گھارو شہر قومی شاہ راہ پر کراچی سے 54کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس شاہراہ پر سے 24گھنٹوں کے دوران لاکھوں گاڑیاں گزرتی ہیں جو اندرون سندھ کے شہروں اور قصبات کی جانب جاتے ہوئے کچھ دیر یہاں اسٹاپ کرتی ہیں۔ ان کے مسافرگاڑیوں سے اتر کر اسٹاپ پر موجود ہوٹلوں و ریسٹورینٹس میں بیٹھ کر چائے وغیرہ پینے کے علاوہ ریڑھی اور پتھارہ بازار میں پھل و دیگر اشیائے خورونوش کی خریداری کرتے ہیں۔ ماضی میں یہ انتہائی پرامن شہر تھا لیکن چند عشروں سے یہاں امن و امان کی صورت حال خراب ہوگئی ہے۔ گھارو شہر جرائم پیشہ عناصر کی آماج گاہ بنتا جا رہا ہے۔ شہر میں شراب، چرس، ہیروئن اور گٹکے کا کاروبار پولیس کی سرپرستی میں جاری ہے۔
شاہراہوں پر لوٹ مار، چوری اور ڈکیتیاں اب روز کا معمول بن چکی ہیں۔ جبکہ اس علاقے میں جیب کتروں کی سرگرمیاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔شراب اور گٹکے کے خلاف انتہائی زور و شور سے آپریشن کیا جاتا ہے جوبعد میں منشیات فروشوں اور پولیس کے درمیان محض ’’فکس میچ‘‘ ثابت ہوتا ہےاور آپریشن کے دوسرے روز ہی پولیس کی آشیر باد سے یہ کاروبار دوبارہ شروع ہوجاتا ہے۔ شام ہوتے ہی شاہراہوں پر لوٹ مار کرنے والے ڈاکوئوں کے گروہ سرگرم ہو جاتے ہیں لیکن پولیس کی رٹ کہیں نظر نہیں آتی۔ وہ صرف شریف افراد کو پکڑنے ، ان سے مال کمانے اور سادہ لوح لوگوں پر مظالم ڈھانے کی ڈیوٹی انجام دیتی ہے۔
پولیس کے اس رویئے کو سیاسی مداخلت کا شاخسانہ قرار دیا جارہا ہے۔سندھ کے دیگرشہروں کی طرح ضلع ٹھٹھہ میں بھی پولیس کے محکمہ میں بڑھتی ہوئی سیاسی مداخلت کے باعث عام آدمی خصوصا جو ظلم و زیادتی کا شکار ہوا ہو، انصاف یا تحفظ کے لیے پولیس کی مدد سے محروم ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ایس ایس پی ہو یا ڈپٹی کمشنر حکمراں جماعت کے ضلعی کرتا دھرتا ؤں کی آشیر واد کے بغیر ضلع میں اپنے فرائض انجام نہیں دے سکتا۔ وہ اس عہدے پر اسی وقت تک رہ سکتا ہے جب تک سیاسی رہنماؤں کی ڈکٹیشن پر چلتا رہے اور ان کے حکم کی تعمیل کرےبلکہ سادہ الفاظ میں اگر یہ کہا جائے کہ ’’ یس سر‘‘ کہنے والے افسران ہی یہاں اپنی ڈیوٹی انجام دے سکتے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے ضلع کے عوام میرٹ پر اپنے کام کروانے کے بجائے ضلع کےسیاسی مداخلت کاروںکے آگے جھکنے پر مجبور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس بے لگام ہو چکی ہے اور وہ آئین و قانون سے بالاتر ہوکرایسی کارروائیاں کرتی ہے جو اکثر عوام دشمن ہوتی ہیں۔
کچھ عرصہ قبل مکلی میں پولیس نے ایک ملزم کی گرفتاری کے لیے ملاح برادری کے گوٹھ پر چھاپہ مار کر چادر اورچار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے گھروں میں داخل ہو گئی۔ اس دوران پولیس نے گھروں میں داخل ہوکر فائزنگ کی جس کی زد میں آکر 13 سالہ معصوم عابدہ ملاح جاں بحق ہو گئی ۔ چند روز قبل گھارو پولیس نے چوری کے الزام میں سموں گوٹھ سے رمضان سموں نامی نوجوان کو گرفتارکیا۔ گرفتاری کے بعد اسے پولیس اسٹیشن گھارو لایا گیااور 5 گھنٹے کے بعد ہی اسے گھارو ہیلتھ سینٹر پہنچایا گیا ۔ اس کی تشویش ناک حالت کی وجہ سے اسے کراچی لے جانے کی ہدایت کی گئی جس کے بعد اسے کراچی لے جایا جاہا تھا کہ راستے میں اس نے دم توڑ دیا۔ ورثاء نے احتجاج کرتے ہوئے متوفی کی نعش قومی شاہراہ پر رکھ کر دھرنا دیا۔ ورثاء نے الزام عائد کیا کہ رمضان سموں کی ہلاکت پولیس تشدد کے باعث ہوئی ہے ۔
سول سوسائٹی اورسیاسی و سماجی تنظیموں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ عوامی دباو پر ایس ایچ او گھارو یعقوب بھٹی سمیت 5 پولیس اہلکاروں کے خلاف دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ،مگر پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق رمضان سموں کی موت حرکت قلب بند جانے کے باعث ہوئی ہے۔ اس رپورٹ کو ورثاء اور سول سوسائٹی نے مستردکر دیا۔ اس کے بعدرمضان سموں کے بھائی نے سول کورٹ میرپورساکرو ایٹ گھارو میں درخواست دائر کر دی ہے۔سول کورٹ نے فوری طور سے میڈیکل بورڈ قائم کر کے 10 دن کے اندردوبارہ پوسٹ مارٹم کرنے کا حکم دیا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ غریب خاندان کو انصاف ملتا ہے کہ نہیں۔