پیر محمد اسحٰق جان سرہندی فاروقی نقشبندی کی ولادت 1330ھ میں حیدرآباد (سندھ) میں ہوئی۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت شیخ احمد سرہندی فاروقی المعروف مجدد الف ثانی سے جاکر ملتا ہے۔ آپ کے والدِ گرامی پیر محمد اسمٰعی’’ ‘روشن سرہندی‘‘ فارسی اور سندھی کے صاحبِ دیوان شاعر اور تحریک پاکستان کے رہنماؤں میں شامل تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے مرشد اور نانا پیر خواجہ محمد حسن جان سرہندی اور والدِ گرامی پیر محمد اسمٰعیل سرہندی سے حاصل کی۔
بعد ازاں اپنے ماموں پیر محمد ہاشم جان سرہندی سے بھی تعلیم پائی۔ اس کے بعد آپ اجمیر تشریف لے گئے جہاں مولانا معین الدین اجمیری کی خدمت میں حاضر ہو کر اکتسابِ علم کیا۔ مزید تعلیم کے لیے سرہندشریف کا سفر بھی اختیار کیا۔ آپ نے کم عمری کے باوجود والدِ گرامی کے ساتھ تحریک خلافت میں بھرپور حصہ لیا۔ مسجد منزل گاہ سکھر کی تحریک میں بھی انمایاں کردار ادا کیا۔ انہوں نے مسلم لیگ میں شامل ہوکر تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لیا۔ جب قائداعظم محمد علی جناح میرپور خاص تشریف لائے تو پیر اسحق جان سرہندی نے ان کے استقبال کے لیے نوجوانوں کے رضاکار گروپ تیار کیے۔ ان نوجوان گروپوں کے قائد بھی آپ ہی تھے۔
قائد اعظم نے آپ کے جوش و ولولہ کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ یہ وہ دور تھا جب کانگریسی علماء انتہائی شد و مد سے مسلم لیگ کی مخالفت کر رہے تھے۔ان کے مقاصد میں یہ شامل تھا کہ مسلم لیگ کو سندھ میں کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیا جائے۔ یہ لوگ روپے پیسے اور کاروبار پر مکمل طور پر چھا چکے تھے۔
ان پُر آشوب حالات میں پیر محمد اسحٰق سرہندی کے نانا اور مرشد خواجہ پیر محمد حسن جان سرہندی نے ایک اخبار ’’الحنیت‘‘ کے نام سےجاری کیا جو ایک طرف مسلم لیگ اور مسلم عوام کی ترجمانی کرتا تھا تو دوسری طرف کانگریسی علما ءکی بھی خبر لیتا تھا۔ اس اخبار میں پیر محمد اسحٰق جان سرہندی کی چند سیاسی نظمیں ’’ساقی’‘ کے نام سے شائع ہوئیں جو انتہائی مقبول ہوئیں۔
انہوں نے تحریک خلافت، علی برادران اور پیر غلام مجدد سرہندی سے جو فیض پایا تھا، اس کی بدولت تحریک پاکستان کے مخالفین کو ہر محاذ پر شکست سے دوچار کیا، یہاں تک کہ اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان کا قیام عمل میں آگیا۔ قیام پاکستان کے وقت ہندو ،مسلم فسادات شروع ہوئے تو آپ نے رضاکار دستے تیار کر کے انہیں جہاد پر آمادہ کیا۔ ان رضاکار دستوں نے مہاجرین کی بحفاظت پاکستان منتقلی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد صورتِ حال یکسر تبدیل ہوگئی۔
وہ لوگ جنہوں نے حصولِ پاکستان کے لیے خونِ جگر دیا تھا اور اپنی جوانیاں جیلوں کی نذر کر دی تھیں، اپنا مال و دولت پانی کی طرح بہایا تھا اور ایک طویل اور انتھک جدوجہد کی تھی، پس پردہ چلے گئے اور وہ لوگ برسر اقتدار آگئے جو اس جدوجہد میں شریک ہی نہ تھے۔ وہ حضرات اور سیاسی رہنما جو’’ پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ ‘‘کے نعرے لگاتے تھے اور پاکستان میں اسلامی نظام کا ببانگ دہل اعلان کیا کرتے تھے، انہوں نے ملت اسلامیہ سے کیے گئے تمام وعدوں کو یکسر فراموش کر دیا اور اقتدارکے حصول کی جنگ میں کود پڑے۔
ان حالات نے پیر اسحٰق جان سرہندی کو بہت بد دل کر دیا، لیکن انہوں نے مسلم لیگ سے تعلق ختم نہیں کیا، بلکہ تاحیات مسلم لیگ ضلع تھرپارکر کے صدر رہے۔ لیکن سیاست سے زیادہ دینی و مذہبی خدمات میں مصروف ہو گئے، میرپور خاص میں انجمنِ اہل سنت و جماعت کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کے وہ صدر منتخب ہوئے، اس انجمن کے زیر اہتمام انہوں نے بڑے بڑے جلسے کیے اور اصلاح اخلاق کی بھرپور کوششیں کیں۔
ایوبی مارشل لا کے دور میں مخالفین نے آپ کے خلاف سازشیں کیں۔ آپ کو مولانا محمد عمر اچھروی کے ہمراہ گرفتار کر لیا گیا اور مارشل لا کورٹ میں پیش کیا گیا۔ گمان تھا کہ قوانین کے مطابق آپ کو کم از کم14 سال قید کی سزا تو سنائی جائے گی مگر انہوںنے نہایت جرات اظہا ر کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدالت میں فرمایا کہ ‘‘اگر حبِ رسول مقبولﷺ جرم ہے تو میں واقعی مجرم ہوں۔’’ چنانچہ اللہ کی مدد سے انہیں با عزت بری کردیا گیا۔1970ﺀ میں انہیں متحدہ محاذ تھرپارکر کا صدرمنتخب کیا گیا اور تا حیات چیمبر آف ایگریکلچر ضلع تھرپارکر کے صدر رہے۔ اس کے علاوہ وہ لاتعداد مذہبی و سیاسی انجمنوں کے بھی صدر رہے۔
پیر اسحق، سیر و سیاحت کے انتہائی شوقین تھے اور انہوں نے متعدد ممالک کی سیاحت کی۔ اسلامی ممالک کی تاریخ پران کی گہری نظر تھی۔وہ عربی، فارسی، اردو،سندھی، پنجابی، بلوچی اور سرائیکی زبانوں پر یکساں عبور رکھتے تھے اورانہوں نے بہت سی کتابیں تحریر کیں جن میں سیر العربی (حجاج کرام کی رہنمائی اور سہولت کے لیے)، سفرنامہ ایران، ضبطِ تولید، بنات ِ رسول (حضور اکرمﷺ کی صاحبزادیوں کی سوانح)، مجموعہ منازل سفر نامہ مشرقِ وسطیٰ (ناشر: اردو اکیڈمی سندھ)۔
اس کے علاوہ بہت سی کتابیں ابھی اشاعت کی منتظرہیں۔ انہوں نے آٹھ حج کیے۔ نویں حج کی تیاری کر رہے تھے کہ طبیعت خراب ہو گئی۔ چنانچہ 3 ذو الحج 1395ھ بمطابق 7 دسمبر 1975ﺀ کو کراچی میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