کوٹ میر محمد خان ، خیرپور میرس شہر سے تقریباً بیس کلومیٹر کے فاصلے پر و مغربی سمت میں واقع ہے۔ پہلے یہ ایک وسیع و عریض قصبہ تھا لیکن اب ایک چھوٹے سے شہر کی صورت میں موجود ہے۔اس شہر کی بنیاد 1846ء میں تالپور خاندان کی ہمہ جہت شخصیت میر محمد خان تالپور ولد غلام حیدر خان نے رکھی تھی ۔ انگریزوں نے 1843میں سندھ کو فتح کیا۔ اس سے قبل یہاں تالپور میروں کی حکم رانی تھی،۔ اس شہر کے نوابین کے فلاحی و رفاہ عامہ کے کاموں کی وجہ سے سہراب پور کا نام تبدیل کرکے خیرپور میرس رکھا گیا تھا جو آج بھی اسی نام سے معروف ہے۔
پاکستان کے قیام تک اس کا شمار ایک آزاد ریاست میں ہوتا تھا جس پر تالپور میروں کی حکم رانی قائم تھی۔ 14 اگست 1947ء کو نئی مملکت بننے کے بعد3اکتوبر 1947ء کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے والی خیرپور کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھےجس میں طے کیا گیا تھا کہ نئی مملکت کے ساتھ الحاق کے بعد بھی خیرپور کی ریاستی حیثیت برقرار رہے گی لیکن اس کے8 سال بعد1955میں میجر جنرل اسکندر مرزا نے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالنے کے ساتھ ہی پاکستان کی خود مختار ریاستوں، قلات، بہاولپور اور خیرپور کی آزاد حیثیت ختم کرکے پاکستان میں انضمام کردیا، جس کے بعد تالپور خاندان کا شاہی پروٹول بھی ختم کردیا گیا۔
17فروری 1843ء میں جب انگریزوں نے سندھ پر حملہ کیا تو تالپور حکم رانوں اور انگریزوں کے درمیان حیدرآباد کے قریب میانی کے مقام پر خوں ریز جنگ ہوئی جس میں انہیں شکست ہوئی ۔ اس کی شکست کے بعد سندھ کے تمام میر اور سردار ہتھیار پھینک کر انگریز سپہ سالار سر چارلس نیپئر کے سامنے سرنگوں ہوگئے لیکن میر محمد خان دشمن کے سامنے حاضر نہیں ہوا اور اپنے اہل و عیال اور لشکر کے ہم راہ تھرپارکر کی سمت چلا گیا۔ کچھ عرصے بعد ہز ہائی نیس ، میر علی مراد خان تالپور اول کی کوششوں سےانگریز سرکار اور تالپور میروں کے درمیان مفاہمت ہوگئی۔
انگریزوں نے انہیں خیرپورکی ریاست واپس دے دی۔ 1846ء میں میر محمد خان تالپورنے اپنے دادا میر سہراب خان تالپور کی خریدی گئی جاگیر ، جو 1598ایکڑ رقبے پرمشتمل تھی، اس پر ایک چھوٹا سا شہر قائم کیا اور اس کے اطراف ایک کوٹ بھی تعمیر کرایا۔کئی بار دریائے سند د میں طغیانی اور آس پاس بہنے والی نہروں کی شوریدہ سر لہروں کی وجہ سے یہکوٹ اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکا لیکن اس کے گرد تعمیر کی گئی دیواروں کے آثار ابھی بھی باقی ہیں ۔
نئے شہر کی بنیاد رکھنے کے ساتھ ہی میرمحمد خان تالپور نے اپنی رہائش کے لیے یہاں ایک حویلی تعمیر کروائی، جو آج بھی قائم و دائم ہے اور تالپور خاندان کے جری اور نڈر حکم ران کی شان و شوکت اور عظمت کی گواہی دے رہی ہے۔ اسے ان کے نام سے موسوم کیا گیا اور یہ آج بھی ’’حویلی میر محمد خان ‘‘کے نام سے معروف ہے۔ فن تعمیر کے حوالے سے اس کا شمار خیر پور میرس کی اہم تاریخی عمارتوں میں کیا جاتا ہے۔
خیرپور میرس کی سابقہ ریاست کے حکم رانوں کی تعمیر کروائی ہوئی زیادہ تر عمارتیں مغلیہ اور راجستھانی فن تعمیر کاشاہ کار ہیں لیکن حویلی میر محمد خان سندھی فن تعمیر کا حسین و جمیل نمونہ ہے ۔ اس کی تعمیر کے لیے مقامی معماروں اور راج مزدوروں کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جنہوں نے اس کی تعمیر میں اپنی مہارت کے جوہر دکھائے ۔
حویلی میر محمد خان دو منزلوں پر مشتمل ہے جس کا اوپر کا حصہ اور دوسری منزل امتداد زمانہ کا شکار ہوکرزیادہ تر منہدم ہوچکی ہے، جب کہ نچلی منزل ابھی بھی محفوظ حالت میں ہے اور اس میں نوا ب میر محمد خان تالپور کی اولا د آج بھی رہائش رکھے ہوئے ہے۔ اس شاہ کار عمارت کی بنیادیں 15فٹ گہری کھودی گئی تھیں جب کہ زمین سے اس کی بلندی تقریباً 45 فٹ ہے۔
