• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر محمد علی صدیقی کاشمار،اردو کے صف اوّل کے نقادوں میں ہوتاہے۔1950کے عشرے کے آواخر میں انہوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا اور پھر اگلے چالیس پینتالیس سال وہ اردو کے ادبی منظر نامے کا ایک ناگزیر حصہ بنے رہے۔پاکستان اور ہندوستان ہی نہیں بلکہ شرقِ اوسط،یورپ اور امریکا میں بھی جہاں جہاں اردو کی بستیاں آباد ہوئیں،وہاں کے ادبی حلقوں میں ان کا نام اور کام ہمیشہ زیر بحث رہا ۔محمد علی صدیقی ادب میں ترقی پسند اقدار کے علمبردار تھے۔

وہ ترقی پسند ی کی وکالت، جس طرح اگلے قدموںپر جاکر کیا کرتے تھے،یہ طریقہ ان ہی سے مخصوص تھا۔،تنقید نگاری میں بھی انہوں نے اپنی ایک علیحدہ پہچان بنائی۔وہ ترقی پسند روایت کا حصہ ہونے کے باوجود دیگر ترقی پسند نقادوں سے باآسانی متمیّز بھی کیے جاسکتے تھے۔ ڈاکٹر صدیقی نے بے انتہا پڑھا اور بے تکان لکھا۔ سترہ کتابیں ،سیکڑوں مضامین ،کئی ہزار کتابوں پر انگریزی اور اردو میں تبصرے دو مقامی انگریزی روزنامہ میں ’ایریئل‘ کے قلمی نام سے چالیس بیالیس سال تک ادبی کالم ’ لٹریری رائونڈ اپ‘ ،اُن کی زود نویسی ،نیز ان کے خیالات و افکار کے ایک بحرِ بے کنار ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

ڈاکٹر صدیقی کے مطالعے کی وسعت کی کوئی انتہا نہیں تھی۔اردو اورانگریزی ادب کا ،اُن کا مطالعہ غیر معمولی نوعیت کا تھا،یہی نہیں بلکہ انہوں نے دیگر علوم میں بھی خاصی عرق ریزی کی تھی۔اُن کی تحریر کا ایک خاص پہلو یہ تھا کہ وہ ادب کا مطالعہ دوسرے سماجی علوم کی مدد سے کرتے تھے، جس کی وجہ سے ان کی تحریر میں نہ صرف یہ کہ گہرائی پیدا ہوجاتی تھی بلکہ مختلف ادوار یا مختلف خطّوں کے ادب کا مطالعہ کرتے وقت،اُن میں ایک تقابلی جہت بھی اجاگر ہوجاتی تھی۔ 1962 میںان کی پہلی کتاب’توازن‘ شائع ہوئی تو اُس کے پیش لفظ میں انہوں نے اپنے ادبی مسلک اور منشور کا بڑے واضح الفاظ میں اعلان کردیا تھا۔

انہوں نے لکھا تھا کہ:’’میں ادبی تنقید کو سماجی فلسفہ کی شاخ سمجھتا ہوں ۔ادبی تنقید محض آہ اور واہ کا تاثراتی نظام نہیں ہے بلکہ بدلتے ہوئے ذوق کی عکاس ہے۔۔۔۔میں ادب کے سماجی منصب کے بارے میں فرانس کے زوال پذیر ادباء کی آراء سے کبھی بھی اتفاق رائے نہ کرسکا اور کچھ ترقی پسند نقادوں کی ملّائیت سے بھی متفق نہ ہوسکا ۔۔۔۔میں ادب اور پروپگینڈہ کے فرق کا قائل ہوں۔‘‘وہ مزید لکھتے ہیں کہ :

