• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدقسمتی سے ایک دوسرے کے پڑوسی اور اسلامی ممالک ہونے کے باوجود پاکستان اور افغانستان کے تعلقات افغان طالبان کے دَورِ حکومت کے علاوہ ہمیشہ تلخی کا شکار رہے ہیں۔ واضح رہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال وسطی ایشیا کے گیٹ وے کے طور پر افغانستان کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے اور پاک، چین اقتصادی راہ داری جیسے تاریخی منصوبے کے آغاز کے بعد پاک، افغان تعلقات کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ پاکستان کے مشرق میں ایک بڑی معیشت کا حامل مُلک، بھارت واقع ہے اور بھارت و افغانستان، پاکستان کے ذریعے ایک دوسرے کی تجارتی منڈیوں تک رسائی چاہتے ہیں۔ 

پاک، افغان تعلقات میں خرابی کی تین بنیادی وجوہ ہیں اور دونوں ممالک کو تقسیم کرنے والی ڈیورینڈ لائن تلخی کا اہم ترین سبب ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈیورینڈ لائن کو سرحد نہ ماننے کے باعث ہی افغانستان نے پاکستان کو ایک آزاد مملکت کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔ علاوہ ازیں، افغانستان کی جانب سے ’’گریٹر پختونستان‘‘ کے ایجنڈے کے تحت پاکستانی پشتونوں کو بہکانے کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔

تاہم، اسے ہمیشہ ناکامی کا منہ ہی دیکھنا پڑا۔ پاکستان کا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ ڈیورینڈ لائن، پاکستان اور افغانستان کے درمیان تسلیم شدہ سرحد ہے، جب کہ افغانستان کا ماننا ہے کہ ڈیورینڈ لائن کی مدّت ایک سو برس طے کی گئی تھی، جو ختم ہو چکی ہے۔ 

افغانستان اور سوویت یونین کے درمیان جنگ سے لے کر افغان طالبان کے دَورِ حکومت تک یہ تنازع دبا رہا۔ تاہم، نائن الیون کے بعد جب افغانستان میں امریکی اَشیر باد سے کرزئی حکومت قائم ہوئی، تو ایک مرتبہ پھر پاک، افغان سرحد پر اعتراضات اُٹھانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ 2006ء میں افغانستان کی جانب سے پاکستان پر در اندازی کے الزامات عاید کرنے کے نتیجے میں اُس وقت کے پاکستانی وزیرِ داخلہ، آفتاب احمد خان شیر پاؤ نے ڈیورینڈ لائن پر باڑھ نصب کرنے اور بارودی سُرنگیں بچھانے کی تجویز پیش کی، جسے افغان حکومت نے رد کر دیا۔ 

بعد ازاں، 2007ء سے 2014ء تک کے 7سالہ عرصے میں افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود شر پسند وں نے، جنہیں افغانستان اور بھارت کی حمایت حاصل تھی، پاکستان کو آگ اور خون میں نہلا دیا۔ 16دسمبر 2014ء کو انہی دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول، پشاور پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں 150سے زاید طلبہ شہید ہوئے۔ سانحۂ اے پی ایس کے فوراً بعد قومی اتفاقِ رائے سے پاک فوج نے آپریشن ضربِ عضب اور آپریشن رد الفساد کے ذریعے قبائلی علاقوں میں موجود دہشت گردوں کا صفایا کیااور دونوں ممالک کے درمیان غیر قانونی آمد و رفت روکنے کے لیے پاک، افغان سرحد پر باڑھ کی تنصیب شروع کر دی۔

تعلقات میں کشیدگی کا دوسرا اہم سبب افغانستان میں بھارت کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ہے، جو پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ نائن الیون کے بعد عالمی طاقتوں کی ایما پر بھارت نے افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری کی اور پاکستانی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں اپنے متعدد قونصل خانے قائم کردیے۔ نیز، اٖفغان انٹیلی جینس ایجینسی، این ڈی ایس کے ساتھ مل کر بھارتی خفیہ ادارے، را نے پاکستان کے قبائلی علاقوں، بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کے ذریعے تباہی پھیلائی۔ 

