• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میر شکیل الرحمٰن کے خلاف کیس بہت کمزور ہے،اعتزاز احسن

کراچی (جنگ نیوز)جیو کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ماہر قانون چوہدری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ میر شکیل الرحمٰن کیخلاف کیس بہت کمزور ہے، ماہر قانون کامران مرتضیٰ نے کہا کہ کیا ریاستی اداروں کا کام یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو دھوکا دے کر بلوائیں اور ان کی بے عزتی کریں،ماہر قانون سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ دنیا میں مقدمہ ثابت ہونے سے پہلے کسی کو قید میں رکھنا انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے،میزبان حامد میر نے اپنے تجزیئے میں کہا کہ میر شکیل الرحمٰن کو جب سے ایک جھوٹے کیس میں گرفتار کیا گیا ہے ابھی تک نہ ان پر کوئی مقدمہ درج ہوا ، نہ نیب نے کوئی ریفرنس دائر کیا لیکن ان کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا ہوا ہے۔ ماہر قانون چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ میر شکیل الرحمٰن کیخلاف کیس بہت کمزور ہے، میر شکیل الرحمٰن کی ضمانت کی استدعا مسترد ہونا یقین نہ آنے والی بات ہے، ایسا مقدمہ جس میں ٹرائل کے بعد بریت لازم ہو اس میں عدالت ضمانت بھی نہ دے، ایک چونتیس سال پرانا مقدمہ جس میں 1986ء میں ایک پرائیویٹ سول ٹرانزیکشن ہوئی، میر شکیل الرحمٰن نے 180کنال زمین کے سات مشترکہ مالکان سے وہ زمین خریدنے کا معاہدہ کیا، خرید و فروخت کا عمل اس لئے نہیں ہوسکتا تھا کہ قبل ازیں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے جوہر ٹاؤن اسکیم بنائی اس میں حکومت نے لینڈ ایکوزیشن ایکٹ سیکشن چار کے تحت نوٹیفکیشن جاری کردیاجس میں اس زمین کا بھی اندراج تھا، سیکشن چار کا نوٹیفکیشن ہوجائے اور لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی جیسے ایل ڈی اے ہے یہ حکومت سے نوٹیفکیشن کروالے کہ ہمارا اس زمین کو لینے کا ارادہ ہے تو اس کے بعد زمین سات مالکان سے میر شکیل الرحمٰن کو منتقل نہیں ہوسکتی تھی لیکن ملکیت کا حق آئین کے تحت بنیادی حق ہے اس لئے ان سات مالکان کی بہرحال ملکیت برقرار رہتی ہے تاوقتیکہ ایکوزیشن کا پراسس مکمل نہ ہوجائے اور وہ پھر بیچ دیں، اس میں دو سال لگیں یا چھ سال لگیں لیکن جو لوگ بیچنا چاہتے ہیں وہ بیچنا چاہتے ہیں، جو خریدنا چاہتے ہیں وہ خریدنا چاہتے ہیں، اس لئے irreversable پاور آف اٹارنی کا طریقہ عام ہے یعنی ایک ایسا مختار نامہ جس کی منسوخ نہ کیا جاسکتا ہو اس کے ذریعہ خریدار مالکان سے اختیارات لے لیتا ہے، میر شکیل الرحمٰن نے 180 کنال کا جو بھی حق ملکیت تھا ان سات مالکان کا اس کی پاور آف اٹارنی لے لی کہ آئندہ جب یہ زمین خریدی جاسکے گی تو وہ خرید لیں گے، اس کے بعد میر شکیل الرحمٰن خود ان کی نمائندگی کرنے لگے کیونکہ وہ رقم د یکر مختار عام بن گئے تھے ،مالکان رقم لے چکے تھے اس لئے ان کی دلچسپی زیادہ نہیں تھی، ماسوائے اس کے کہ آئینی قانونی طور پر وہ سات لوگ ہی 180کنال زمین کے مالک رہے