کسی بھی معاشرے میں علم و ادب سے کنارہ کشی کوئی اچھی علامت نہیں ہوتی ۔ شکر ہے کہ ہمارے ہاں اب بھی ادب دوست او رکتاب دوست لوگ موجود ہیں۔اردو ادب اور ہمارے معاشرے کی زندگی کا ثبوت اس سال کثیر تعداد میں نئی کتابوں کی اشاعت سے بھی ملا ۔ پرانی کتابوںاور کلاسیکی ادب کے شاہکار وںکی بارِ دِگر اشاعت بھی اس بات کی شاہد ہے کہ لوگ اب بھی پڑھتے ہیں اور پڑھنا چاہتے ہیں، اچھی کتاب بِکتی ہے۔ تو آئیے 2019ءکے سال میں پاکستانی اردو ادب میں نثری اصناف میں شائع ہونے والی کتب کامختصر سا جائزہ لیتے ہیں۔
اُردو سے محبت کرنے والوں کو مژدہ ہو کہ گیسوے اردو جو کبھی منت پذیرِ شانہ تھی اب تاب دار ہے اور اہل قلم اور اہل علم اسے اور بھی تاب دار بنا رہے ہیںاوراپنی تحریروں سے (اقبال کے الفاظ میں )ہوش و خرد اور قلب و نظر شکار کررہے ہیں۔ اردو ادب۲۰۱۹ ء میں بھی پوری آب وتاب سے دمکتا رہا۔ نئی کتابیں شائع ہوتی رہیں، پرانی کتابوں کے نئے ایڈیشن بھی منظر ِ عام پر آئے، ادبی رسالے شائع ہوتے رہے، ادبی کانفرنسیں منعقد ہوتی رہیں، کتاب میلے سجے اور ان میں حسبِ سابق کتابیں کثیر تعداد میں فروخت ہوئیں ۔
اگرچہ کچھ لوگ حسب ِ سابق ادب کی تباہی اوراردوادب کے قارئین کی عدم توجہی کا رونا روتے رہے لیکن یہی لوگ کتابیں چھاپتے اور بیچتے بھی رہے۔ یہ درست ہے کہ کتابیں بہت گراں ہوگئی ہیں اور گرانی نے کتابوں کی فروخت پر برا اثر ڈالا ہے لیکن یہ کہنا کہ کمپیوٹر اور گشتی (موبائل) فون نے ادب کے قاری کو چھین لیا ہے اس لیے درست نہیں کہ مغرب میں ان کا استعمال ہم سے بہت پہلے سے اورہم سے بہت زیادہ ہورہا ہے لیکن وہاں کتاب اب بھی بِکتی ہے اور پڑھی جاتی ہے۔
البتہ مغرب میں بھی اب شاعری کم پڑھی جاتی ہے اوروہاں بالعموم ناول زیادہ فروخت ہوتے ہیں۔ بہرحال عرض یہ کرنا ہے کہ ادب اب بھی پڑھا جارہا ہے لیکن یادرہے کہ ایسا کوئی بھی جائزہ مکمل نہیں ہوسکتا کیونکہ ہر سال کتابیں اور رسائل اتنی کثیر تعداد میں شائع ہوتے ہیں کہ کسی فرد ِ واحد کے علم میں یہ سارا ذخیرہ نہیں ہوسکتا اور اگر علم میں ہوتو رسائی میں نہیں ہوسکتا اور اگر رسائی میں ہو بھی تو ہر کتاب کو پڑھنا ممکن نہیں ہوتا۔
ان معروضات کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی کتاب ، رسالے یا مصنف کا ذکر یہاں نہ ملے توبد گمان ہونے کی بجاے اسے اس عاجز کی کم علمی اور کوتا ہ دستی پر محمول کیجیے گا۔ بسا اوقات لاہور میں چھپی ہوئی کتاب کراچی میں دست یاب نہیں ہوتی۔ اورہاںکچھ خیال اخبار کی تنگ دامنی کا بھی کیجیے گا۔
