کراچی پولیس نے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را ‘‘کا بڑا نیٹ ورک پکڑ لیا ہے جب کہ کراچی کے سرغنہ اور تین کارندوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اس بات کا انکشاف ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےکیا۔انہوں نے بتایا کہ پولیس نےکراچی میں را کے سرغنہ اور ایم کیو ایم لندن کے دہشت گرد سمیت تین ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے ۔ نیٹ ورک کے ارکان بھارتی خفیہ ایجنسی کوحساس نوعیت کی معلومات فراہم کرتے تھے ۔ گرفتار ہونے والے ملزمان حساس اداروں اور اہم مقامات کی معلومات بھارت پہنچاتے تھے جبکہ دہشت گردی کے لیے رقم حوالہ ہنڈی کے ذریعے آتی تھی۔ بھارت میں مذکورہ معلومات اے پی ایم ایس او کے سابق چیئرمین محمود صدیقی کو فراہم کی جاتی تھیں۔غلام نبی میمن نے بتایا کہ را کا نیٹ ورک متحدہ لندن کے لوگ کافی عرصے سے منظم انداز میں چلا رہے تھے ۔گرفتار ملزمان کی نشاندہی پرپولیس نے بھاری تعداد میں اسلحہ برآمد کرلیا، جس میں ایس ایم جی 9 آر پی جی ، 60 دستی بم، 10 ڈیٹونیٹر،مارٹر گولے ، اسلحے سے بھرے 53 باکس ، سیٹلائٹ فون اور 2 پاسپورٹ بھی شامل ہیں۔پریس کانفرنس کے دوران بتایا گیا کہ گذشتہ روز فیڈرل بی ایریا میں ایک گھر سے مذکورہ اسلحہ برآمد ہوا اور اسلحہ چھپانے والے کارندوں میں ایم کیو ایم لندن کے وہ کارکن شامل ہیں جو بھارت سے ٹریننگ لے کر آئے تھے۔
گروہ کےباقی ارکان ملک سے مفرور ہیں۔ایڈیشنل آئی جی کراچی نے بتایا کہ شہر میں دستی بم حملوں اور دھماکوں میں اسی گروپ کا ہاتھ تھا۔اس گروپ نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں ملوث ملزم خالد شمیم کے اکاؤنٹ میں بھی رقم ڈلوائی تھی۔انہوں نے بتایا کہ کس کو کتنی رقم دینی ہے وہ ای میل میں درج ہوتا تھا اور کرپٹ ای میل کوماجد نامی ملزم ڈی کوڈ کرتا تھا۔پکڑےجانے والے ملزمان میں واٹر بورڈ کا گریڈ 17کا افسر،کے ایم سی ملازم اور یونیورسٹی کا ایک ملازم بھی شامل ہے۔
مذکورہ گروپ سے تعلق رکھنے والے ملزمان نےبھارت کے صوبے اتر پردیش کے شہر نوڈیا میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کی۔ایڈیشنل آئی جی کراچی نے مزید بتایا کہ محمود صدیقی بھارت میں مقیم ہے اور را کے پے رول پرکام کررہا ہے۔ وہ شہر میں ہونے والی تمام دہشت گردی اور مخبری کے نیٹ ورک کو کنٹرول کرتا ہے ۔گرفتار ہونے والے ملزمان شاہد عرف متحدہ (گروپ کا کراچی میں سرغنہ)،ماجد اور عادل انصاری کے ایم کیو ایم لندن کے کینیڈا میں رہائش پذیر رہنما صفدر باقری سے بھی رابطے ہیں۔غلام نبی میمن نے کہا کہ یہ گروپ چونکہ کراچی میں انٹرنیشنل مرڈر اور ٹیرر فنانسنگ میں شامل ہے اس لیےحکومت سے ان سے تفتیش کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینےکی سفارش کی جا رہی ہے۔
دوسرے روز ایک اور پریس کانفرنس میں ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن نے بتایا کہ ڈیفنس سے اغوا کے بعد تاوان کی رقم ادا کرکے رہائی پانے والی دعا منگی اور بسمہ اغوا کیس میں حساس اداروں اور پولیس نے کارروائیوں کے دوران اغواء میں ملوث 2 ملزمان کو گرفتار کر کے اسلحہ برآمد کر لیا۔ واردات کے ماسٹر مائنڈ سمیت تین ملزمان تاحال فرارہیں۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن نے پریس کانفرنس کے دوران دعا منگی اور بسمہ اغواء کیس میں ملوث دو ملزمان مظفر اور زوہیب قریشی کی گرفتاری ظاہرکی۔ایڈیشنل آئی جی کراچی کا کہنا تھا کے دونوں ملزمان نے دوران تفتیش اپنے جرم کا اقرار کیا۔ملزمان نے اغواء کا پلان بنایا، جس کے لیے ایک فلیٹ لیااور اس میں دونوں لڑکیوں کو رکھا گیاتھا۔