جس کو aquireکرنے کے عوض میں انہیں ایک تہائی رقبہ ملنا تھا، ایل ڈی اے نے 180کنال لے کر 54کنال اور دو ڈھائی کنال اوپر ان سات مالکان کو دینی تھی، ان سات مالکان نے یہ زمین میر شکیل الرحمٰن کے نام منتقل کروانا تھی، یہ پرائیویٹ ٹرانزیکشن تھی اس میں سرکار کا کوئی معاملہ نہیں تھا، جب ایکوزیشن پوری ہوگئی تو میرشکیل الرحمٰن نے بطور جنرل اٹارنی وہ زمین اپنے بیوی اور بچوں کے نام کروادی جنہوں نے بعد ازاں میر شکیل الرحمٰن کے نام کروادی، یہ سادہ سا دیوانی کا نجی سودا ہے اس میں اور کچھ نہیں ہے، اب 34سال بعد اس پر نیب نے کیس بنادیا ہے، بنیادی طور پر اس معاملہ میں میرشکیل الرحمٰن کی ضمانت ہوجانی چاہئے تھی۔چوہدری اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ نیب کا ریفرنس دائر نہ ہونے کے باوجود میر شکیل الرحمٰن ابھی تک سلاخوں کے پیچھے ہیں تو اس کی وجہ ہائیکورٹ کے آرڈرز ہیں، ہائیکورٹ نے انہیں رعایت نہیں دی لیکن جو واقعات ہیں اس کے تحت انہیں یہ رعایت ملنی چاہئے تھی، نیب بہت سے کیسوں نہ ایف آئی آر کرواتا ہے نہ ریفرنس دائر کرتا ہے اورلوگوں کو گرفتار کرکے تفتیش شروع کرتا ہے، سپریم کورٹ بھی کئی دفعہ اس پر ریمارکس دے چکی ہے کہ نیب کا یہ کیا طریقہ کار ہے کہ پہلے پکڑتا ہے پھر تفتیش شروع کرتا ہے، اسی مشکل میں میرشکیل الرحمٰن بھی آگئے ہیں، نیب میں شکایت کی تصدیق کے مرحلہ پر ہی لوگوں کو گرفتار کرنے کی نظیریں ملتی ہیں پھر اس میں چاہے شرجیل میمن ہوں یا ڈاکٹر عاصم حسین ہوں، سیاستدانوں کے ساتھ نیب کا یہی طریقہ کار ہوتا ہے لیکن یہ آئینی طور پر غلط ہے، عدالتیں بھی پراسیکیوشن ایجنسی کے طور پر نیب کا نخرہ اٹھالیتی ہیں ورنہ ایسے معاملات میں تو ریمانڈ بھی نہیں ہونا چاہئے۔چوہدری اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ کورونا کے بعد سے تقریباً گھر تک ہی محدود ہوں، میر شکیل الرحمٰن کے کیس میں ہی تین دفعہ عدالت گیا ہوں، میرے بڑے بھائی اور میری بہنیں مجھ سے بہت سخت ناراض ہوتے ہیں کہ تم باہر کیوں نکلتے ہو، کچھ علماء کرام سمجھتے ہیں کہ رمضان ان کیلئے بڑی کمائی کا ذریعہ بنے گا، علماء کرام سائنس کو ہی نہیں سمجھتے ہیں، فواد چوہدری نے جو قمری کلینڈر بنایا اسے مان لیتے تو سب سکون میں آجاتے، کورونا کی وجہ سے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی بندہوگئی ہے تو ان کی مسجدیں ان سے بڑی تو نہیں ہیں، یہ میڈیکل سائنس کا معاملہ ہے طبی ماہرین جو اصول بتاتے ہیں علماء کو بھی انہیں سمجھنا چاہئے۔ ماہر قانون کامران مرتضیٰ نے کہا کہ نیب کا مقدمہ اور ریفرنس کے بغیر میر شکیل الرحمٰن کو قید رکھنا غیرقانونی حراست ہے، ایسی غیرقانونی حراست کو بعد میں خصوصی ججز ریمانڈ دے کر قانونی کرلیتے ہیں ، وہ ریمانڈ دیتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ اگریہ شخص کل بے گناہ نکلا تو پھر کیا ہوگا، اس شخص کی جو بے عزتی ہورہی ہے اور میڈیا ٹرائل کیا جارہا ہے اس کا مداوا کیا ہوگا، ایک شخص اور اس کے خاندان کا پورا مستقبل داؤ پر لگادیا جاتا ہے اس سے زیادہ زیادتی نہیں ہوسکتی۔
تازہ ترین