1894ء میں جب اس حویلی کی مرمت اور تعمیر و توسیع کا کام کیا گیا تو اس کے مرکزی راستے پر ایک عالی شان دروازہ نصب کروایا گیا جو ساگوان کی لکڑی سے بنوایا گیا تھا۔ مذکورہ دروازے کی بناو ٹ کوٹ ڈیجی کے قلعے میں نصب دروازے سے ملتی جلتی ہے۔ دروازے کی محرابی شکل کی بناوٹ نے اسے اور بھی زیادہ خوب صورت بنادیا ہے۔
مذکورہ حویلی کی دیواریں تقریباً تین فٹ چوڑی ہیں، جو مقامی طور پر تیار کردہ پکی اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب تالپور حکم رانوں نے سندھ پر اپنی حکومت قائم کی تو انہوں نے تعمیراتی فن کو فروغ دیالیکن اس خاندان کے دوسرے حاکم، میر رستم علی خان تالپور کے عہد تک خیرپور کی ریاست میں تعمیر کرائی جانے والی زیادہ تر عمارتوں میں ہندوستان سے منگوائے جانے والے پتھروں اور اینٹوں کا استعمال کیا گیا، لیکن ان کے بعد اقتدار سنبھالنے والے حکم رانوں نے عمارتوں کی تعمیر میں مقامی طور پر تیار کی جانے والی اینٹوں کو استعمال کیا۔
حویلی میر محمد خان کی دیواروں کی مقامی اینٹوں سے چنائی کے بعد کیچڑ کی لیپ کے اوپر سفید چن کا پلاسٹر کیا گیا ہے لیکن پلاسٹر کے گارے کی تیاری میں فن تعمیر کی ایک حیران کن ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے۔ کیچڑ اور چن کے ملغوبے میں اونٹنیوں کے دودھ کی آمیزش کی گئی تھی۔ فن تعمیر کے ماہرین کا اس بارے میں کہنا ہے کہ کیچڑ اور چن کے گارے میں اونٹنیوں کا دودھ ملانے سے دیواروں پر کیا جانے والاپلاسٹر انتہائی مضبوط ہوتا ہےاورصدیوں تک اس کی پائیداری قائم رہتی ہے ۔اس پر موسمی تغیرات اس پر کسی قسم کے اثرات مرتب نہیں کرتے۔
حویلی کی دیواروں پر بنے ہوئے کنگورے سادہ انداز میں منقش کیے گئے ہیں۔ حویلی میں دو ہال تعمیر کیے گئے تھے جو آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔ ان دونوں ہالوں کی چھت زمین کی سطح سے خاصی بلندی پر ہے جس کی وجہ سے ان میں قدرتی طور پر خنکی رہتی ہے اور انتہائی گرم موسم میں بھی ان کا درجہ حرارت نارمل رہتا ہے۔
حویلی کی چھتوں میں سیمنٹ ، بجری، اینٹوں یا پتھروں کی بجائےساگوان ، دیودار، شیشم، دیال اور صندل کی لکڑی کے بلاک یا تختے استعمال کیے گئے ہیں۔ ماہرین تعمیرات کے مطابق لکڑی میں درجہ حرارت کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے اور لکڑی سے تعمیر کی جانے والی چھتیں قدرتی ائیر کندیشنڈ کا کام کرتی ہیں۔
ان دونوں ہالوں میں نقش نگاری کا کام کیا گیا ہے جو بے انتہا دیدہ زیب ہے اور نظروں کو بھلا لگتا ہے۔ ان میں ایرانی اور مغلیہ آرٹ کی جھلکیاں نظر آتی ہیں، لیکن وقت کے ساتھ ، نقاشی کا یہ کام بھی دھندلا گیا ہے لیکن ان کی کشش آج بھی باقی ہے جو حویلی کی سیر کے لیے آنے والے سیاحوں کو اپنی گرفت میں جکڑ لیتی ہے۔
میر محمد خان تالپور نے حویلی میں ایک اوطاق (بیٹھک) بھی تعمیر کروائی تھی جس کی تعمیر میں پکی اینٹوں کا استعمال کیا گیا تھا۔ مذکورہ اوطاق ابھی بھی اصل حالت میں موجود ہے۔ میر محمد خان تالپور اسے درباقر کے طور پر استعمال کرتے تھے اور اس میں بیٹھ کر رعایا سے ملاقات کرتے تھے اور ان کے باہمی تنازعات اورمسائل نمٹاتے تھے ۔ اوطا ق کے ساتھ ایک اور عمارت بھی تعمیر کرائی گئی تھی جسے عدالت کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔
میر محمد خات تالپور نے 1862 میں وفات پائی۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کی تدفین روہڑی میں واقع تالپوروں کے آبائی قبرستان ’’قادر بخش جاقبو‘‘ میں کی گئی۔ ان کی تمام زندگی رعایا کے لیے فلاح و بہبود کے کاموں میں گزری۔ آج بھی ان کے پڑ پوتے ، کوٹ میر محمد خان میں رہتے ہیں۔