23 مارچ 1940ء میں قرار داد پاکستان پیش کی گئی۔ قوم پرستوں کی جانب سے تنقید کی جارہی تھی کہ اس میں ایک ریاست کا نہیں ریاستوں کا ذکر کیا گیا تھا۔ دوسری جانب اس موٴقف سے انکار کیا گیا تاہم جب 1973ء کا آئین تشکیل دیا گیا اور اس پر پاکستان کے چاروں صوبوں کے نامی گرامی سیاست دانوں نے دستخط کرکے پاکستان پر ایک ریاست ہونے کا برملا اظہار کردیا تو پھر کسی قسم کے ابہام کی گنجائش باقی نہ رہی۔ یہ تو سبھی کو علم ہے کہ الگ ریاست بنانے کیلئے لاکھوں افراد نے جانوں کا نذرانہ دیا۔ یہ کوئی کھیل نہیں تھا بلکہ اس کی گہرائی میں پہنچا جائے تو تاریخ میں اتنے بڑے پیمانے پر قربانی مرتسم ہو کر آنے والی نسلوں کیلئے کئی مزید سوالات چھوڑ گئی ہے اور آج میڈیا نے ان سوالوں کو توانائی سے آشنا کردیا ہے لیکن اس سے قبل لوگوں کو ابہام میں رکھا گیا۔ لہٰذا 23 مارچ رسمی طور پر ایک تہوار کی صورت منایا جانے لگا۔ برسراقتدار حکومتیں اس دن کو اپنے سیاسی مفاد کیلئے مناتی چلی آرہی ہیں حالانکہ یہ وہ دن ہے جس دن حکمراں طبقوں کا سالانہ احتساب عوام کو کرنا چاہئے لیکن عوام کی شراکت داری مملکت کے امور میں کبھی نہیں رہی۔ آخر اس بات کا کوئی جواب تو دے کہ 1947ء کو جس سفر پر چلے تھے تو راستے میں رہبروں کے لباس میں کتنے رہزن ملے اور انہوں نے کس طرح اس ملک خداداد کے لوگوں کے خواب چھین لئے یہاں ایک سوال تاریخ یہ بھی پوچھتی ہے جب مسلمانوں کا ہندوستان پر غلبہ تھا‘ عروج تھا‘ اکبر اعظم کا سنہرا دور تھا اس وقت دو قومی نظریے کی ضرورت کیوں پیش نہ آئی۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ لاکھوں جانوں کی قربانی دینے کے بعد تاریخ ہی پوچھتی ہے کہ سومنات پر 17 حملے کئے گئے اور وہاں سے مال غنیمت لوٹ کر سلطان محمود غزنوی واپس کیوں چلے جاتے تھے۔ محمد بن قاسم کی افواج کی طرح ٹھہرے کیوں نہیں؟ اگر وہ وہاں پر اسلام پھیلاتے تو جنوبی ہندوستان یقینا مسلمان ہوجاتا کیونکہ جنوبی ہندوستان میں ذات پات نے چھوٹی ذات کے ہندوؤں کا شدید نقصان کررکھا تھا۔ تو آج برصغیر میں ہندوؤں کی بجائے مسلمانوں کی اکثریت ہوتی اور مسلمانوں کو اتنی بڑی قربانی دینے کی ضرورت نہ پڑتی لہٰذا موجودہ پاکستان نااہل اور کرپٹ وردی اور وردی کے بغیر حکمرانوں کی وجہ سے بند گلی میں کھڑا نہ ہوتا۔