سب سے پہلے فکشن یعنی افسانوی ادب کا ذکر کرتے ہیں۔سعادت حسن منٹو کی تمام تحریروں کے مستند متن کو تحقیقی بنیادوں پر مدوّن کرنے کابِیڑا شمس الحق عثمانی نے ہندوستان میںاٹھا یا اورپاکستان میں اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس نے اسے ’’پورا منٹو ‘‘کے نام سے چھاپنا شروع کیا ۔ اس سلسے کی تین جلدیں پہلے ہی چھپ چکی تھیں اور چوتھی جلد ۲۰۱۹ء میں منظر ِ عام پر آئی۔
نئے فکشن کاذکر کریں تو محمد الیاس مسلسل افسانے اور ناولٹ لکھ رہے ہیں اگرچہ انھیں وہ اہمیت نہیں دی گئی جو انھیں ملنی چاہیے۔ محمد الیاس کے افسانوں کا نیا مجموعہ’’چڑیاں اداس ہیں ‘‘ سنگ میل (لاہور) نے شائع کیا۔ بزرگ صحافی اور افسانہ نگار سید راشد اشرف (یہ انجنیئر راشد اشرف کا ذکر نہیں ہے )کے افسانوں کا مجموعہ ’’دہلیز اور دوسری کہانیاں ‘‘ کے عنوان سے اس سال فیروز سنز نے شائع کیا۔
محمد حفیظ خان سرائیکی کے تو ادیب ہیں ہی اردو میں بھی خوب لکھتے ہیں۔ ان کا نیا اردو ناول ’’انواسی ‘‘ اسی سال منظر ِ عام پر آیا ہے۔ ہمارے دیہات کے مسائل اپنے مخصوص اسلوب میں اس طرح پیش کرتے ہیں کہ خوابوں میں کھوئے قاری کو زندگی کی سنگین حقیقتیں عرش سے اٹھا کر فرش پر پٹخ دیتی ہیں ۔ اس طرح کی بے رحم حقیقت نگاری ان کے تجربات اور مشاہدات کی دین ہیں۔
سفرناموںکے ضمن میں بھی کہنہ مشق اہل ِقلم اپنی موجودگی اور اہمیت کا احساس اس سال دلاتے رہے۔ بزرگ سفرنامہ نگار مستنصر حسین تارڑ کا نیا سفرنامہ ’’ماسکو کی سفید راتیں ‘‘ اشاعت پذیر ہوا۔شاید بعض لوگوں کو حیرت ہو کہ تارڑ صاحب اسّی برس کے ہوگئے ہیں(اگرچہ لگتے نہیں ہیں)اور ان کا قلم ماشاء اللہ اسّی سال کی عمر میں بھی رواں ہے۔ امجد اسلام امجد بھی سرگرم ہیں اور ان کا نیا سفرنامہ ’’سفر پارے ‘‘ کے نام سے آیا۔ ارشدمحمود ناشاد نے حکیم محمد یوسف حضروی کا سفرنامہ مرتب کردیا جو ’’سیر ِ سوات ‘‘کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔
تحقیق و تدوین کے موضوع پر اس سال جو کتابیں شائع ہوئیں ان میں رشید حسن خان کی آخری کتاب ’’گنجینۂ معنی کا طلسم : اشاریہ ٔ دیوان ِ غالب ‘‘ کا درجہ یقینا بہت بلند ہے۔ اس میں غالب کے اردو کلام میں استعمال کیے گئے الفاظ و مرکبات کی فہرست مع اشعار پیش کی گئی ہے۔ رشید صاحب ، جن کو’’ خداے تدوین ‘‘بھی کہا گیا ،اردو کے ان محققین میں شمار کیے جاتے ہیں جو معیار پر کسی سمجھوتے پر تیار نہ ہوتے تھے اور اسی لیے بعض بڑے لکھنے والے اور نقاد بھی ان سے نالاں رہتے تھے۔
