• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی
کورونا کا پاکستان پر حملہ ہوگیا، دوسری طرف خاص سازشی طبقہ پاکستانی قوم کو فرقہ واریت اور مذہبی جنونیت کا نشہ پلاکر ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کرنے کا مشن جاری رکھے ہوئے ہے۔ شروع میں شور مچانا شروع کیا گیا، کربلا، نجف و مشہد میں موجود عظیم اور مقدس ہستیوں کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے شفاء ملنے کا عقیدہ رکھنے والے پاکستانی زائرین کورونا وائرس ایران سے پاکستان منتقل کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی توپوں کا رخ عمرہ اور زائرین اور بعد ازاںایک دم تنقید کا رخ اسلام کی تبلیغ کرنے والے ان تبلیغیوں کی طرف ہوگیا جو عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ ہی زندگی دیتا ہے اور اللہ ہی موت دیتا ہے۔ بیماری اور شفاء اسی کی طرف سے ہے۔ ہمیں اسلام کی تبلیغ کا عمل جاری رکھنا چاہئے۔ ایک طرف کورونا وائرس پورے پاکستان میں تباہی پھیلا رہا ہے۔ یہ وائرس تیزی کے ساتھ پورے پاکستان میں پھیل رہا ہے۔ لاک ڈائون کی وجہ سے پاکستان کی معاشی صورت حال بگڑتی چلی جارہی ہے۔ ملک کی اکثر آبادی بھوک اور افلاس کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اگر یہی صورت حال رہی تو لوگ بھوک سے مجبور ہوکر تمام مذہبی اور اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈال کر لوٹ مار کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں گے۔دوسری طرف ہمارے ہاں بعض لوگ آپس میں فرقہ وارانہ جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔جو قوم اس برے وقت میں بھی فرقہ وارانہ سوچ سے باہر نہ نکلے، اس کی تباہی کون روک سکتا ہے۔ دنیا کا ہر ملک ایک قوم بن کر کورونا مصیبت سے نکلنے کا راستہ تلاش کررہا ہے اور ہمارے ملک میں بعض لوگ کورونا وائرس کے حوالے سے فی سبیل اللہ قوم، مذہب، فرقے کی تلاش میں مصروف ہیں۔اللہ تعالیٰ ایسے افراد کی حالت پر رحم فرمائے۔کورونا وائرس پوری دنیا میں تباہی پھیلا رہا ہے۔ اس وقت تقریباً پوری دنیا لاک ڈائون ہے۔ کیا یہ وائرس زائرین، حاجیوں یا تبلیغیوں سے پھیلا ہے؟ اسی دوران لاکھوں افراد جو امریکا، اٹلی، اسپین، برطانیہ، فرانس، جرمنی جیسے سب سے زیادہ متاثر ممالک سے پاکستان آئے، وہ پورے پاکستان میں پھیل گئے، ان کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا، ان پر کوئی انگلی نہیں اٹھاتا۔یہ تمام تر الزام مذہبی طبقے پر کیوں آرہا ہے؟ خدارا ہوش کے ناخن لیں۔ انسانیت اس حملے سے شدید کرب میں مبتلا ہے، اس سے نجات کا راستہ ڈھونڈ رہی ہے۔ اور ہمارے ہاں بعض افراد کے ذہن معقولیت سے کوسوں دور نظر آتے ہیں۔علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتائو کہ مسلمان بھی ہو
نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندوستاں والو!
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
علامہ اقبالؒ کے دو اشعار یہاں تصرف کے ساتھ پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں:
یوں تو شیعہ بھی ہو سنی بھی ہو دیوبندی بھی
تم ،سبھی کچھ ہو، بتائو کہ مسلمان بھی ہو
نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے وطن والو!
