کورونا وائرس کی وبا سے صوبےکے عوام کو خوف ناک صورت حال کا سامنا ہے، لیکن شعور کی کمی اور اس بیماری سے متعلق آگہی نہ ہونے کی وجہ سے شہری احتیاطی تدابیر سے گریزاں ہیں۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں عوام کو اس بیماری پر قابو پانے یا محدود رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کررہی ہیں ۔ اس کے باوجود نہ صرف اس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ ہلاکتوں کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ ان حالات میں پولیس و رینجرز پر دوہری ذمہ داریاں عائد ہوگئی ہیں۔
ایک جانب انہیں صوبے میں امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے، ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر سے عوام کو محفوظ رکھنے کا فریضہ انجام دینا پڑ رہا ہے، دوسری جانب انہیںاپنی جانیں خطرے میں ڈال کر عوام کر کرونا کی تباہ کاریوں سے بچانے کی خاطرلاک ڈاؤن پر مکمل عمل درآمد کرانے کے لیے دن رات ڈیوٹیاں دینا پڑ رہی ہیں۔ سکھر ریجن میں بھی لاک ڈاؤن کے دوران جہاں عوام کو کرونا سےمحفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں وہیں کچے کے جنگلات کو ڈاکوؤں سے پاک کرنے کے لیے آپریشن جاری ہے۔ کچے کے سب سے بڑے اور خطرناک جنگلاتی خطے میں کشمور پولیس کی جانب رمضان المبارک کے اوائل میں ڈاکوؤں کے خلاف شروع کیا جانے والا گرینڈ آپریشن عید الفطر گزرنے کے بعد بھی جاری ہے۔
اس آپریشن میں بکتر بند گاڑیوں، بھاری مشینری اور جدید ہتھیاروں کا استعمال کیا جارہا ہے۔ گرینڈ آپریشن میں پولیس کی بھاری نفری اور تربیت یافتہ کمانڈوز حصہ لے رہے ہیں۔ آپریشن میں ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کے ساتھ جدید آلات جن میں طویل فاصلے تک دیکھنے والی اور نائٹ ویژن دوربین بھی شامل ہیں تاکہ ڈاکوؤں کی نقل و حرکت پررات کی تاریکی میں بھی نظر رکھی جاسکے۔ پولیس نے کارروائیاں کرتے ہوئے ڈاکوؤں کی متعدد پناہ گاہوں کو نذرآتش کردیا اوران کی جتنی بھی کمیں گاہیں کچے کے علاقے میں قائم ہیں، انہیں مسمار کیا جارہا ہے۔پولیس آپریشن کے دوران ڈاکوؤں کے سہولت کاروں کی بھی کڑی نگرانی کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں 10 مشتبہ افراد کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔
آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر کی ہدایات پر شروع کئے جانے والے آپریشن کی سربراہی ایس ایس پی کشمور، سید اسد رضا شاہ خود کررہے ہیں اور انہوں نے اپنا کیمپ کچے کے جنگلات میں قائم کرلیا ہے۔ ڈاکوئوں کے خلاف پولیس کی جانب سےکیے جانے والے آپریشن کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔پولیس نے مقابلے کے دوران بہتر حکمت عملی کے ساتھ 5 مغویوں کو ڈاکوئوں کے چنگل سے بحفاظت بازیاب کرالیا ہے۔ آپریشن میں 7 ڈاکوؤں کو گرفتار کرکے ان کے قبضے سے کلاشنکوف سمیت بھاری مقدار میں اسلحہ بھی برآمد کیا گیا ہے۔ ایس ایس پی کشمور سید اسد رضا شاہ کے مطابق ڈاکوؤں کے خلاف کیا جانے والا گرینڈ آپریشن مطلوبہ نتائج حاصل کرنے تک جاری رہے گا۔ آئی جی سندھ ،آپریشن کی مانیٹرنگ کررہے ہیں اور آپریشن کے حوالے سے روزانہ کی بنیاد پرانہیں رپورٹ پیش کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپریشن کے دوران ضرورت پڑنے پر کراچی سمیت دیگر اضلاع سے بھی پولیس کی مزید نفری خاص طور تربیت یافتہ کمانڈوز کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ طویل عرصے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کشمورمیں کچے کے جنگلات میں وسیع پیمانے پر آپریشن شروع کیا گیا ہے۔ کچے کے جنگلات انتہائی خطرناک اور مشکل گزار ہیں کیوں کہ شاہ بیلو کے جنگلات کشمور، شکارپور، گھوٹکی اور پنجاب کے اضلاع راجن پور، رحیم یار خان پر مشتمل ٹرائی اینگل نما جزیرہ ہے جہاں پولیس کو ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن میں دشواریاں پیش آتی ہیں ۔ حکومت کی جانب سے لاک ڈائون کے بعد پولیس کی زیادہ توجہ لاک ڈاؤن پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے ساتھ امن و امان کی فضاء کو بحال رکھنا ہے۔