لیکن رشید صاحب جس معیار کا تقاضا دوسروں سے کرتے تھے اس پر پہلے خود پورا اترتے تھے۔ ان کی یہ کتاب ان کی زندگی میں شائع نہ ہوسکی اوران کی وفات کے تیرہ برس بعد بھی ہندوستان میں اس کی ایک ہی جلد منظر ِ عام پر آسکی ہے۔لیکن مجلس ترقی ٔادب (لاہور) نے اس کی تینوں جلدیں یک جا شائع کردیں۔
اس سال ادبی تنقیدکے موضوع پر مطبوعہ کتابوں میں عزیز ابن الحسن کی کتاب ’’محمد حسن عسکری: ادبی و فکری سفر‘‘ بھی قابلِ ذکر ہے۔ عزیز ابن الحسن ان اہل قلم میں شامل ہیں جنھوں نے حسن عسکری سے غائبانہ طور پر بیعت کی ہوئی ہے اور ادبی تنقید اور بالخصوص تنقید کے دبستان ِ روایت سے وابستہ ہونے کے سبب عزیز ابن الحسن نے مابعدالطبیعیات، جدیدیت اور مغربی تنقیدی نظریات پر اہم سوالات بھی اٹھائے ہیں اور اس کتاب میں ان کا جواب دینے کی بھی کوشش کی ہے جو اسلام آباد کی بین الاقوامی یونی ورسٹی نے شائع کی ہے۔
علامہ عبدالعزیز میمن ہمارے ان اکابر میں شامل تھے جن کی عربی دانی کے عرب بھی معترف تھے۔ محمد راشد شیخ نے علامہ میمن پر تحقیقی کام کیا ہے اور ان پر کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔ان کاایک اور عمدہ کام ’’مقالات ِ علامہ عبدالعزیز میمن ‘‘ کی صورت میں سامنے آیا ہے جس میں انھوںعلامہ میمن کے اہم علمی و تحقیقی مقالات بڑی جستجو سے تلاش کرکے مدوّن کیے ہیں۔ لاہور سے مجلس ترقیٔ ادب نے یہ کتاب شائع کی ہے۔ پروفیسر اشتیاق احمد مختلف موضوعات پر اہم مقالات اور مضامین جمع اور مرتب کرتے رہتے ہیں۔ اس سال انھوں نے الطاف حسین حالی کی تنقید، شاعری اور سوانح نگاری پر لکھے گئے معروف اہل علم کے مضامین جمع کیے اور اسے القمر (لاہور) نے’’حالی ‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ مفید کام ہے۔
صبیح رحمانی ے ’’اردو حمد کی شعری روایت ‘‘کے نام سے اردو کی حمدیہ شاعری پر اہم مقالات و مضامین مرتب کردیے جو اکادمی بازیافت (کراچی) نے بہت سلیقے سے شائع کردیے۔ ڈاکٹر علمدار حسین بخاری نے ما بعد نوآبادیات پر جو مقالے لکھے تھے انھیں ’’جدید ادب کا سیاق ‘‘کے نام سے کتابی صورت میں فکشن ہائوس نے شائع کیا۔یہ اہم موضوع پر اہم مقالات ہیں جو جدید تنقیدی مباحث پر ایک خاص زاویے اور نقطۂ نگاہ سے روشنی ڈالتے ہیں۔ نسیم عباس احمر کی مختصر کتاب ’’انتقاد ِ اردو فکشن : تنقیدی نظریات اور فکشن ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔
سید عامر سہیل نے معروف شاعر ظفر اقبال کی شاعری پر لکھے گئے مقالات اور تاثرات ’’ظفر اقبال: ایک عہد ایک روایت ‘‘کے نام سے مرتب کیے اوریہ کتاب لاہور سے کوآپرانے شائع کی۔ ابرار عبدالسلام نے محمد حسین آزاد پر جو تحقیقی مقالے لکھے تھے انھیں ادارۂ یادگار ِ غالب نے ’’آزاد کی حمایت میں ‘‘ کے عنوان سے شائع کیا۔