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
گزشتہ دنوں انڈیا کے ایک ٹی وی چینل پر ڈاکٹر عرشی کا ایک کلپ دیکھا، جس میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں کورونا وائرس کے حوالے سے مسلمانوں کو بے جا مطعون کیا جارہا ہے۔ دہلی میں مزار مقدس حضرت نظام الدین اولیاء سے دو سو میٹر کے فاصلے پر قائم تبلیغی مرکز میں مسلمانوں کے دیرینہ تبلیغی اجتماع کے شرکاء کے خلاف ایف آئی آرز درج کرلی گئیں۔ جب کہ مودی سرکار کی جانب سے مندروں میں بھیڑ پر کوئی ایک ایف آئی آر نہیں کاٹی گئی… آخر یہ تضاد کیوں اور کس لیے ہے…اس مسئلے کو ہندو مسلمان مسئلے سے جوڑنا غلط ہے۔ یہ مسئلہ مذہب کا نہیں ہے۔ مذہب کے خلاف اسے ڈھال بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ یہ مذہب کے خلاف ایک باقاعدہ سوچی سمجھی سازش ہے۔ ایسا ہونا نہیں چاہئے۔فی الوقت ہمارے وطن عزیز پاکستان میں بھی کچھ لوگ دین اور مذہب سے والہانہ عشق رکھنے والوں کے ساتھ گویا کھلواڑ کررہے ہیں۔ ناروا رویے اور نامناسب الفاظ استعمال کررہے ہیں، جو نہایت غلط رجحان ہے۔ مثلاً وہ ہم سے کہتے ہیں کہ خانہ کعبہ، مسجد نبویؐ، حرم امام حسینؓ، حرم امام رضا وغیرہ تو آپ کے بقول شفاء نورانیت، روحانیت اور معنونیت کے مراکز ہیں، پھر وہاں سے آنے والے زائرین کورونا فری ہوکر کیوں نہیں آئے…؟ تو اس بے ڈھب بات کا معقول جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ تمام تر مقامات مقدسہ شفا، صحت، نورانیت، روحانیت اور معنویت کے محور ہیں، مراکز ہیں، تاہم اگر کوئی زائر کربلائے معلی میں بالفرض بخار یا کسی اور بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ لامحالہ ڈاکٹر سے بھی رجوع کرتا ہے، دوا بھی کھاتا ہے، اس طرح جسمانی اور روحانی دونوں شفا کے وسیلے اس کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور وہ صحت یاب اور نورانی ہوجاتا ہے۔ لہٰذا مادی اور روحانی دونوں دوائیں ضروری ہیں۔ علاج کرانا سنت نبویؐ ہے اور روحانی توسل بھی سنت نبویؐ ہے۔ کسی ایک ذریعے پر اکتفا کرنا کافی نہیں ہوگا۔ دوا شفاء دیتی ہے مگر اللہ کے اذن سے۔ یہ سمجھنے کی بات ہے۔کورونا وائرس کے تناظر میں اس وقت جو صورت حال ہے، اس میں ہر طرح کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے محفوظ رہنے کے لیے نہایت محتاط ہوکر سمجھداری، ہوشیاری، معاملہ فہمی، تحمل مزاجی اور تدبر و بصیرت کے ساتھ زندگی گزارنے کی ضرورت ہے۔ رجوع الی اللہ اور اہل بیت عظام سے توسل جاری رکھیں۔فی الوقت خدشہ اس امر کا بھی ہے کہ ادیان و مذاہب و مسالک سے جڑے ہوئے لوگوں کے حوالے سے کہیں اس نازک موقع پر سیکولر یا لادین قوتیں سازشوں کے تانے بانے بُن کر اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے فائدہ نہ اٹھالیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت پاکستان اس جانب بھی کڑی نظر رکھے۔گزشتہ روز اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر صاحب سے ویڈیو لنک کے ذریعے رابطے میں راقم الحروف نے تجویز پیش کی ہے کہ منفی ٹیسٹ آنے کی صورت میں حکومت پاکستان کی جانب سے زائرین کو گھروں تک پہنچانے کے انتظامات کیے جائیں۔ امید ہے کہ اس پر عمل درآمد ہوگا۔ اسی طرح خلوص نیت کے ساتھ ہر وہ اقدام کیا جانا چاہئے جس سے صورت حال میں بہتری لائی جاسکے۔
تازہ ترین