نگرپاکر یعنی پارکر کا علاقہ جہاں اپنی الگ تاریخ و ثقافت رکھتا ہے وہاں کے کھانوں سمیت جڑی بوٹیوں سے تیار اشیاء کی ایک الگ فہرست ہے۔ہر خطہ یا علاقہ اپنی کسی انفرادیت، خصوصی پکوان یا مٹھائی کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے جیسے ٹنڈوآدم کی سجی یا حیدرآباد کی ربڑی۔ اسی طرح سے نگرپاکر کے تاریخی قصبے ــ ویراواکو’’ کھوئے ‘‘ کی وجہ سے شہرت حاصل ہے۔ یہاں کاکھویا اپنے ذائقے اورخالص ہونے کے باعث پورے خطے میں مشہور ہے۔ صوبہ سندھ کے دارالخلافہ کراچی سے یہ علاقہ کوئی 450کلومیٹر کے فاصلے پرواقع ہے۔
پارکر کی پہاڑیوں کا سلسلہ شروع ہونے سے قبل پہلی چیک پوسٹ کو عبور کر تے ہوئے سڑک نگرپاکر کی حدو د میں داخل ہوتی ہے تو بائیں طرف مڑنے والی سڑک ویراواہ کو جاتی ہے۔اس سڑک پر ڈیڑھ کلومیٹر سفر کرنے کے بعد ویراواہ پہنچنے سے قبل کھوئے کی اشتہا انگیز مہک اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ مسافر اپنی منزل کو پہنچ گیا ہے۔ ویراواہ میں بغیر کسی مخصوص ڈیزائننگ یا اشتہاری بینرزکے عام ہینڈ رائٹنگ سے کھوئے کی دکانوں کے نام درج ہیں۔
ان کے ساتھ بھٹیوں پر گھوٹا لگا لگا کر دودھ کو ابالتے ہوئے مزدور نظر آتے ہیں۔آپ کھویا گھر میں بھی تیار کرسکتے ہیں۔ دس کلو دودھ لے کراسے آگ پر رکھیں اور بڑا سا چمچہ اس میں اس وقت تک گھماتے رہیں جب یہ جم کر دو کلورہ جائے اس کے بعد اسے کسی خنک جگہ میں رکھیں۔اچھی طرح جمنے کے بعد یہ انتہائی خوش ذائقہ کھویا بن جائے گا۔
ویراواہ کی کھوئے کی دکانوں پر پہلی مرتبہ آنے والے گاہکو ں کو بغیر کسی قیمت کے مفت میں کھویا چکھنے کے لیے دیا جاتا ہے۔یہ ایک طرح سے نئے آنے والےمہمانوں کے استقبال میں خیر مقدمی تحفہ ہوتا ہے اوریہ روایت اپنا کر گاہکوں کی آئو بھگت انتہائی’’ شیریں‘‘انداز میں کی جاتی ہے۔
اس علاقے میں گزشتہ 40سالوں سے کھوئے کی دکان چلانے والے چچا احمد سموں نے نمائندہ جنگ کے سروے کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کھویا بنانے کا کام اس زمانے میں شروع کیا تھا جب پکی سڑکیں تھر نہیں پہنچی تھیں اور لوگوں کو آمدورفت میں انتہائی مشکلات کا سامنا تھا۔
ریگستانی ریت پرنگرپاکر سمیت مختلف دیہاتوں اور قصبوں کی طرف جانے والے ’’ تھری کیکڑے‘‘ جھولتے ہوئے آکر یہاں پر رکتے تھے ۔انہوں نے بتایا کہ ایک من تازہ دودھ سے چھ سے سات کلو کھویا بنایا جاتا ہے اور اس کے لیے دودھ کوخراب کرنا نہیں پڑتا ہے۔انہوں نے کہا کہ عام طور پر مارکیٹ میں دودھ کو’’پھاڑ‘‘کر پھیکا ماوا تیار کیا جاتا ہے جس کے بعداس میں دیگر فلیور ملا کر اسے میٹھا بنایا جاتا ہے۔
ویراواہ کے کھویا فروشوں کے مطابق اس علاقے کے کھوئے کی دھوم ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے ۔ یہاں کی دکانوں پر روزانہ کی کھپت کے حساب سے کھویا تیارکیا جاتا ہےاورسیاحت کے سیزن کے دوران سیاحوں کی بڑھتی ہوئی آمدکی وجہ سے مزید مال تیار کرنا پڑتا ہے۔کھویا فروشوں کا کہنا ہے کہ یہ ان کا ذریعہ معاش تو ہے ہی مگریہ ہمارےلیے اعزازکی بات ہے کہ صحرائے تھرکے ایک دور افتادہ شہر پارکر کے ایک چھوٹے سے قصبے میں تیار کیے جانے والے کھوئے یک شہرت نہ صرف ملک بلہ بیرون ملک میں بھی ہے۔ تھر کے خطے ہی میں مٹھی سے کراچی جانے والی شاہ راہ پر کلوئی کے مختلف مقامات پرپھیکا کھویا تیار کیا جاتا ہے۔
جو کہ کراچی بھیجا جاتا ہے جہاں پر باقی مراحل سے گزار کر اسے مزید لذیزبنایا جاتا ہے اور مٹھائیاں تیار کی جاتی ہیں۔ویراواہ کے کھویا فروشوں کے مطابق ، بنگلہ دیش میںبھی خوش ذائقہ کھویا تیار ہوتا ہے ۔وہاں مختلف علاقوں میں تیار کیا جانے والا کھویا، جسے’’ کرڈ آف بوگرا ‘‘کہا جاتا ہے، دنیا بھر میں معروف ہے۔
یہ کھویا پورے بنگلہ دیش میں تیار کیا جاتا ہے تاہم بوگراشہر میں تیار کیا گیا کھویا نہایت لذیذ ہوتا ہے لیکن ویراواہ کا کھویا اپنے منفرد ذائقے کی وجہ سے بنگلہ دیش کے کرڈآف بوگرا سے کی بہ نسبت انتہائی اعلیٰ درجے کا ہوتا ہے۔۔
(جتنا کھائیں دکان میں پیسے نہیں لیئے جاتے ایسے اصول مزید محبت میں گھیر لیتے ہیں)کب سے یہ کام کر رہے ہیں ، اور کتنا ماوا تیار ہوتا ہے۔مشہوری کا سبب کیا ہے۔