ادب ،اُن کا اوڑھنا بچھونا صر ف ان ہی معنوں میں نہیں تھا کہ وہ بہت زیادہ پڑھتے اور ہمہ وقت لکھنے لکھانے میں مصروف رہتے تھے بلکہ اس کا ایک بہت نمایاں پہلو یہ بھی تھا کہ وہ ادبی دنیا میں جاری بحث اور مباحثوں اور کسی حد تک معاصرانہ چشمکوں میں بھی اپنے وجود کا پورا پورا ثبوت دیتے تھے۔ہمارے ادب کی درخشندہ روایتوں میں ایک اہم اور دلچسپ روایت ادبی معرکوں سے عبارت ہے۔معرکہ ٔ انیس و دبیر سے بھی اس روایت کا مطالعہ شروع کریں تو بیسویں صدی کے دوسرے نصف تک بڑے تاریخ ساز معرکہ آرائوں میں محمد علی صدیقی بھی اپنی جگہ بناتے نظر آتے ہیں۔

1960کے عشرے میں جدیدیت کے خلاف ترقی پسندی کے نقطۂ نظر سے جو محاذ کھلا اُس کے شاید سب سے مستعد وکیل وہی تھے۔ پھر1970 کے عشرے میں نثری نظم کا موضوع نکلا توان کی بیسیوں تحریریں نثری نظم کے حوالے سے ان کے تحفظات پر مشتمل منظر عام پر آئیں۔اپنے انتقال سے قبل آٹھ دس برس سے وہ تسلسل سے مابعد جدیدیت کو اس کے سماجی اور بین الاقوامی تناظر میں ہدف تنقید بنائے ہوئے تھے۔لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ وہ جن ادیبوں سے معرکہ آراء ہوئے،خود انہوں نے صدیقی صاحب کے تبحّرِ علم کا اعتراف اور اُن کے دلائل کے وزن کو تسلیم کیا۔

جدیدیت کے علمبردار افتخار جالب ہوں یا نثری نظم کے سرکردہ وکیل قمر جمیل،دونوں نے محمد علی صدیقی سے اپنے اختلاف پر اصرار کے ساتھ ساتھ اُن کی ژرف نگاہی کا بھرپور اعتراف کیا۔قمر جمیل نے تو یہاں تک لکھا کہ محمد حسن عسکری اور ممتاز حسین کے بعد ہمارے درمیان صرف ایک نقاد زندہ رہ گیا ہے، وہ ہیں محمد علی صدیقی ۔خود صدیقی صاحب کے یہاں کٹّر پن نہیں تھا۔وہ بحث و مباحثے میں جہاں قائل کرنے کی طاقت رکھتے تھے وہیں قائل ہوجانے کی صلاحیت بھی ان میں تھی۔انہوں نے جن ادیبوں اور تخلیق کاروں کے بارے میں لکھا اُن میں سکّہ بند ترقی پسند بھی تھے اور غیر ترقی پسند بھی۔

لیکن شاید ناانصافی انہوں نے کسی سے نہیں کی۔اُن کی تحریروں میں تنقید تو بہت تھی کہ وہ تھے ہی نقاد،مگر تنقیص اور تحقیر ان کی تحریروں کا وصف کبھی بھی نہیں رہی۔شاید گفت وشنید میں تو وہ بعض ادیبوں کے بارے میں شخصی اور ذاتی نوعیت کے تبصرے کرسکتے تھے_اور ایسے تبصرے کون نہیں کرتا ،مگر اپنی تحریروں میں انہوں نے ہمیشہ ایک سنجیدہ معیار کوبرقرار رکھا،یہی وجہ ہے کہ ان کے مضامین ’فنون‘ اور ’اوراق‘ دونوں میں شایع ہوتے رہے جو دراصل دو مختلف دبستانوں کے نمائندہ تھے۔ادب کے حوالے سے بننے والا ان کا حلقہ بہت وسیع تھا۔