ہماری جامعات میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی گرم بازاری سے اگرچہ تحقیق کامعیار کچھ گرا ہے لیکن کم از کم اتنا ضرور ہوا ہے کہ تحقیقی و تدوینی موضوعات پر بہت مقالے لکھے جارہے ہیں اور ان میں سے کچھ غنیمت بھی ہیں۔ایسے عمدہ تحقیقی مقالے شائع بھی ہورہے ہیں جن پر جامعات نے سند دی ہے۔ ان میں سے کچھ کا ذکر پیش ہے۔محمد طاہر قریشی کا پی ایچ ڈی کا عمدہ مقالہ ‘‘ہماری ملّی شاعری میں نعتیہ عناصر ‘‘ نعت ریسرچ سنٹر کے زیر اہتمام اشاعت پذیر ہوا۔
صفدر رشید نے شمس الرحمٰن فاروقی کی تنقید کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ پیش کیا جس پر انھیں پی ایچ ڈی کی سند ملی اور کتاب مجلسِ ترقی ٔ ادب نے ’’شعر، شعریات اور فکشن ‘‘ کے عنوان سے شائع کی۔ محمد یٰسین آفاقی نے ’’جدید اردو نظم میں ہیئت کے تجربے‘‘ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھا جو کتابی صورت میں مجلس ترقی ٔ ادب کے زیر اہتمام منظر ِ عام پر آیا۔
یہ مقالے نہایت محنت سے لکھے ہوئے ہیں اور مستقبل کے بارے میں کچھ امید بندھاتے ہیں۔ان کے علاوہ بھی کئی اچھے مقالے شائع ہوئے لیکن چند ہی کا ذکر ممکن ہے ، مثلاًفرزانہ کوکب کا عصمت چغتائی پر لکھا گیا پی ایچ ڈی کا مقالہ بعنوان ’’عصمت چغتائی : روایت شکنی سے روایت سازی تک ‘‘شائع ہوا۔ عابدہ بتول کا ایم فل کا مقالہ ’’اردو لغت نویسی کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ ‘‘ بھی شائع ہوگیا۔
سال دو ہزار انیس اردو کے مایہ ناز شاعر مرزا غالب کی ڈیڑھ سو سالہ برسی کا بھی سال تھا ۔ اس موقعے پر جو اہم کتابیںسامنے آئیں ان میں رشید حسن خان کی مذکورہ بالا کتاب کے علاوہ ڈاکٹر خالد ندیم کی کتاب ’’آپ بیتی :مرزا غالب ‘‘ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔اس میں غالب کی زندگی کا احوال اور واقعات مستند مآخذ سے اور خود غالب کے اپنے الفاظ میں پیش کیے گئے ہیں۔ نشریات (لاہور) نے اسے شائع کیا۔یار محمد گوندل نے غالب پر جو مضامین وقتاً فوقتاً لکھے تھے وہ ’’غالب : تحقیق و تنقید‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں یک جا ہوگئے۔ انجنیئر راشد اشرف نادر اور کم یاب کتابوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور انھیں دوبارہ زندہ کرکے ’’زندہ کتابیں ‘‘کے نام سے ارزاں داموںپیش کرتے ہیں ۔