پاکستان اور افغانستان کے مابین خلیج کا تیسرا سبب افغان پناہ گزین ہیں۔ سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد لاکھوں افغان باشندوں نے پاکستان کی جانب نقل مکانی کی اور ان کے ساتھ ہی ہیروئین اور کلاشنکوف کلچر کی آمد سے پاکستانی سماج اور معیشت پر منفی اثرات مرتّب ہوئے۔ پھر افغان مہاجرین کی آڑ میں جرائم پیشہ اور جنگ جُو عناصر بھی پاکستان میں داخل ہوئے، جنہوں نے پاکستانی معاشرے کو شدّت پسندی کی طرف دھکیلنے میں اہم کردار ادا کیا۔

افغانستان اور بھارت کی ریشہ دوانیوں کے پیشِ نظر ذوالفقار علی بُھٹّو کے دَور میں پہلی مرتبہ پاکستان نے افغانستان کو اپنی تزویراتی گہرائی کے طور پر دیکھنا شروع کیا۔ نیز، سوویت یونین کی شکست اور خانہ جنگی کے بعد افغان طالبان کے ذریعے بھارت کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔ لہٰذا، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ باہمی تعلقات میں اعتماد کے فقدان کے پاکستان اور افغانستان دونوں ہی ذمّے دار ہیں۔ ایسے میں دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب آنے کے لیے حقیقت پسندانہ حکمتِ عملی اپناتے ہوئے ٹھوس اقدامات اُٹھانا ہوں گے۔ 

یاد رہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ افغانستان میں قیامِ امن پاکستان کے لیے بھی اشد ضروری ہے، کیوں کہ اس کے نتیجے میں عالمی طاقتیں نامساعد حالات سے فائدہ اٹھا کر خطّے کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال نہیں کر سکتیں۔ ڈیورینڈ لائن ایک حقیقت ہے اور افغانستان کو اسے تسلیم کرنا چاہیے۔ افغانستان کا یہ پروپیگنڈا کہ اس لکیر کے ذریعے پشتونوں کو تقسیم کیا گیا، یک سَر غلط ہے۔ دراصل، اس کی وجہ سے صرف دو قبیلے جُزوی طور پر تقسیم ہوئے۔ 

نیز، 1893ء میں جب برطانوی اور افغان حکومت کے درمیان معاہدۂ ڈیورینڈ لائن ہوا تھا، تو اُس وقت اسے افغانستان کے امیر، عبد الرحمٰن خان اور تمام قبائلی نمایندوں نے مِن و عن تسلیم کیا تھا۔ علاوہ ازیں، اب افغانستان کو یہ بات بھی تسلیم کر لینی چاہیے کہ اُس کا ’’گریٹر پختونستان‘‘ کا منصوبہ حقیقت کا رُوپ نہیں دھار سکتا اور ویسے بھی اس حوالے سے زمینی حقائق ہمیشہ اس خواہش کے برعکس ہی رہے ہیں۔ اسی طرح افغان حکومت کو اس بات کا بھی ادراک کرنا ہو گا کہ افغانستان میں بھارتی اثر و نفوذ میں اضافہ پاکستان کے لیے قابلِ قبول نہیں، کیوں کہ اس کے سبب افغان اور بھارتی خفیہ اداروں نے مل کر پاکستان میں خون کی ہولی کھیلی۔ 

گزشتہ دنوں افغانستان میں صدارتی انتخابات ہوئے۔ اگر اشرف غنی دوسری مدّت کے لیے صدر منتخب ہوتے ہیں، تو یہ پاکستان کے لیے نیک شگون نہیں ہو گا۔ موجودہ افغان صدر امریکا اور بھارت کے آلۂ کار ہیں اور جب تک افغان امن عمل کا کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکلتا، پاکستان کو حددرجہ احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان خوش گوار تعلقات اس لیے بھی اہم ہیں کہ اس کے باعث پاکستان کی مغربی سرحد محفوظ ہو جائے گی۔ 

نیز، امریکا کو بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ افغان امن عمل میں پاکستان کا کردار اہم ترین ہے اور امریکی افواج کے افغانستان سے باعزّت انخلا کی خاطر پاکستان کی مغربی سرحدکو محفوظ بنانا ازحد ضروری ہے۔

تازہ ترین