بلدیاتی نظام کا مقصد عوام کے بنیادی کام و مسائل کا حل اور آسانی ہے ۔مگردیگر محکموں میں جہاں بدانتظامی کا راج ہے، وہاں اس محکمہ میں بھی کرپشن کے باعث عوامی مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں۔یوسی کے زیادہ تر چیئرمین عوامی مسائل کے حل ، اپنے فرائض و ذمہ داریوں اور بلدیاتی آئین کے تحت خود کو حاصل ہونے والے اختیارات سے لاعلم نظر آتے ہیں۔ ان کی یوسیز میں مالی بے قاعدگیوں اور فنڈز میںخورد برد کے انکشافات و شواہد سامنے آتے رہے ہیں ۔کرپشن کا یہ عالم ہے کہ کئی یوسیز کے دفاتر تک نہیں بنائے گئے ہیںلیکن ان کا ریکارڈ ایک رجسٹر کے ذریعے مرتب کیا جا رہا ہے۔سکریٹریز کی جانب سے یوسیز کو ملنے والے فنڈز کو من گھڑت اخراجات کو ریکارڈ میں دکھا کرخانہ پری کی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ سیاسی اثر رسوخ رکھنے والے ایک ایک یوسی سیکریٹری کے پاس تین سے چار یونین کونسلوں کا چارج ہے۔اکثر سیکریٹریز کے پاس مختلف اضلا ع کی یوسیز کی چارج بھی ہیں ۔یہ سارا مرحلہ سیاسی آشیرواد سےطے پاتا ہے۔
نمائندہ جنگ کوموصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ہر یونین کونسل کو ماہانہ پانچ لاکھ یعنی سالانہ 60لاکھ روپے کا بجٹ جاری ہوتا ہے۔جس میں اسکیموں کاا نتخاب عوامی فائدہ کے بجائے زیادہ ترمنافع کمانے کے لیے کیا جاتا ہے۔جس میں سلائی مشینوں کی خریداری سر فہرست ہے ۔ذرائع کے مطابق ہاتھ سے چلائی جانے والی سلائی مشین جس کی قیمت تین سے چار ہزار روپے ہوتے ہیں وہ بڑی مقدار میں 12سے 15 ہزار میں خریدی گئی ہیں اور یہ بل بنانے کے لیےپرائیوٹ ٹیم تشکیل دی ہوئی ہے جو تمام یونین کونسلو ں کے بلز جعلی پیڈ بنا کر تیار کرتی ہے۔یوں آڈٹ پراسز میں بالائی عملداران کے نام پر 32 فیصد کٹوتی کی جاتی ہے اوریوں بمشکل 20فیصدپیسہ اسکیم پرلگ پاتا ہے۔ نتیجے میں خرید ی گئی اشیاء برائے نام ہوتی ہیں جو کسی کے استعمال میں آنے کے قابل نہیں ہوتی ہیں۔ بیشتر یوسیز میں یہ عمل بھی فقط ریکارڈ کی حد تک دہرایا گیاہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یوسی لیول پر ہونے والی اس کرپشن کوکی طرف سے حکام بالا نے چشم پوشی اختیار کی ہوئی ہے کیوں کہ وہ بھی بہتی گنگا میںہاتھ دھو رہے ہیں۔
دوسری جانب ڈویژنل وضلعی سطح پرسرکاری اداروں میں کرپشن کی روک تھام کے لیےکام کرنے والے اداروں کی کارکردگی بھی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ذرائع کے مطابق جہاں باقی ملازمین ڈیوٹی سے ’’مستثنی‘‘ ہیں وہاں سیکریٹریز کو بھی ’’استثنیـ ملا ہوا ہے اور وہ بھی صرف ایک روز آفس آتے ہیں اور چیک لینے کے بعد غائب ہو جاتے ہیں ۔ تھرپارکر کی سات تحصیلوں کی کل 64یوسیز میں سے کسی ایک بھی یونین کونسل کوصحیح طورچلایا نہیں جارہا ہے۔نتیجے میں نچلی سطح پر یہاںبڑے پیمانے پر فنڈز کی خورد برد اور کرپشن ہو رہی ہے۔شہری مسائل کے حل کے لیےیونین کونسلز کے کوئی اجلاس نہیں منعقد کیے جاتے ۔
کچھ یونین کونسلوں کی شہری مسائل سے عدم دلچسپی اور کرپشن کے خلاف سماجی کارکنان نے صدائے احتجاج بھی بلند کی ہےاور مختلف فورمز سمیت کھلی کچہریوں میں عوامی شکایات سننے کو ملتی ہیں کہ یوسی چیئرمین سرکار ی فنڈز خورد برد کر رہے ہیں۔تحصیل ڈیپلو کی یونین کونسل سوبھیار کے چیئرمین کے خلاف علاقے کو نوجوانوں نے محتسب اعلی سندھ کو تحریری شکایت بھیجی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ یوسی کے فنڈزکو عوام کے مسائل پر خرچ نہیں کیا جارہا ۔اس درخواست کا نوٹس لیتے ہوئے محتسب اعلی نے چیئرمین کو پیشی کے نوٹسز جاری کئے مگر وہ پیش نہیں ہوئے اوربا لآخر محتسب اعلی نے انہیں پیش کرنے کے لیے پولیس کو احکامات جاری کئے گئے مگر یہ کارروائی بھی دبا دی گئی۔اسی طرح سے یونین کونسل اسلام کوٹ رورل،کھاریو غلام شاھ ،کہڑی ،ویجھیاراور ستیڈیرا کے چیئرمین و سیکریٹری کے خلاف یوسی کے ممبران و علاقہ مکینوں نے احتجاج کئے اوراعلیٰ حکام کو تحریری شکایات بھی بھیجیں مگر کوئی کاروائی عمل میں نہ آسکی۔
اس صورت حال سے ظاہر ہوتا ہے کہ بڑے پیمانے پر کرپشن میں ملوث یوسی سیکریٹریز وچیئرمین کتنے بااثر اورطاقتور ہیں کہ محتسب اعلیٰ کے احکامات کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں۔یوسیز میں رہنے والے عوام اپنے منتخب کردہ نمائندوں کے احتساب کا قانونی اور آئینی حق رکھتے ہیں۔ بشہری انتظامیہ و بلدیاتی حکام ان کی شکایات پر توجہ دیتے ہوئے کرپشن اور یوسیز کو ملنے والے فنڈز کی خورد برد میں ملوث یوسیز چیئرمینوں اور سکریٹریز سمیت دیگر عملے کے خلاف چھان بین کرکے ان کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ان کی اس طرح کی شکایات سے کرپشن میں ملوث نمائندگان کے احتساب کا عمل شروع کیا جا سکتا ہے ۔کیونکہ تمام تر ادارے اپنی بجٹ و اخراجات کو عوام سے شیئر کرنے کے پابند ہیں اور یہ حق ملکی آئین نے ہر شہری کو دے رکھا ہے۔اس طرح کی بیداری سے جہاں اداروں کو ٹھیک ٹریک پر لایا جا سکتا ہے وہاں کرپشن کی دلدل میں پھنسے ہوئے افراد کے خلاٖف بھرپور کاروائی کی جاسکتی ہے۔