• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 ندیم راعی مراد آبادی

جگر مراد آبادی سرزمین مراد آباد میں پیدا ہوئے جو ایک صنعتی شہر ہے جسے مغل شہنشاہ شاہجہاں کے ایک سپہ سالار رستم مراد نے بسایا تھا جو آج شہر جگر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہاں کی خاک نے جگر کے قدم چوم۔ اردو عربی فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ یہاں کی ایک دوشیزہ سے آپ کا نکاح ہوا۔ چشمہ فروشی کے کاروبار سے وابستگی کی۔ آپ کی طبیعت شاعری کی طرف مائل تو ضرور تھی لیکن آپ کے کلام میں وہ تغزل وہ بانکپن، سلاست روانی نہیں تھی جو ایک شاعر کو شاعر بناتی ہے۔

ایک سیاہ دن ایسا بھی آیا جب جگر صاحب کو معلوم ہوا کہ ان کی شریک حیات جسے وہ بے پناہ چاہتے ہیں بے وفا ہے.. دل تڑپ گیا، آنکھوں سے آنسوؤں کاسیلاب ابل پڑا۔ جگر کا جگر پھٹ گیا..... پہلے اپنی بیوی کو طلاق دی بعدازاں اپنے پیشے سے سبکدوش ہوکر شراب کو اپنی بانہوں میں لے لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک معمولی شخص علی سکندر، غیرمعمولی شہنشاہ تغزل جگر مراد آبادی بن گیا:

پہلے شراب زیست تھی اب زیست ہے شراب

کوئی پلا رہا ہے پئے جارہا ہوں میں

اے محتسب نہ پھینک میرے محتسب نہ پھینک

ظالم شراب ہے، ارے ظالم شراب

اس دیرینہ دور میں بھی جسے بعد میں جگر صاحب خود بھی دور معصیت کہہ کر یاد کرتے تھے، ان کی مزاجی کیفیت کتنی شریفانہ اور معصومانہ رہیں...؟ اس ضمن میں رشید احمد صدیقی فرماتے ہیں:

’’میں نے جگر صاحب کو ہر حال اور ہر صحبت میں دیکھا ہے۔ خوبصورت، نوجوان، آزاد منش عورتوں میں، ماں بہن، بیٹیوں میں، عمائد اور اکابرین کی موجودگی میں، طلبا، اساتذہ اور دوسرے سنجیدہ اور ثقہ حلقوں میں، گفتار و کردار کے اعتبار سے میں نے ان کو کہیں قابلِ گرفت نہیں پایا۔ ان کی زبان سے کوئی ہلکی بات نہ نکلتی تھی اور نگاہ کبھی بے باک اور بے حجاب نہ ہوتی تھی۔‘‘

جگر صاحب اصغر گونڈوی کی بڑی عزت کرتے تھے۔ ان کا حکم ہوا کہ ان کی چھوٹی سالی محترمہ نسیم سے وہ نکاح کرلیں تو انھوں نے نکاح کرلیا پھر انھوں نے کہا کہ وہ (جگر مراد آبادی) مسلسل چھ چھ ماہ گھر سے باہر مشاعروں میں رہتے ہیں۔ فرضِ ازدواج نبھانے سے قاصر ہیں لہٰذا اپنی بیوی کو طلاق دے دیں تو انھوں نے طلاق دے دی۔ جگر صاحب اپنی دوسری بیوی محترمہ نسیم کو بھی بے حد چاہتے تھے جس کا اظہار انھوں نے اپنے متعدد شعروں میں کیا ہے:

وہ کب کے آئے بھی اور گئے بھی نظر میں اب تک سما رہے ہیں

یہ چل رہے ہیں وہ پھر رہے ہیں یہ آرہے ہیں وہ جارہے ہیں

اُف وہ روئے تابناک چشم تر میرے لیے

ہائے وہ زلفِ پریشاں، تاسحر میرے لیے

اس سے بھی شوخ تر ہیں اس شوخ کی ادائیں

کرجائیں کام اپنا، لیکن نظر نہ آئیں

یہ پہلے زخم پر دوسرا زخم تھا جو بے حد شدید وکاری تھا جس کی شدت نے جگر صاحب کو غم کے اتھاہ ساگر میں ڈبو دیا۔ شراب کو اپنی محبوبہ بنا لیا اور ایسی ایسی اعلیٰ غزلیں کہیں اور انھیں اپنی نغمگی و دردبھری آواز دی کہ لوگ دیوانے ہوگئے۔جب وہ شعر پڑھتے تو ان کے کلام میں اتنا درد اور آواز میں اتنا سوز ہوتا کہ ان کے اشعار سننے کے بعد لوگ دل پکڑ کر رہ جاتے۔ یہ تاثیر کلام ہی تھی جس نے ان جیسے رندلا ابالی کو مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالسلام ندوی، شاہ عبدالغنی منگلوری اور دوسرے ثقہ و بزرگ ترین افرا دکو ہم نشیں بنا لیا تھا اور یہ پاک باز لوگ ان کے کلام سے لطف لینے پر مجبور ہوتے:

یاد ہیں اب تک جگر وہ بے قراری کے مزے

درد پیہم کی لگاوٹ زخم کاری کے مزے

بیٹھے ہی بیٹھے آگیا، کیا جانے کیا خیال

پہروں لپٹ کے روئے دلِ ناتواں سے ہم

حسنِ کافر شباب کا عالم

سر سے پا تک شراب کا عالم

دل میں کسی کی راہ کیے جارہا ہوں میں

کتنا حسین گناہ کیے جارہا ہوں میں

گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز

کانٹوں سے بھی نباہ کیے جارہا ہوں میں

کہاں تک عذاب محبت اٹھائیں

بس اب وہ ہمیں، ہم انھیں بھول جائیں

جمیل مہدی اپنے ایک مضمون میں فرماتے ہیں:

’’جگر صاحب دہلی کے ایک مشاعرے میں جب غزل پڑھنے بیٹھے تو نشہ میں اس قدر دھت تھے تقریباً بیس منٹ تک جھوم جھوم کر صرف ایک ہی مصرع پڑھتے رہے:

دل کو جلا کے داغ تمنا دیا مجھے

مشاعروں میں انھیں دیکھنے سننے والے سیلاب کی طرح امڈ پڑتے اور ان کے ہر قسم کے ناز نخرے اٹھاتے اور برداشت کرتے لیکن لوگوں میں ہمت نہیں تھی کہ دم مار سکیں۔ چپ چاپ بیٹھے رہتے۔ بیس منٹ کے بعد دوسرا مصرع یاد آیا تو آنکھیں نیم وا کرکے اس انداز میں سنایا کہ سامعین کلیجہ پکڑ کر رہ گئے:

اے عشق تیری خیر ہو یہ کیا دیا مجھے

یہ مصرع تقریباً دس منٹ تک گنگنانے کے بعد مقطع پڑھ دیا:

دعویٰ کیا تھا ضبط محبت کا اے جگر

ظالم نے بات بات پہ تڑپا دیا مجھے

مقطع پڑھنا تھا کہ مشاعرے میں جیسے رقت طاری ہوگئی، کئی طرف سے سسکیاں سنائی دیں اور جگر صاحب اٹھ کر چلے گئے۔ آدھ گھنٹے سے زیادہ وقت لے کر صرف چار مصرع وہی سنا سکتے تھے اور ان ہی سے سنے جاسکتے ہیں۔‘‘

جگر ایک بیدار انسان تھے۔ وطن پرستی وطن دوستی ان کے ریشے ریشے میں سمائی تھی۔ ان کے پیکر میں ایک عجیب و غریب انسان ملتا ہے۔ جو محبت ہی محبت شرافت ہی شرافت تھے عالم سرمستی میں بھی کبھی وہ انسانیت سے گرتے نظر نہ آئے بعض اوقات وہ اس اچانک طریقے پر خطرناک سے خطرناک سچ بول جاتے ہیں کہ حاضرین پر سناٹا چھا جاتا:

گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز

کانٹوں سے بھی نباہ کیے جارہا ہوں میں

بھاگ مسافر میرے وطن سے میرے چمن سے بھاگ

اوپر اوپر پھول کھلے ہیں بھیتر بھیتر آگ

کوچے کوچے گوشے گوشے لوٹ مچی ہے لوٹ

جنگل جنگل بستی بستی آگ لگی ہے آگ

قمر گونڈوی کے مطابق ’’ملک کے معروف و مقبول شعرا جگر صاحب سے ان کی رہائش گاہ گونڈہ ملنے آتے جن میں ڈاکٹر راہی معصوم رضا، نرالہ صاحب، شعری بھوپالی، گہر گورکھپوری، مجنوں گورکھپوری، ہندی گورکھپوری، شمیم جے پوری،فنا نظامی، مجروح سلطان پوری، نیاز فتح پوری، علی سردار جعفری، آنند نرائن ملا، عارف عباسی، قمر مراد آبادی سرفہرست ہیں۔ قمر مراد آبادی نہایت ہی خموش طبیعت انسان تھے۔ وہ چپ چاپ ایک طرف بیٹھ جاتے تھے۔ جگر صاحب تمام ملنے جلنے والوں سے ملاقاتیں کرتے رہتے نہ تو قمر صاحب ان کو اپنی طرف مخاطب کرتے اور نہ ہی جگر صاحب ان سے کچھ کہتے تاہم فرصت ملتے ہی اب صرف اور صرف قمر صاحب سے محو گفتگو ہوجاتے۔ اب چاہے آپ کے دیرینہ دوست مجسٹریٹ عبدالحمیدآئیں یا پھر آپ کے رازدار ہم نوالہ ہم پیالہ گونڈہ کے تحصیل دار جناب قیس الہدیٰ فاروقی ہی کیوں نہ ہوں اس وقت کوئی مداخلت نہیں کرسکتا۔ جگر صاحب کا کہنا کہ اب وہ اپنے گھر کی بات کررہے ہیں۔ اپنی سرزمین مرادآباد کے افراد کا حال چال پوچھنے میں محو ہیں.....‘‘

9 ستمبر 1960 کی علی الصبح جگر مراد آبادی اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ مشاعرے سونے پڑگئے ملک میں صف ماتم بچھ گئی۔ اردو ادب کا ایک شہنشاہ پرستانِ اردو کو روتا بلکتا چھوڑ گیا۔ ادبی آسمان گہن آلود ہوگیا۔ آپ کے جنازے میں قرب و جوار اور دور دراز سے لوگوں کے آنے کا لامتناہی سلسلہ جاری ہوگیا۔ نماز جنازہ آٹھ بار پڑھائی گئی۔ شعرا، ادبا، علما، فلاسفر، سیاست داں، اہل اقتدار، تجار و دیگر ہزاروں افراد نے جنازے میں شرکت کی۔ گونڈہ بسا بسا یا ادبی شہر قصہ پارینہ ہوگیا:

جان کر منجملہ خاصانِ میخانہ مجھے

مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ مجھے

خلیل الرحمن اعظمی نے جگر صاحب کی موت پر اپنے تاثرات کا اظہار جن لفظوں میں کیا تھا وہ آج بھی اتنے ہی سچے ہیں۔ ’’آخر وقت تک جگر کی شاعری میں پھیکاپن نہیں آیا ان کی آواز دوسرے شعرا ءکی طرح عمر ڈھلنے کے بعد پتلی نہیں ہوئی ۔ جگر اپنی عمر کی کسی منزل میں زمانۂ ماضی کے شاعر نہیں سمجھے گئے۔ ان کی موت کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اردو زبان نے اپنا ایک جوان بیٹا کھودیا ہے۔‘‘

……٭٭……٭٭……

تازہ ترین