مہوش لطیف
’’نوہٹو ‘‘، ماضی میں ایک عظیم الشان شہر تھا، لیکن حوادث زمانہ اور گردش ایام کی وجہ سے لوگ یہاں سے نقل مکانی کرتے رہے، آج یہ شہر سکڑ کر ایک چھوٹےسے گاؤں کی صورت میں موجود ہے۔اس کے قدیم آثار اور کھدائی کے دوران ملنے والے نوادرات پرکی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تہذیب بھی ہزاروں سال قدیم ہے۔نوہٹو کے کھنڈرات سے ایک مہر ملی ہے، جس کی تحریر موہن جو دڑو سے ملنے والی تحریر سے ملتی جلتی ہے۔یہ علاقہ دریائے ہاکڑا کے کنارے، نوکوٹ قلعے کےبرابر میں مشرق کی جانب جانے والے راستے پر 20 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
اس کے قدیم آثار تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کےرقبے میں پھیلے ہوئے ہیںجو گاؤں سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ہیں۔ان کھنڈرات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کسی دور میں’’ مہررانی کا قلعہ‘‘ تھا۔جنوب کی جانب’’ نونریوں‘‘ نام کا ایک قبرستان واقع ہےجس کے بالکل سامنے پریوں والی کنڈی ہے، جس سے بے شمار دیومالائی داستانیں منسوب کی گئی ہیں۔ویسے تو یہ سارا گاؤں قدیم آثار پر آباد ہے، لیکن اس کے آس پاس کا علاقہ اس پرانے شہرپر قائمہے ،جو میلوںدور تک پھیلا ہوا ہے۔جنوب میں چند کلومیٹر کے فاصلےپر’’میوہر کا دہر‘‘ ( ریت کا ٹیلا )واقع ہے ،جو ویران ہے۔
یہاں ’’میوہر‘‘ اور’’ مہراں‘‘ نامی دو جھیلیں ۔ مہراں جھیل کے کنارے دو قدیم قبریں ہیں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں مہررانی اور مگنہار فقیرمدفون ہیں۔نوہٹہ میں پھول نامی کنواں بھی ہے، جس کے بارے میںروایت مشہورہے کہ جب لاکھو فلانی، مہررانی سےشادی کرنے آیا تھا، تو اس نے اپنے باراتیوں کی آبی ضرورت پوری کرنے کے لیے یہ کنواں کھدوایاتھا۔مقامی آبادی کے مطابق نوہٹے کے تاریخی آثار سے متعلق بے شمار داستانیںمنسوب ہیں جو علاقے کے بزرگ سنایا کرتے تھے۔ ان میں سے’’ مہررانی اور لاکھو فلانی‘‘ کی داستان، ’’ادھے کیہر اور ہوتھل پری ‘‘کی داستانیں لوگ آج بھی چوپالوں میں دہراتے ہیں۔
اس علاقے کو جکھرے کا مقام بھی کہا جاتا ہے۔ جکھرو لسبیلہ کے حکمران تھے اور اس نام کے تین چار بادشاہ گزرے ہیں۔۔نوہٹو شہر،یہاں کی لوک داستانوں کی وجہ سےصفحہ ہستی سے مٹنے کے باوجود زندہ ہے ۔ ماضی میںیہ ایک اہم تجارتی مرکزکے طور پر مشہور تھا۔ اس کی سونے کی تجارت کا تذکرہ سن کر ، عمر وریا اور جروارنامی دو ڈاکوؤں نے اپنے گروہوں کے ساتھ شہر پر حملہ کیا۔ ان دونوں ڈاکوؤں نے یک ہی دن میں نہ صرف پورا شہر لوٹ لیا بلکہ لوٹ مار کرنے کے بعد اسے مکمل طور سے تباہ و برباد کردیاتھا۔اس کے قدیم آثارمیں سے اکثر و بیشتر زمین میں دبے خزانے ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔
جب بارش ہوتی ہے ،توگردو نواح کے علاقے کے لوگ’ ’سونے کی تلاش‘ ‘کے لیے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں سے انہیں سونے کے علاوہ اور بھی بے شمار اشیاء ملی ہیں جن میں زیادہ تر سکّے شامل ہیں ۔ تقریباً 10 سال قبل علاقے کے سماجی کارکن فقیر مقیم کی تحریک پران کے ساتھ حاجی اسماعیل خان نون، قدیم آثار کے ماہراور ممتاز مورخ،نبی بخش بلوچ اس علاقے میں آئے جنہوں نے نوہٹو کے کھنڈرات کی کھدائی شروع کروائی۔ اس سہ رکنی ٹیم کو یہاں سے ایک سیاہ رنگ کی مستطیل مُہر ملی جو موئن جو دڑو سے بازیاب ہونے والی مُہروں سے مشاہبت رکھتی ہے۔