ان ڈاکوؤں نے اغواء برائے تاوان کی وارداتیں بھی شروع کی ہوئی ہیں اور اب تک متعدد نوجوان ان کی سرگرمیوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ان وارداتوں میں ڈکیت و اغواکاروں نے سائیٹیفک طریقہ اختیار کیا ہے جس میںموبائل فون کی جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جارہا ہے۔ پہلے یہ ڈاکو نسوانی آواز کے جھانسے میں پھنسا کر مختلف علاقوں کے لوگوں کو ملاقات اپنے مخصوص ٹھکانوں پر بلایا کرتے تھے اب انہوں نے شاہراہوں پر وارداتیں کرنا شروع کردیں۔
لیکن پولیس ان کی سرگرمیوں کی خفیہ طور سے مانیٹرنگ کررہی تھی اس لیے جونہی ڈاکوؤں کے منظم گروہ اغوا برائے تاوان اور ڈکیتی کی کارروائیوں کے لئے سرگرم ہوئے پولیس نے بھی ان کے خلاف گرینڈ آپریشن شروع کردیا۔ اس آپریشن میں کراچی سے آئے ہوئے ریپڈ ریسپانس فورس کی 4کمپنیاں، 200پولیس اہلکار، 6بکتر بند گاڑیوں سمیت جدید اسلحہ سے لیس ہوکر حصہ لے رہے ہیں اور بدنام ڈاکو لاڈو اور جونگل تیغانی گروہوں کے خاتمے کے لئے آپریشن کیا جارہا ہے۔
کچے کے ان جنگلات کی حدود سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے مختلف اضلاع سے لگتی ہیں، ڈیڑھ سال قبل ان جنگلات میں موجود ڈاکوئوں کے مکمل خاتمے کے لئے تینوں صوبوں سندھ، پنجاب اور بلوچستان کی جانب سے مشترکہ طور پر آپریشن شروع کرنے کی باتیں بھی کی گئیں اور اس حوالے سے تینوں صوبوں کی پولیس کے افسران بالا کے رابطے بھی ہوئے تھے تاہم پھر نامعلوم وجوہات کی بناء پر وہ آپریشن نہیں ہوسکا۔ اب آئی جی سندھ مشتاق مہر کے احکامات پر کشمور کے کچے کے جنگلات میں ڈاکوؤں کے خلاف بڑے پیمانے پر گرینڈ آپریشن شروع کیا گیا ہے۔
ان گروہوں نے اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کردیا ہے۔ سادہ لوح عوام کو موبائل سافٹ ویئر کی لیڈیز ایپ کی مددسے لڑکی بن کر دوستی کرتے ہیں اورجب ان کے شکار ان کی دوستی اور محبت میں گرفتار ہوجاتے ہیں تو پھر یہ ڈاکو انہیں ملاقات کے لیےبلاتے ہیں اور اغواکرکے ان کے لواحقین سے بھاری تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ڈاکوئوں کی جانب سے اختیارکیا جانے والایہ طریقہ واردات اس قدر کامیاب ہے کہ پنجاب سندھ، بلوچستان، کے پی کے سمیت ملک کے دیگر علاقوں سےتعلق رکھنے والے متعدد افراد ان کے چنگل میں پھنس چکے ہیں جو ماضی میں تاوان کی ادائیگی کے بعد رہائی حاصل کرتے تھے۔
پولیس کی جانب سے اس طرح کی وارداتوں کو ناکام بنانے کے لئے مسافر گاڑیوں کے ڈرائیورز اور کلینرز کو خصوصی طو رپر یہ ہدایات دی گئی ہیں کہ اگر کوئی مسافر فون پر کسی لیڈیز کے ساتھ مشکوک انداز میں بات کر رہا ہو اور کسی مخصوص اسٹاپ پر اترنا چاہے تو اس کی اطلاع بھی فوراً پولیس کو دی جائے جبکہ پولیس کی جانب سے ضلع کے داخلی راستے پر پولیس چوکی بھی قائم کی گئی ہے جہاں پر 24گھنٹے عملہ تعینات رہتا ہے اور گزرنے والی تمام گاڑیوں کو روک کر مسافروں کو چیک کیا جا رہا ہے کہ کہیں یہ افراد عورتوں کی آواز میں ٹریپ ہوکر ڈاکوؤں کے چنگل میں پھنسنے تو نہیں جارہے۔
پولیس حکام نےلوگوں خاص طور پر نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ موبائل فون اور سوشل میڈیا کا غیر ضروری استعمال ہر گز نہ کریں کسی مس کال پر جسے وہ جانتے نہ ہوں کال نہ کی جائے اور اگر کوئی رانگ نمبر کی کال موصول ہو جس میں کوئی خاتون بات کررہی ہو تو اس سے گریز کیا جائے کہیں ایسانہ ہو کہ خاتون کی دلفریب آواز کے بعد اس کی دوستی میں پھنس کر وہ کسی اغوا کاروں یا ڈاکوئوں کے چنگل میں نہ پھنس جائے کیونکہ اس عمل سے نہ صرف مغوی خود پریشان ہوتا ہے بلکہ ان کے اہلخانہ ، رشتے دار، عزیز واقارب سب ہی پریشان ہوتے ہیں اس لئے پولیس کی اپیل ہے کہ اس طرح کی موبائل فون دوستیوں سے مکمل طور پر احتیاط کیا جائے۔