اس سلسلے کی پچاس سے زیادہ اہم کتابیں وہ شائع کرچکے ہیں ۔اس سال انھیں ڈاکٹر یونس حسنی صاحب کے کتب خانے سے ’’اصہار الغالب ‘‘ کا ایک نسخہ ملا جسے انھوں نے پرویز حیدر کے ساتھ مرتب کرکے شائع کردیا۔ لفظ اصہار جمع ہے صہر کی اور اس کے معنی ہیں سسرالی رشتے دار۔ اس میں غالب کے سسرالی رشتے داروں اور ریاست لوہارو کا بھی ذکر ہے اور غالب کا شجرۂ نسب بھی دیا گیا۔اس کتاب کے ساتھ ’’بزمِ داغ ‘‘ بھی ایک ہی جِلد میں چھاپی گئی ہے۔
اقبالیات کے موضوع پر بھی اس سال حسب ِ سابق کئی کتابیںشائع ہوئیں جن میں سے چند اہم کتابیں یہ ہیں :فتح محمد ملک کی کتاب ’’اقبال، اسلام اور روحانی جمہوریت‘‘، صبیح رحمانی کی مرتبہ ’’اقبال کی نعت‘‘،ڈاکٹر محمد آصف کی’’اقبال اور نیا نوآبادیاتی نظام ‘‘ اور افضل رضوی کی ’’در برگ ِ لالہ و گل ‘‘ (دوسری جلد)۔
اس سال بھی محمد منیر سلیچ نے وفیات پر’’ حسب ِ عادت‘‘ کام جاری رکھا اور ’’وفیات ِ مشاہیر ِ خیبر پختون خوا‘‘مرتب کرڈالی جس میںاس صوبے سے تعلق رکھنے والی ان شخصیات کا ذکر ہے جن کی وفات اگست 1947ءسے فروری 2019ءکے عرصے میں ہوئی۔ منیر سلیچ نے فیض احمد فیض پر بھی ایک قابل ِ قدر کام پیش کیا۔ ہماری مراد ان کی کتاب ’’نوادرات ِ فیض ‘‘ سے ہے جس میں فیض کی شعری باقیات کے علاوہ ان کے غیر مطبوعہ خطوط ، دیباچے حتیٰ کہ نادر تصاویر بھی شامل ہیں۔
فیض احمد فیض پر پروفیسر فتح محمد ملک کی کتاب ’’فیض کا تصور ِ انقلاب ‘‘ بھی منظر ِ عام پر آئی۔منیر سلیچ نے اپنے نام آئے ہوئے معروف لوگوں کے خط ’’ادبی مشاہیر کے خطوط ‘‘ کے نام سے شائع کیے۔ غازی علم الدین کے نام آئے ہوئے مشاہیر کے خطوط حفیظ الرحمٰن احسن نے مرتب کیے جنھیں مثال پبلشرز (فیصل ّباد) نے ’’مشاہیر ادب کے خطوط بنام غازی علم الدین ‘‘شائع کیا۔
لسانیات کے موضوع پر اردو میں کم ہی لکھا جاتا ہے اور جو لکھا جاتا ہے وہ بھی اردو زبان کے آغاز کے نظریات اور املا وقواعد تک محدود ہے، یہ موضوعات یقینا لسانیات کا حصہ ہیں لیکن چھوٹا سا۔ لسانیات میں صوتیات اور سماجی لسانیات خاصے اہم موضوع سمجھے جاتے ہیں اور اردو میں جب ان موضوعات پر کوئی کتاب نظر آتی ہے تو طبیعت خوش ہوتی ہے۔ ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو کی کتاب ’’لسانیات تا سماجی لسانیات ‘‘ ان کی اپنی سندھی کتاب کا اردو ترجمہ ہے جو فکشن ہائوس نے شائع کیا ہے۔ساجد جاوید کی کتاب ’’اردو لسانیات اور مستشرقین ‘‘ تحقیقی نوعیت کی کتاب ہے جس میں اردو کے قدیم قواعد نویسوں اور لغت نویسوں کا حال بھی بیان ہوا ہے۔
