ہمیں تھوڑا پاکستان کے تاریخی پسِ منظر میں جانا پڑے گا۔ 

پسِ منظر یہ ہے کہ تحریک پاکستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اسٹوڈنٹ ونگ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن (ایم ایس ایف) نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ قائداعظم محمد علی جناح کی سیکورٹی سے لے کر مسلم لیگ کے جلسوں اور مظاہروں کے انتظامات تک سب کو ایم ایس ایف نے کنٹرول کیا۔ جہاں مسلم لیگ کے رہنما اور کارکن نہیں پہنچ سکتے تھے۔ 

وہاں ایم ایس ایف کے کارکنوں سے کام لیا جاتا تھا۔ اسی طرح کانگریس کا بھی اسٹوڈنٹ ونگ تھا۔قیام پاکستان کے بعد ایم ایس ایف کا وہی حشر ہوا، جو مسلم لیگ کا ہوا۔ اس وقت دنیا میں آزادی اور ترقی پسندی کی تحریکوں میں ایسی شدت موجود تھی، جس کا تاریخ انسانی نے پہلی مرتبہ تجربہ کیا تھا۔

 1950کے عشرے میں ترقی پسند طلبہ تنظیمیں تیزی سے مضبوط ہوئیں، ان میں خاص طور پر ڈیمو کریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (ڈی ایس ایف) خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ 

اسی عرصے میں پوری دنیا کی طرح دائیں بازو خصوصاً مذہبی رجحان رکھنے والی تنظیمیں بھی پوری شدت کے ساتھ وجود میں آئیں، جن میں انجمن طلبا اسلام (اے ٹی آئی) اور اسلامی جمعیت طلبہ (آئی جے ٹی) شامل تھیں اور بھی بہت سی طلبہ تنظیمیں اور فیڈریشنز وجود میں آئیں۔ 

پاکستان کی ہیئت مقتدرہ ترقی پسند طلبہ تنظیموں کے ابھرتے ہوئے سیاسی کردار سے لرزگئی تھی۔ اس نے ترقی پسند اور بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کو روکنے کے لیے طاقت کا استعمال شروع کردیا۔ 1953میں کراچی میں ڈی ایس ایف کے مظاہرے پر پولیس نے فائرنگ کی اور 6طلبہ شہید ہوگئے۔ یہ ریاست کی طرف سے تشدد کا دوسرا بڑا مظاہرہ تھا۔ 

اس سے پہلے 21فروری 1952کو ڈھاکا میں پولیس نے طلبہ کے اس مظاہرے پر فائرنگ کی تھی، جو عوام کی حمایت سے بنگلہ کو قومی زبان قرار دینے کے مطالبے پر احتجاج کررہا تھا۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 950اور 1960کے دو عشرے اور 1970کا نصف عشرہ عمومی ملکی سیاست کی طرح طلبہ سیاست میں بھی بائیں اور دائیں بازو کی کشمکش کا زمانہ تھا اور یہ کشمکش عروج پر تھی۔ 

اس کے بعد نظریاتی کشمکش اس طرح کی شدت کے ساتھ پھر کبھی دیکھنے میں نہیں آئی مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اس عرصے میں طلبہ سیاست دہشت گردی اور تشدد سے واقف نہیں ہوئی۔ زبردست اختلاف رائے کے باوجود اختلافی موضوع پر مکالمہ اور مباحثے ہوتے تھے۔ 

1954میں کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ ساتھ ڈی ایس ایف پر پابندی عائد ہوئی تو پھر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) اور نیشنل اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (این ایس او) جیسی ترقی پسند طلبہ تنظیمیں وجود میں آئیں۔ پھر میں نے یہ بھی دیکھا کہ دائیں اور بائیں بازو کی کئی طلبہ تنظیموں نے اپنی فیدریشن اور اتحاد قائم کیے لیکن انتہائی نظریاتی کشمکش کے باوجود اختلاف رائے کو برداشت کرنے اورتشدد سے گریز کرنے کا رجحان قائم رہا۔

1970کے عشرے کے آخری چند سالوں میں طلبہ سیاست میں تشدد اور دہشت گردی نے اپنے راستے بنائے۔ پہلے ہم نے طلبہ کے ہاتھ میں صرف چاقو اور کلپ دیکھے تھے، پھر اچانک ان کے ہاتھوں میں آتشیں اسلحہ خصوصاً کلاشنکوف دیکھنے لگے۔ 

اسی پرتشدد سیاست کو جواز بنا کر جنرل ضیاء الحق نے 1984میں طلبہ یونینز پر پابندی عائد کردی۔ 35سال کے بعد اجتماعی شعور نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ طلبہ یونینز پر پابندی کا فیصلہ غلط تھا۔ تعلیم صرف تدریس کا نام نہیں ہے، یہ تربیت بھی ہے اور وہ سب کچھ، جو انسان اپنے عہد میں سیکھنا چاہتا ہے۔ 

تعلیم کا یہ مقصد صرف اس صورت میں حاصل کیا جا سکتا ہے، جب طلبہ کو یہ احساس ہو کہ انہوں نے آگے چل کر اپنی قوم اور اپنے ملک کی قیادت کرنا ہے۔ انہیں ذمہ داری، تدبر اور برداشت سے کام لیتے ہوئے آگے بڑھنا ہے اور اپنے نظریات کے ساتھ دوسروں کے نظریات کا احترام کرنا ہے۔ 

1950اور 1960 کے دو عشروں اور 1970کے نصف عشروں کی طلبہ سیاست نے جو قومی سیاست کو دائیں اور بائیں بازو کے رہنما پیدا کیے، وہی آج پاکستان کی سیاست میں مقبولیت کی علامت ہیں۔ میں انتہائی معافی کے ساتھ یہ حقیقت گوش گزار کرنے کی جسارت کروں گا کہ طلبہ یونینز پر پابندی کے بعد جو سیاست دان پیدا ہوئے، انہیں یہ بھی نہیں پتا کہ دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کے تناظر میں ملکی اور عالمی سیاست کیا ہے اور خود ان کی اصل سیاسی شناخت کیا ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ طلبہ یونینز کی بحالی کے مظاہروں پر وزیراعظم عمران خان نے مثبت ردعمل کا اظہار کیا اور ان یونینز کی بحالی کی حمایت کی۔ 

ان مظاہروں سے قبل پیپلز پارٹی سندھ میں طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے قرارداد منظور کراچکی تھی اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی حکومت ان یونینز کی بحالی کے لیے اقدامات اور قانون سازی کے عمل میں مصروف ہے۔ 

جب پورا ملک اور سیاسی قوتیں طلبہ یونینز کی بحالی پر متفق ہیں تو اس میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔

تازہ ترین