سکھر سندھ کا تیسرا بڑا شہر ہے جہاں تاریخی عمارتوں کے ساتھ ماضی کے حکمرانوں کی جاہ و حشمت کے نشانات موجود ہیں۔ اس شہرکا نام بھی وقت کے پہئے کے ساتھ ادوار کے ساتھ بدلتا رہا لیکن جو نام عام فہم رہا ان میں سکھرہی قابل ذکر ہے۔ یہ شہر دو حصوں میں منقسم ہے، پرانا سکھر سطح زمین پر اور نیا سکھر پہاڑی بلندیوں قائم ہے۔ سکھرکے باسوں کے لیے یہ بات بھی احساس تفاخر کا باعث ہے کہ پاکستان کی 106 لائبریریوں میں جنرل لائبریری سکھر کو انفراد ی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ملک کی سب سے قدیم لائبریری ہے جس نے اپنے قیامکے 181سال مکمل کر لئے ہیں۔ جنرل لائبریری سکھر اپنی عمر کے لحاظ سے سکھر میونسپل کارپوریشن سے بھی قدیم ہے۔
یہ لائبریری جو عرصہ دراز سے جنرل لائبریری کہلاتی ہے،اسے1835ء میں انڈس فلوٹیلا کمپنی نے اپنے ملازمین کے لئےقائم کرکے اس کا نام اسٹیشن لائبریری رکھا تھا۔ 1835ء میں جہاز راں کمپنی انڈس فلوٹیلا قائم ہوئی تھی جس کا ایک سنگل اسٹیشن دریائے سندھ کے دائیں کنارے کی اس پہاڑی پر تعمیر کیا گیا جہاں آج کل سکھر میونسپل کارپوریشن کے دفاتر اور جنرل لائبریری واقع ہے۔
اس دور میں سندھ پر تالپور حکمرانوں کا راج تھا۔ 1843ء میں جب میانی کی جنگ کے بعد سندھ پوری طرح انگریزوں کے زیر نگین آگیا اور کیپٹن پوپ کوسکھر کاپہلا حاکم ضلع مقرر کیا گیا تو اس لائبریری کی حیثیت بھی متاثر ہونے لگی ۔
برطانوی فوج نے 1849ء میں جب کوٹری اور ملتان کے درمیان ریلوے لائن بچھا دی گئی تو آبی راستے سے تجارت کم ہونے لگی جس کے بعد انڈس فلوٹیلا جہاز راں کمپنی بھی توڑ دی گئی اور اسپیشل لائبریری کو جنرل لائبریری سکھرکا نام دے کر عام استفادے کے لئے قائم رکھا گیا۔ 1893ء میں جنرل لائبریری سکھر کے نام سے یہ لائبریری رجسٹرڈ ہوئی۔ابتدائی دور میں اس کا ذخیرہ کتب زیادہ تر انگریزی کتابوں پر مشتمل تھا۔ قیام پاکستان کے بعد نادر قلمی نسخے چوری اور مالی فنڈ خورد برد کرلیےگئے جس کے بعد لائبریری انتہائی دگرگوں حالات کا شکار ہوگئی۔
اس وقت ایسے افراد کی شدت سے ضرورت محسوس کی گئی جو اسے دوبارہ اس کاکھویا ہوا مقام دلا سکیں۔ اس ناگفتہ بہ صورت حال میں جن حضرات نے لائبریری کو دوبارہ ترقی کی جانب گامزن کیا، ان میں سابق ڈپٹی کمشنر سکھر آفتاب احمد خان، مہر الہی شمسی مرحوم، نصرت حسین سابق ڈپٹی کمشنر سکھر، نجم الاسلام صدیقی (شعبہ اردو سندھ یونیورسٹی)، اعظم الدین خان، الیاس یوسفانی سابق ڈپٹی کمشنر سکھر سید رحمان علی نقوی ایڈووکیٹ، مرزا افضل حسین، ڈاکٹر سید علی حیدر سرفہرست ہیں۔چنانچہ ان ادب نواز شخصیات کو ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں تاحیات اعزازی رکن منتخب کیا گیا۔