لغات کی بات کریں تو پھچو محمد اقبال نے ’’بلتی ڈکشنری ‘‘ مرتب کی جسے پیرا ماونٹ بکس (کراچی) نے شائع کیا۔بلتی زبان اردو رسم الخط میں بھی لکھی جاتی ہے لیکن یہ لغت بلتی کے اپنے رسم الخط میں ہے جسے ’’اِگے ‘‘کہتے ہیں۔
اس میں بلتی الفاظ کے اردو اور انگریزی مترادفات درج ہیں ۔ لیکن تعجب ہے کہ سرورق پر’’بلتی ڈکشنری ‘‘کے بعد لکھا ہے ’’انگریزی اور اردو ترجمے کے ساتھ‘‘حالانکہ دولسانی لغت کو ’’ترجمہ ‘‘ نہیں کہا جاتا۔ اسے’’ بلتی۔اردو۔ انگریزی لغت ‘‘یا سہ زبانی لغت لکھنا چاہیے تھا۔
افسوس کہ اردو مزاح کا دور ِ زرّیں بیت گیا اور مشتاق احمد یوسفی صاحب بھی ،جو اس قافلے کے سالار تھے ، چلے گئے۔ لیکن کچھ کہنہ مشق لکھنے والے ابھی باقی ہیں، مثلاً ڈاکٹر محمد محسن ۔ ان کی کئی کتابیں قارئین سے داد پاچکی ہیں اور اس سال ان کی کتاب ’’ایک زن مرید کے خطوط ‘‘ شائع ہوئی ہے جو پوری کی پوری خطوط کی شکل میں ہے۔علامہ اقبال کو موضوع بنا کر لکھے جانے والے معروف اہل قلم کے مزاحیہ و طنزیہ مضامین ’’اقبال مزاح کی زد میں ‘‘ کے نام سے شجاع الدین غور ی نے مرتب کردیے۔ کتاب دل چسپ ہے اور اقبال کے نام پر مجاوری کرنے والوں پر بھی اس میں طنز ہے اور نام نہاد ماہرین ِ اقبالیات پر بھی۔ یہ اس سلسلے کی دوسری جلد ہے۔
’’سوانح عمری:علامہ راشدالخیری‘‘ رازق الخیری کی تصنیف ہے ، چونکہ یہ خاصی ضخیم تھی لہٰذا حاذق الخیری نے اس میں اس طرح تخفیف کی کہ تسلسل اور دل چسپی بھی برقرار رہے اور مولانا کی زندگی کی صحیح تصویر بھی سامنے آسکے۔ چنانچہ اس نئی صورت میں اس کا نیا ایڈیشن فیروز سنز نے شائع کیا۔ حاذق الخیری نے یہ کام نہایت سلیقے اورمہارت سے کیا ہے۔سوانح کا ذکر ہے تو معروف شکاری جم کاربٹ کی سوانح کا بھی نام آنا چاہیے۔
جم کاربٹ کو ہندوستان کے دیہات میں ’’کارپٹ ‘‘ صاحب کے نام سے جانا جاتا تھا ۔ اس کی سوانح انگریزی میں مارٹن بوتھ نے لکھی تھی جس کا اردو ترجمہ مسز رابعہ سلیم نے کیا اور اسے اٹلانٹس (کراچی ) نے ’’کارپٹ صاحب ‘‘ کے عنوان سے ’’زندہ کتابیں ‘‘کے سلسلے کے تحت شائع کیا۔ اہم خود نوشتوں کو دوبارہ پیش کرنے کے سلسلے میں راشد اشرف اور پرویز حیدر نے نواب سعید چھتاری کی خود نوشت ’’یاد ِ ایام ‘‘ بھی شائع کردی۔
اسی سلسلے کے تحت اسرار الحق مجاز کی بہن حمیدہ سالم کی آپ بیتی’’شورش ِ دوراں ‘‘بھی منظر ِ عام پر آئی۔ اسی جِلدمیں ان کی دوسری آپ بیتی ’’ہم ساتھ تھے‘‘ بھی شامل ہے۔ اس طرح قاری کو کم قیمت میں دو کتابیں دست یاب ہوجاتی ہیں۔ معروف مصور صادقین پرمطبوعہ و غیر مطبوعہ مضامین اور خاکوں کو سید سلطان احمد نقوی نے مرتب کیا اور یہ کتاب ’’شاعر ، مصور ، خطاط : صادقین ‘‘ کے عنوان سے زندہ کتابیں کے سلسلے کے تحت منظر ِ عام پر آئی۔