دوسرے سوال میں ہی جواب بھی پنہاں ہے لیکن پہلے سوال کا جواب تشنہ ہے۔ دراصل جب مسلمانوں کا ہندوستان میں عروج تھا تو اس وقت دو قومی نظریے کی ضرورت اس لئے پیش نہ آئی۔ کیونکہ مسلمانوں کو سیاسی‘ معاشی‘ اور سماجی طور پر ہندوؤں پر بالادستی تھی لیکن 15 ویں صدی کے آغاز میں موجود ہندو سرمایہ داروں اور تجارتی حلقوں کا ارتقاء ہوا جب یہ سمندروں کے راستے آنے والی یورپی طاقتوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوئے یوں بنگال‘ بہار‘ اڑیسہ میں ابھرنے والی ہندو بور ژوازی انگریزوں کی آزاد تجارت میں ان کے ساتھ شریک کار ہوگئی اور تجارتی سرمائے کے آگے مسلمانوں کا پسماندہ جاگیرداری اور بادشاہی پر استوار ڈھانچہ یعنی سلطنت مغلیہ ریت کی دیوار ثابت ہوئی بقاء کی آخری جنگ ٹیپو سلطان‘ علی وردی خان اور سراج الدولہ نے لڑی۔ بعدازاں انگریز کے قبضے کے بعد برصغیر کے بالادست طبقوں کی بڑی بڑی اجارہ داریوں کی ابتدا ہوئی اس آغاز میں بروکرز‘ سرکاری ٹھیکیداروں‘ بنیوں‘ مشترکہ بینکوں کے مڈل مینوں کے علاوہ تاجر اور سٹہ باز پیش پیش تھے اور یہ سب ہندو تھے۔ مسلمانوں کی اشرافیہ اور بادشاہ عیاشیوں میں مشغول تھے۔ ہندوستان کی آج بڑی بڑی سرمایہ دار کمپنیاں ٹاٹا‘ برلا‘ ودیا‘ لال جی‘ ٹھیکرے‘ مرار جی‘ گوتکاز‘ کانو ایاز‘ جیتار‘ جالائز اور باجوری کے بانیوں نے انگریز سرمایہ داروں کے ساتھ کام کیا۔ بعض اس وقت کی مارکیٹ اکانومی میں ہندو انگریزوں کے ہم قدم تھے۔ اور مسلمان طاؤس و رباب سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ ہندوؤں نے انگریزوں کے ساتھ کام کیا اور ہندوستان کی معیشت پر قابض ہوگئے۔ مسلمانوں کی قیادت یہ کہتی رہی۔ ”ہنوز دلّی دُوراست“ ہندو سٹے بازوں اور جواریوں کے بڑے بڑے ناموں جو بعد میں بڑے صنعت کار بن گئے جن میں برلا‘ بانگورز‘ دلمیاز‘ سورج مل‘ کیسو رام‘ بوورز‘ حکیم چند اور اچمریاز قابل ذکر تھے۔ ادھر مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگانے کیلئے سرسید احمد خان نے جدوجہد کی۔ قدامت پسند مسلمانوں نے ان کی بھرپور مخالفت کی۔ سرسید احمد خان نے کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کو تعلیم سے آشنا کرنے میں کامیاب کوشش کی تاہم اس وقت تک ہندو کی معاشی بالادستی قائم ہوگئی تھی لہٰذا نوابوں‘ جاگیرداروں اور دیگر اشرافیہ دو قومی نظریے کو سامنے لایا اور یوں اس کی بنیاد پر پاکستان کی بنیاد رکھی گئی کیونکہ مسلمانوں کی قیادت جو مسلم لیگ کی صورت سامنے آئی وہ یہ سمجھتی تھی کہ اب مشترکہ ہندوستان میں معاشی طور پر ہندوؤں کا غلبہ رہے گا لہٰذا علیحدہ مملکت بنائی جائے جہاں ہم اپنی مرضی سے معیشت چلا سکیں گے عام مسلمان یوں خوش تھا کہ پاکستان اسلامی ریاست بنے گی اور اس میں انصاف اور مساوات کا بول بالا ہوگا لہٰذا عام مسلمان نے تن‘ من‘ دھن کی قربانی دی ان کے لیڈر ہندو معاشی بالادستی کے خوف میں تھے۔ یہ وہ وجہ تھی کہ جب مسلمان عروج پر تھے تو انہیں دو قومی نظریے کی ضرورت نہ تھی چنانچہ قرار داد پاکستان کے مطابق پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم جلد ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اور ان کی موت کے بارے میں بھی تلخ حقائق عوام تک نہیں پہنچے اور نہ ہی لیاقت علی خاں کے قتل کے بارے میں کچھ علم ہوسکا۔ پاکستان میں پُراسرار طریقے سے سیاست کا آغاز ہوا۔ یہ بھی ہوا کہ جو طبقے مسلم لیگ میں مضبوط تھے وہ سب کے سب جاگیردار تھے اور آج ان کی اولاد اکٹھی ہورہی ہے۔
پاکستان کے ان لیڈروں نے کالونیل ڈھانچے اور امریکی خیرات و قرضوں کے تحت ملک کو چلایا ایک ایسا ملک جو سامراج کے پٹھوؤں کے قبضے میں رہا اس کا سرکاری مذہب اسلام قرار پایا۔ اس تضاد نے ذہنی مفلسی اور ابہام کو تقویت دی۔ نسیم حجازی کیسلطان صلاح الدین ایوبی کے بجائے صلاح الدین امریکیکا کردار لوگوں کے ذہنوں میں نقش کردیا۔ اس لئے پاکستان ابتداء میں انگریزوں کے بوسیدہ قانون کے تحت چلایا گیا۔ کیونکہ حکمراں طبقہ جو کالے انگریزوں کی صورت سامنے آیا اسے مذکورہ انگریزی قانون سوٹ کرتا تھا۔
یہ بالکل ابتدائی سالوں کی ہٹ دھرم حقائق ہیں اور ناقابل تردید سچائیاں ہیں جو ہمارے عوام کی تقدیر پر براہ راست اثر انداز ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کے بجائے سیکیورٹی ریاست بنادیا اور اسے امریکہ کے حوالے کردیا۔ ایسی ابتدائی صورتحال پاکستان کو جب ”داغ داغ اجالا ملا“ جس کے نتیجے میں ایک ایسے موڑ پر پہنچ گئے جہاں آگے جانے کا راستہ معدوم ہوگیا۔ اب کوئی عمل بیزار نام نہاد جمہوریت کا دعویٰ دار یا مارشل لاء کا حمایتی یا کوئی اصلاح پسند قادری یا نمائشی انقلابی اس صورتحال کا حقیقی انقلاب کے علاوہ دوسرا حل پیش کرسکتا ہے جس سے اس ملک خداداد کی تمام اخلاقی‘ مادی اور انسانی قوتوں کو یکجا کرکے ایسی جدوجہد شروع کی جاسکے جس سے صدیوں کی اقتصادی سائنسی‘ تیکنیکی پس ماندگی سے نجات مل سکے‘ ہندسی معیشت‘ صنعتی و زرعی ترقی کے میدان میں ترقی یافتہ اقوام کے مقابلے میں پیدا ہونے والی تفریق کی وسیع خلیج کو پاٹا جاسکے۔
یہ ہوسکتا ہے جب قدرتی وسائل اور انسانی سرمائے کو استعمال کیا جائے لیکن یہ نہیں بھی ہوسکتا کیونکہ 65 سالوں سے ملک کے حکمران وہ رہے ہیں جنہوں نے سامراجی مفادات اور اپنے ذاتی مفاد کو پیش نظر رکھا۔کالونیل گلے سڑے قرضوں نے نظام کو چلانے کی خاطر عام آدمی کو مسائل کی چکی میں پیس کر رکھ دیا ہے۔ اب پھر امید کی جارہی ہے کہ تاش کے باون پتوں میں شاید تین یکے میسر آجائیں اور ہم عالمی جوئے کے اس نظام میں کسی طرح آگے بڑھ جائیں اور ترقی یافتہ کہلائیں۔