یہ قدیم لائبریری اب ایک ایسے علمی و ادبی اور تہذیبی و ثقافتی مرکزی حیثیت اختیار کر چکی ہے جو مطالعہ کتب اور اخبارات و جرائد کے مطالعہ کا ذوق و شوق بڑھانے کے علاوہ علم و ادب کے متعدد شعبوں میں تحقیق کرنے والوں کو بھی سازگار ماحول فراہم کرتی ہے۔ ادبی و ثقافتی تقاریب اور وقتًا فوقتًا نادرونایاب اور علوم جدید کی کتابوں کی نمائش کے سلسلے میں بھی اس لائبریری کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔
جنرل لائبریری سکھر میں نایاب کتب کے بیش قیمت نسخے موجود ہیں، جن کومجلس انتظامیہ نے بڑی احتیاط سے رکھا ہے۔ ان کتب میں ایشیا فائونڈیشن سے موصولہ نصابی اور جدیدعلوم کی کتب بھی شامل ہیں۔ دنیا کی تمام متمدن اقوام کتاب اور کتاب گھروں کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں اور تاریخ میں وہ اقوام نہایت بلند مقامی پر دکھائی دیتی ہیں جن کے ارباب و اختیار نے کتب خانوں کے قیام اور ان کی ترویج پر خصوصی توجہ دی ہے، خود ہماری تاریخ اس ضمن میں بہت روشن رہی ہے۔
جنرل لائبریری سکھر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ حکیم محمد سعید سمیت ملک کی اہم شخصیات نے یہاں کا دورہ کیا اور ریڈیو پاکستان حیدرآباد نے 29فروری 1971 کو بعنوان شہر نامہ صد سالہ جنرل لائبریری سکھر کی تقریب کا احوال نشر کیا۔ اس وقت جنرل لائبریری تعلیمی ترقی اور بیرون شہرسے آنے والے طالب علموں کی علمی معاونت میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔ اس کا اپنا ایک دستور ہے اور رجسٹرڈ باڈ ی کے تحت انتظام چلایا جاتا ہے۔
ایک مفکر کا کہنا ہےکہ کسی بھی قوم کی ترقی اور عظمت کا انحصار دیگر عوامل کے علاوہ ملک میں لائبریریوں کی سہولت اور کتب بینی پر بھی ہوتا ہے۔تہذیب و تمدن اور سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے کتب خانوں کی بنیاداور تنظیم لازمی ہے بلکہ کتب خانے معاشرتی دفاع کا موثر ترین ہتھیار ہیں۔ لائبریری کے قیام کا مقصد کتب کا حصول ،ذخیرہ کتب اور کتابیں قارئین کو استعمال کے لئے فراہم کرنا ہے۔
لائبریری ایک سیل رواں ہے، ازل سے ابد تک کیونکہ جو وقت کتابوں کی رفاقت میں گزرتا ہے وہ اپنی قیمت ادا کردیتا ہے۔ کتابوں کی محبت اپنے دید و دل کو فرش راہ کئے ایسے منتظر رہتے ہیں جیسے کسی شفیق ماں کی بانہیں اپنے بچوں کو سایہ عاطفت میں سمیٹنے کو بے تاب ہوں۔ کتابوں کی اپنی ایک الگ دنیا ہے جوکہ ان صفحات پر پھیلی ہوئی ہے ،الفاظ کی چاندی سے مل کر کتب بینوں پر ایک کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔
پرانے کتب خانوں اور موجودہ لائبریریوں میں یہ فرق ہے کہ اس زمانے میں کتب خانوں کی غرض و غایت صرف یہ ہوتی تھی کہ ادبی و ثقافتی دولت کو محفوظ رکھا جائے، لیکن آج کل لائبریریوں کے قیام کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ ان کتابوں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیاجائے۔ ایک ممتاز دانش ور کی رائے کے مطابق، لائبریریاں علمی جہاد میں فعال کردار ادا کرتی ہیں۔ کتابوں کو الماریوں میں حفاظت سے سجا ئے رکھنے کا میلان اور اس سے صرف ایک خاص طبقہ کے استفادہ کا رجحان بالکل جاتا رہا ہے ۔ لائبریری اور ثقافت گہرے رشتے سے منسلک ہیں۔