اس مُہر پرموئن جو دڑو کی مہروں پر منقش کی گئی زبان کے تین الفاظ درج تھے۔ اس بات کا ذکرنبی بخش بلوچ نے اپنے ایک مقالے میں کیا ہے۔ نبی بخش بلوچ کی تحقیق کے مطابق یہ علاقہ سومرا دور میں’’ مریلہ ‘‘حکومت کا مرکز تھا۔ کھدائی کے دوران انہیں یہاں سےمٹی کا بنا ہوا ایک بندر، چوڑیوں کے ٹکڑے، مٹی کے گولے،سیپ کی چوڑیاں، عاج کا لمبا دانا (ہڈیوں سے بنا زیور) اور عرب حکمرانوں کے دور کے منصورہ اور مغل بادشا ہ محمد شاہ کے ادوار کے چند سکے بھی ملے۔یہ سکے بعد میں میر حسن نون اور فقیر وریام نے سندھی تہذیب کے معروف محقق عبداللہ وریاکے حوالے کیے جنہوں نے ان پر تحقیق و تفتیش کا آغاز کیا۔
جس کے بعد انہوں نے ایک تحقیقی مقالہ لکھا۔عبداللہ دریا کا لکھا ہوا مقالہ عبدالقادر منگی کی طرف سےمنعقد کیے جانے والے سمینار میں پڑھا گیا جس کے بعد یہ ’’’تھر‘‘نامی کتاب میں بھی شائع ہوا۔ انہوں نے اپنے طویل مقالے میں نوہٹو کے کھنڈرات سے بازیاب ہونے سکوں کو کشاں، عرب اور سمہ ادوار کے سکوں سے مشابہہ قرار دیتے ہوئے ان کے بارے میں تفصیل سے مضمون تحریر کیاہے۔یہاں سے رن کچھ میں چلنے والے چھوٹے سکے بھی ملتے رہے ہیں۔ نوہٹو کے کھنڈرات سے ملنے والے نوادرات فقیر وریام نے تین ڈبوں میں محفوظ کرکے رکھے تھے، لیکن ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹوں کی لاپروائی کی وجہ سے ان کا یہ تمام تاریخی اثاثہ ناپید ہوگیا۔
نوہٹو کے تاریخی آثار پر اب قدیم آثار اور محکمہ ثقافت کی جانب سے کھدائی کا کام ہورہا ہے۔ اس میں کراچی، خیرپور اور سندھ یونیورسٹی کے آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ کے طلبا،اپنے ڈین آف فیکلٹی ،پروفیسر قاصد ملاح کی زیرِنگرانی کام میں مصروف ہیں۔ان آثار کی کھدائی کے آغاز میں ہی بے شمار نادر اشیا دستیاب ہوئی ہیں جن میں مٹی سے بنے جانور کی گردن کا حصہ بھی شامل ہے جس پر آنکھوں اور ناک کے نقش و نگار نمایاں ہیں۔
سیپ سے بنے ہوئے زیورات برآمدہوئے ہیںجس کے بارے میں کھدائی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ قدیم ادوار کے لوگ سیپ سے زیور بنایا کرتے تھے جو نسل در نسل ایک دوسرے کو منتقل کیے جاتے تھے۔ مقامی آباد کے مطابق جب قبیلے کا کوئی بڑا مر جاتا تھا تو اس کے ساتھ یہ زیور بھی دفنا دئیے جاتے تھے۔ان زیورات کے بارے میں قدیم آثار کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نوہٹو سے برآمد ہونے والے زیورات کے لیے سیپ بحیرہ عرب کی سیپوں سے مماثلت نہیں رکھتے بلکہ ان کا تعلق کسی اور سمندر سے ہے۔
اس سے اس بات کے شواہد ملتے ہیں کہ نوہٹو کے باشندے کسی سمندر پار ملک سےہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے تھے جو شہرپر ڈاکوؤں کے حملے کے وقت یہاں سے فرار ہوکرکہیں اور جابسے۔نوہٹو کے کھنڈرات میںایک دیوار کے آثار بھی ملے جس کی کھدائی کا کام ابھی تک جاری ہے۔ان قدیم آثار سے مٹی کے کھلونے، چھوٹی گاڑیوں کے پہیے اور بہت ساری اشیا ء بھی ملی ہیں۔
نوہٹو کے کھنڈرات دیکھ کر سندھی زبان کے معروف شاعر،خلیل کنبہار نے اپنی نظم ’’سُکھاں‘‘ کے ذریعے اس تاریخی آثار کو اس طرح پیش کیا ہے۔’’تم جو آثار دیکھ رہے ہو، ان میں صدیاں آگ کی طرح دفن ہیں اور ان میں شہداء کا خوں بھی شامل ہے۔یہ پہلے ہوتھل کا محل ہوا کرتا تھا، جو اب ایک آثار بن کر رہ گیا ہے۔ ہو سکتا ہے صدیوں سے خاموش یہ محل تم سے بات کرلے‘‘۔