اغواء کاروں کا گینگ سابق پولیس اہلکار سمیت پانچ افراد پر مشتمل تھا جس میں سےدو ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ تین تاحال فرارہیں۔تینوں ملزمان کی گرفتاری کے لیے پچاس لاکھ روپے ہینڈ منی کی سفارش بھیجی جارہی ہے۔ساؤتھ زون انویسٹی گیشن پولیس کے مطابق ڈیفنس سے دعا منگی اوربسمہ کے اغواءمیں ملوث گرفتار ملزم زوہیب قریشی کا تعلق سندھ کی ایک قوم پرست جماعت سے ہے اور ملزم کا کرمنل ریکارڈ بھی ملاہے۔تفتیشی حکام کے مطابق زوہیب قریشی کے خلاف اسٹیل ٹاؤن ،بن قاسم،قاسم آباد ،جام شورو میں مقدمات درج ہیں۔تفتیشی حکام کے مطابق زوہیب قریشی سرکاری جماعت میں بھی قوم پرست تنظیموں کا نیٹ ورک چلاچکا ہے۔دعا کے اغوا کے دوران زوہیب قریشی اور فرار ملزم آغا منضور نے فائرنگ کی تھی۔دعا کے اغواء کے بعد ایک اور کوشش کی لیکن سخت سیکیورٹی کی وجہ سے ناکامی ہوئی۔تفتیشی حکام کے مطابق ملزمان 5 سال سے اغوا اورگاڑیاں چھیننے کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ ان کی نشان دہی پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر سندھ حکومت کے احکامات پر آئی جی سندھ نے بھی پولیس افسران اور اہلکاروں کے لیے رہنما ہدایات جاری کی ہیں۔ تاہم ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن نے ان احکامات کے باوجود ـ "خصوصی اجازت "کے نام پر دو د نوں میں دو پر ہجوم پریس کانفرنسیں کر ڈالیں اور پولیس افسران سمیت میڈیا کے نمائندوں کو بھی ہائی رسک پر ڈال دیا ۔ایڈیشنل آئی جی کی پہلی پریس کانفرنس سے ایک روز قبل ہی آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر نے پولیس افسران کو کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر رہنما ہدایات جاری کی تھیں۔تمام ایڈیشنل آئی جیز اور ڈی آئی جیز کے نام لکھے گئے خط میں آئی جی سندھ نے ہدایات دی تھیں کہ پولیس افسران کی بڑی تعداد کسی بھی بریفنگ ،ٹریننگ یا کسی اور مقصد کے لیے جمع نہیں ہو گی،کسی بھی بریفنگ میں 20سے کم افسران اور اہلکار شریک ہوں گے اور ایک دوسرے سے کم از کم تین فٹ کا فاصلہ رکھیں گے۔افسران اور اہلکار غیر ضروری میٹنگز سے گریز کریں گےاور زیادہ تر میٹنگزکانفرنس کال اور سوشل میڈیا پر بنائے جانے والے گروپس میں ہو ں گی۔
آئی جی سندھ کی ہدایات کے مطابق اگر کوئی سینئر افسر کسی جگہ کی انسپکشن یا بڑے مجمع میں جائے تو اس کے ڈرائیور اور سپورٹ اسٹاف کو جانے کی اجازت نہیں ہو گی،صرف ان افسران کو جانے کی اجازت ہو گی جن کا جاناناگزیرہے۔ایسے افسران ماسک پہننے سمیت دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کریں گے۔ بائیو میڑک کے ذریعے حاضری کو تا حکم ثانی جاری رکھنے کی اجازت نہیں ہو گی۔پریڈ،ڈرل اور دیگر سرگرمیاں چھوٹے گروپس میں کی جائیں گی۔پولیس اہلکاروں کو بذریعہ بس ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے دوران انھیں سینی ٹائرز لازمی فراہم کیے جائیں گے اور اہلکار بس میں داخل ہونے سے قبل اور نکلنے کے بعد سینی ٹائرز یا صابن سے ہاتھ صاف کریں گے۔دفاتر میں کام کرنے والے افسران اور اہلکار ہاتھ دھونے کے ساتھ ماسک کا استعمال کریں گے۔جن افسران یا اہلکاروں کو فلو،تیز بخار اور کھانسی کی شکایت ہوانھیں الگ رکھا جائے گا ۔
ان کا علاج کرنے کے ساتھ ان کی دیکھ بھال کی جائے گی۔زیادہ استعمال ہونے والے مقامات پر ضرورت کے تحت فیومیگیشن کی جائے گی ۔چھوٹے گروپس میں اہلکاروں کو کورونا وائرس اور اسکی احتیاطی تدابیر کے بارے میں آگہی دینے کے لیئے سیشن کیےجائیں گے۔تاہم ان واضح ہدایات اور شہر میں کورونا وائرس کے باعث تشویش کن صورت حال کے باوجود ایڈیشنل آئی جی نے کراچی پولیس آفس میں لگاتار دو روز درجنوںافراد کو بلا کر پریس کانفرنس کی جبکہ یہ کام پریس ریلیز جاری کر کے بھی کیا جا سکتا تھا۔