اے بی اشرف کے پُرلطف خاکوں کا مجموعہ ’’کیسے کیسے لوگ ‘‘ سنگ میل (لاہور ) نے شائع کیا۔ سید جمیل احمد رضوی نے اپنے پنجاب یونی ورسٹی لائبریری کے رفقا پر خاکہ نما مضامین لکھے تھے جو ’’آبگینے‘‘ کے عنوان سے پنجاب یونی ورسٹی نے کتابی صورت میں شائع کیے۔ ڈاکٹر مجاہدمرزا کی ضخیم خود نوشت ’’پریشاں سا پریشاں ‘‘ ہری پور سے شائع ہوئی ہے۔اصغر ندیم سید کے مضامین کا مجموعہ ’’دبستاں کھل گیا‘‘ لاہور سے سنگ میل نے چھاپا۔
ادبی رسائل و جرائد کی اہمیت کا اندازہ یوںلگایا جاسکتا ہے کہ کسی معاشرے کے اہم سماجی ، ادبی، لسانی اور فکری رجحانات پہلے پہل ادبی رسائل ہی میں جلوہ گر ہوتے ہیں اور سماج میں بعد میں نمایاں ہوتے ہیں ۔یوں ادبی جریدے معاشرے کی نبض ہوتے ہیں۔ مقام ِ شکر ہے کہ ہمارے ادبی رسائل نامساعد حالات کے باوجود نکل رہے ہیں ۔وہ جو کسی شاعر نے کہا ہے کہ :
ہاتھ دوزخ میں ڈال کر دیکھو
اک رسالہ نکال کر دیکھو
وہ کسی ادبی رسالے کے بارے میں ہو نہ ہو کم از کم صفدر علی خان نے اپنے ادبی رسالے ’’انشا‘‘ کے سلور جوبلی نمبر کے اداریے میں لکھ کر اسے ادبی رسالوں سے جوڑ دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ رسالہ اور وہ بھی اردو کاادبی رسالہ اس دور میں نکالنا کچھ ہنسی کھیل نہیں ہے۔ لیکن انشا اور بعض دیگر ادبی رسالے جو تسلسل سے نکل رہے ہیں ان کے مدیروں کو اس کی جتنی داد دی جائے کم ہے۔
راول پنڈی سے ممتاز شیخ صاحب ’’لوح ‘‘ نکالتے ہیں اور اس کا تازہ شمارہ اس لحاظ سے حیرت انگیز ہے کہ یہ نہ صرف بہت ضخیم ہے بلکہ اس میں پاکستان اور ہندوستان کے کم وبیش سبھی نمایاں اہل قلم کی نگارشات شامل ہیں۔مکالمہ (کراچی) کا سالنامہ بھی اسی لیے باعث ِ توجہ رہا ۔ ’’ماہِ نو ‘‘ نے منو بھائی نمبراور’’قومی زبان‘‘ نے جمیل جالبی نمبر نکالا۔ ’’ادب و کتب خانہ ‘‘ نے بھی جمیل جالبی نمبر شائع کیا۔
دیگر ادبی رسالے جو ہمارے ادبی منظر نامے کو مسلسل منور و تاباں کررہے ہیں ان میں سے چند کے نام بغیر کسی تقدیم و تاخیر یا ترجیح کے پیش ہیں: کولاژ(کراچی)، پیلوں (ملتان)، صحیفہ (لاہور)، اردو (کراچی)، الحمرا (لاہور)، نعت رنگ (کراچی)، لوح ِ ادب (حیدرآباد)، جرنل آف ریسرچ (ملتان)، ادب ِ لطیف (لاہور)، بے لاگ (کراچی)، تحقیق (جام شورو)، اخبار ِ اردو (اسلام آباد)، الماس (خیر پور)، دریافت (اسلام آباد)، امتزاج (کراچی) ، معیار (اسلام آباد)، مخزن (لاہور)اور دیگر کئی۔