اس میں فیض احمد فیض اور سردار جعفری سے محمد حسن عسکری او ر سلیم احمد تک،احمد ندیم قاسمی ،فارغ بخاری اور احمد فراز سے وزیر آغا اور انتظار حسین تک ،سبط حسن اور شوکت صدیقی سے انیس ناگی،افتخار جالب اور قمر جمیل تک ،غرض مختلف نقطہ ہائے نظر اور متفرق رجحانات کے حامل اہل قلم شامل تھے۔ان میں سے بہت سوں کے ساتھ اُن کی خط و کتابت بھی برسہا برس جاری رہی۔اگر یہ ساری مراسلت بھی مدوّن ہوکر شائع ہوجائے تو یقیناً اس کی حیثیت ایک نادر علمی و ادبی ذخیرے کی ہوگی۔

ڈاکٹر محمدعلی صدیقی نے چند موضوعات پر بڑے تواتر سے لکھا ۔ایسے مضامین بعد ازاں کتابی شکل میں مدوّن ہوئے ۔چنانچہ ’غالب اور آج کا شعور‘،’سرسید احمد خان اور جدّت پسندی ‘،’تلاشِ اقبال ‘،’جوش ملیح آبادی _ ایک مطالعہ ‘، اور ’فیض احمد فیض _ درد اور درماں کا شاعر‘ اسی ذیل کی موضوعی کتابیں ہیں۔انہوں نے اپنی دیگر کتابوں میں ایک سے زیادہ موضوعات کا احاطہ کیا۔

ان کے مضامین کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ان میں ایک تووہ مضامین ہیں جو نظری مباحث یا نظری تنقید پر مشتمل ہیں۔ان مضامین میں علمی اور فکری سطح بہت نمایاں ہے۔ان میں تأثرات کی نہیں بلکہ فکرو فلسفے کی کارفرمائی ہے، ان ہی مضامین میں لسانی مباحث بھی شامل ہیں ۔ڈاکٹر صدیقی ان ادیبوں میں شامل تھے، جنہوں نے اردو ادب کے قارئین کو مغرب میں ہونے والی لسانی بحثوں ،خاص طور سے وٹ گن اسٹائن اور نوم چومسکی کے خیالات سے متعارف کروایا۔

ڈاکٹر محمد علی صدیقی 8 مارچ1938کو امروہہ کی مردم خیز سرزمین میں پیدا ہوئے۔اُن کی زندگی کا سفر مسلسل محنت اور جدوجہد سے عبارت تھا۔ انہوں نے بڑے نامساعدحالات کے باوجود تعلیم حاصل کی۔ ایم۔اے انگریزی ادبیات میں کیا،جبکہ اردو ادب کا ان کا مطالعہ زیادہ تران کے شوق کے وسیلے ہی سے آگے بڑھا۔یہ الگ بات ہے کہ ایم ۔اے کرنے کےسالوں بعد جب انہوں نے پی ۔ایچ ۔ڈی کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے لیے اردو ادب کا موضوع منتخب کیا۔اردو ادب سے ان کے شغف کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بیس بائیس سال کی عمر سے ہی ان کی تخلیقی اور تنقیدی تحریریں مؤقر ادبی رسالوں کی زینت بننی شروع ہوگئی تھیں۔

ایک زمانے میں انہوں نے انگریزی میں شاعری بھی کی اور کچھ دن تھیٹر سے بھی ان کا تعلق رہا لیکن پھر انہوں نے یکسوئی کے ساتھ تنقید کو اپنا شعبہ بنالیا۔پیشہ کے طور پر ایک طویل عرصہ صحافت کی دنیا کی بادیہ پیمائی کرنے کے بعد وہ تدریس کی طرف چلے آئے ۔ڈاکٹر صدیقی کی ایک اہم پہچان ارتقاانسٹی ٹیوٹ کا ادارہ اور علمی و ادبی جریدہ ’ارتقا‘ بھی رہا۔’ارتقا‘ اردو زبان میں ترقی پسند فکر کا ایک نمائندہ جریدہ ہے ،جو سائنس ،سماجیات اور ادب ،ا ن تینوں شعبوں کو اپنے صفحات میں جگہ دیتا ہے۔

سات سال قبل2013میں دنیا سے رخصت ہوئے لیکن تا حال انہیں بہ حیثیت نقاد یاد کیا جاتا ہے۔

تازہ ترین