جنرل لائبریری میں جدید علوم و فنون کے علاوہ نصابی ضرورت کے تحت بھی ممکنہ حد تک کتابیں موجود ہیں۔ ریڈنگ روم میں مطالعے کے ساتھ کتابوں کے اجراء کا بھی انتظام ہے جس کی وجہ سے لوگ اس لائبریری سے بھرپور استفادہ حاصل کررہے ہیں۔ کتابوں کی فراہمی کے علاوہ ادبی و تہذیبی نمائش، تقاریب و کتب میلے کا اہتمام اس لائبریری کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ جنرل لائبریری کی اپنی ایک جداگانہ اہمیت ہے اور یہ اپنی خدمات کا ایک ایسا طویل ریکارڈ رکھتی ہے جو کم ہی پاکستان کے دوسرے علمی اداروں کے حصے میں آیا ہوگا۔ جنرل لائبریری سکھر کی یہ خوبی ہے کہ کم و بیش 181سال سے ایک دستور کے مطابق چل رہی ہے۔
یہ قدیم لائبریری ایک ایسے علمی و ادبی اور تہذیبی و ثقافتی مرکز کی حیثیت اختیار کر چکی ہے جو مطالعہ کتب اور اخبار و رسائل کے مطالعہ کا ذوق و شوق بڑھانے کے علاوہ علم و ادب کے متعدد شعبوں میں تحقیق کرنے والوں کو بھی سازگار ماحول فراہم کرتی ہے۔ ادبی و ثقافتی تقاریب اور وقتًا فوقتًانا در ونایاب کتب کی نمائش کے سلسلے میں بھی اس لائبریری کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔
ایک ماہنامہ جریدے نے (برطانیہ میں اردو نمبر) میں جنرل لائبریری سکھر کو برطانوی عہد کی مشہور لائبریری تحریر کیا ہے۔جنرل لائبریری کا قیام بذریعہ انڈس فلوٹیلا جہاز راں کمپنی 1835 میں عمل میں آیا اور1893 میں جنرل لائبریری سکھر کی رجسٹریشن ہوئی،لائبریری میں کتب کی تعداد 20000، شعبہ جات کتب 30عدد، شعبہ جات برائے استفادہ، عام پبلک، اطفال، طالب علم، تحقیق 5عدد،خواتین بذریعہ ہوم سروس 5عدد،تعداد انگریزی، اردو، سندھی (روزنامہ) 20عدد، تعداد رسائل ، اردو، سندھی، انگریزی، (ماہوار سہ ماہی ہفتہ روزہ) 25عدد،تعداد اجراء کتب 7سال کا اوسط 35ہزار 290 ہے۔
جنرل لائبریری میں روزانہ درجنوں افراد کتب کا مطالعہ کرنے کیلئے یہاں آتے ہیں، جن میں زیادہ تر طلبہ و طالبات ہوتے ہیں تاہم وکیل، ڈاکٹرز، صحافی، عام شہری بھی یہاں پہنچ کر تاریخی کتب سمیت اپنی مطلوبہ معلومات کے حصول کے لئے مختلف کتابوں سے استفادہ کرتے ہیں، مگر ان سب چیزوں کے باوجود سکھر لائبری کو اپنے قارئین کرام اور اس سے استفادہ حاصل کرنے والوں کے لیے علوم جدیدہ، کمپیوٹر معاشیات کامرس وغیر کی کتب درکار ہیں۔
جنرل لائبریری سکھر کے انتظام و انصرام کے لئے اس ادارے کو سکھر میونسپل کارپوریشن وفاقی اور صوبائی سطح پرکوئی ادارہ گرانٹ نہیں دیتا جو اس کے ترقیاتی کاموں کو خوش اسلوبی سے آگے بڑھانے میں معاون ہو یہی وجہ ہے کہ اس کے تعمیراتی منصوبوں کو آگے بڑھانے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