یہ ایک مختصر جائزہ ہے اور اس میں ظاہر ہے کتابوں کی خاصی تعداد کا ذکر نہیں ہوسکا ہے اور ویسے بھی ایسا کوئی بھی جائزہ نامکمل ہی رہتا ہے کیونکہ اہل علم بلکہ اہل ’’کرامات ‘‘کے لیے بھی یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی سال شائع ہونے والی تمام کتابوں کانام بھی جان سکیں ، پڑھنا توحیطۂ امکان سے بھی باہر ہے۔
کراچی کی عالمی اردو کانفرنس
سال دو ہزار انیس میں حسب ِ سابق ادبی محافل زور و شور سے منعقد ہوتی رہیں ۔ ان میں سے کچھ بہت نمایاں رہیں ، مثلاً لاہور میں ہونے والا فیض میلہ اب ایک روایت کی شکل اختیار کرگیا ہے ۔ اس سال بھی بڑے پیمانے پر فیض احمد فیض کو خراج ِ تحسین پیش کرنے اور ان کے فکر و فن کی تفہیم کے لیے یہ میلہ سجایا گیا۔ اسی طرح لٹریری فیسٹیول بھی ہوتے رہے۔یونی ورسٹیوں میں ادبی کانفرنسیں بھی ہوئیں۔
کراچی اور لاہور میں عالمی کتب میلے بھی بہت کام یاب رہے۔ لیکن کراچی آرٹس کونسل کی سالانہ عالمی اردو کانفرنس اس سال بھی سب پر بازی لے گئی اور ۵؍ تا ۸؍ دسمبر منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں چوبیس (۲۴)ممالک کے دوسو (۲۰۰)سے زائد مندوبین نے ادب، زبان، ثقافت اور متعلقہ موضو عات پر گفتگو کی۔ اہل علم اور عام قارئین کی بڑی تعداد نے کانفرنس میں گہری دل چسپی ظاہر کی اور بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔
ناول اور تنقید و تحقیق کی طرف رجحان
بیسویں صدی کے آخری چند عشروں میں نقادوں میں یہ خیال عام ہوچلا تھا کہ اردو افسانے کے عروج نے اردو ناول کو دبا لیا ہے اور اب اردو میں بڑا ناول نہیں لکھا جارہا ۔ویسے بھی ناول نگاری ایک مشکل فن ہے۔لیکن بیسویں صدی کے آخری عشرے اور اکیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں اردو ناول کا احیا ہوا اور گزشتہ بیس پچیس برسوں میں پاکستان میں ڈیڑھ سو (۱۵۰)سے زیادہ اردو ناول لکھے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض بہت اہم ہیںاور ادبی پیمانے پر پورا اترتے ہیں ۔
دوسرا رجحان جو پچھلے چند برسوں سے پاکستانی اردو ادب میں نمایاں ہورہا ہے وہ یہ ہے کہ تنقید اور تحقیق پر بہت توجہ دی جارہی ہے اور سال ہاے گزشتہ کی طرح اس سال بھی تحقیقی اور تنقیدی موضوعات پرخاصی تعداد میں کتابیں منظر ِ عام پر آئیں۔کسی زمانے میں خیال تھا کہ اردو تنقید کے ضمن میں پاکستان اور اردوتحقیق کے سلسلے میں ہندوستان آگے ہے۔ لیکن اب ہندوستان میں بھی اردو تحقیق زوال پذیر ہو چلی ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ پاکستان میں اردو تحقیق و تنقید کا معیار نئے آنے والے محققین اور نقاد بلند رکھیں گے۔