پاکستان کرکٹ بورڈ کا ہمیشہ سےمسئلہ ڈسپلن رہا ہے۔کئی بڑے کھلاڑی ڈسپلن کی دھجیاں اڑا کر ٹیم میں رہتے ہیں اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں آج جو مقام ملا وہ اسی بورڈ کی وجہ سے ملا ہے۔عین اس وقت جب ٹیم روانگی کے لئے تیار تھی سابق کپتان محمد حفیظ نے ذاتی حیثیت میں کورونا ٹیسٹ کراکر پی سی بی کو مشکل میں ڈال دیا۔دورہ انگلینڈ سے پہلے کیے جانے والے معمول کے کورونا ٹیسٹ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے سات کھلاڑیوں کے رزلٹ مثبت آئے تھے جن میں محمد حفیظ، وہاب ریاض، محمد رضوان، محمد حسنین، فخر زمان، عمران خان، کاشف بھٹی اور ٹیم سپورٹنگ ا سٹاف کے رکن اور مساجر ملنگ علی شامل تھے۔
اگلے دن محمد حفیظ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک پیغام میں اپنے ایک اور کورونا ٹیسٹ کا نتیجہ لگایا جس کے مطابق ان میں اور ان کے خاندان والوں میں وائرس کی تصدیق نہیں ہوئی۔یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر پاکستان کرکٹ بورڈ نے اپنے طور پر تمام کھلاڑیوں کے کووڈ 19 ٹیسٹ کرائے ہیں تو کیا کھلاڑیوں کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنے طور پر دوبارہ ٹیسٹ کروائیں؟
یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اب اس نئی صورتحال میں کس نتیجے کو درست تسلیم کرے ؟ پی سی بی کی جانب سے کروائے گئے ٹیسٹ کو یا اس ٹیسٹ کو جو کوئی کھلاڑی اپنے طور پر کرواتا ہے۔لیکن سنیئر کھلاڑی کی جانب سے یہ حرکت ڈسپلن توڑنے کے مترادف ہے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان محمد حفیظ کا کورونا ٹیسٹ کے علاوہ اینٹی باڈی ٹیسٹ بھی مثبت آیا تھا ۔حیران کن طور پر پی سی بی نے کورونا ٹیسٹ کی رپورٹ جاری کردی لیکن اینٹی باڈی ٹیسٹنگ کی رپورٹ جاری کرنے سے گریز کیا۔ اینٹی باڈی ٹیسٹ خون سے لیا جاتا ہے اس کا مثبت آنا اس بات کو تقویت پہنچاتا ہے کہ حفیظ کے جسم میں وائرس آیا تھا۔
ٹیسٹ کرکٹر محمد حفیظ نے پی سی بی کی اتھارٹی کو چیلنج کرکےدوسرا کورونا ٹیسٹ کرایا جس کی وجہ سے وہ مشکل میں دکھائی دیتے ہیں ۔پی سی بی حکام ان کے خلاف انضباطی کارروائی پر بھی غورکررہے ہیں لیکن لگ رہا ہے کہ ہمیشہ کی طرح بڑا کھلاڑی کارروائی سے بچ جائے گا۔ حفیظ کا کورونا ٹیسٹ منگل کو مثبت آیا تھا انہوں نے مثبت رپورٹ آنے کے فورا بعد دوسرا ٹیسٹ لاہور کی ایک اور لیبارٹری سے کر الیا جس نے ان کی رپورٹ کو منفی قرار دے دیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے تمام کرکٹرز اور آفیشلز کے ٹیسٹ شوکت خانم لیبارٹری سے کرائے تھے۔ بدھ کو جیسےہی حفیظ نے منفی ٹیسٹ کی رپورٹ سوشل میڈیا پر شیئر کی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ شوکت خانم لیبارٹری نے حفیظ کےپہلے سے موجود سیمپل کو دوبارہ ٹیسٹ کیا دوسری بار بھی ان کا ٹیسٹ مثبت آیا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے حکام جس نکتے سب سے زیادہ پریشان ہیں وہ یہ ہے کہ حفیظ کاٹیسٹ مثبت آیا انہوں نے اپنے آپ کو آئسولیٹ کرنے کے بجائے دوسرا ٹیسٹ کرا لیا۔فوری طور پر قرنطینہ میں نہ جانا ڈبلیو ایچ او قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نےحفیظ سمیت دس کھلاڑی کی دوسری ٹیسٹنگ جمعے کو کرائی۔
دوسری جانب پاکستان کرکٹ بورڈ محمد حفیظ کے عمل سے ناخوش ہے۔محمد حفیظ نے انفرادی طور پرکرائے جانے والے ٹیسٹ کا رزلٹ سوشل میڈیا پر شیئرکیا تھا ۔ پی سی بی کے چیف ایگزیکٹیووسیم خان نے بدھ کو محمد حفیظ سے رابطہ کرکے ناراضی کا اظہار کیاان سے کہا گیا کہ آپ کے ٹوئٹ سے پاکستان کے ٹیسٹنگ نظام کی دنیا بھرمیں جگ ہنسائی ہوئی ہےوسیم خان نے محمد حفیظ کے عمل پرمایوسی کا اظہار کیا ۔
پی سی بی کا کہنا ہے کہ محمد حفیظ نے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیاہے۔محمد حفیظ کی طرح ایک اور پاکستانی کھلاڑی کامران اکمل نے الزام لگایا ہے کہ پرفارمنس کے باوجود جب سلیکشن نہیں ہو تی تو مایوسی ضرور ہوتی ہے، پرفارمنس کے باوجود مجھے موقع نہیں مل رہا، کچھ برسوں میں جس طرح کا سلوک میرے ساتھ کیا جا رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا ہوا نہیں ، میں خود کو متحرک رکھنے کی کوشش کرتا ہوں، میرا کام یہی ہے کہ میں جس سطح پر بھی کسی بھی ٹیم کی جانب سے کھیلوں، اچھا کھیلوں اور اپنی پرفارمنس برقرار رکھوں۔
انضمام الحق کی سلیکشن کمیٹی نے میرٹ پر کام نہیں کیا، پرفارمنس والوں کو نہیں چنا گیا بلکہ پسند و ناپسند کی بنیاد پر ٹیمیں تیار کی جاتی رہی ۔ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ پانچ چھ برسوں میں مینجمنٹ میں جو لوگ اور کوچز آئے ان کی وجہ سے کرکٹ کو نقصان پہنچا ہے، پاکستان میں کھیل کے معیار کے گرنے کی وجہ پیٹرن چیف وزیراعظم عمران خان کو چیئرمین پی سی بی احسان مانی سے پوچھنی چاہیے کیونکہ احسان مانی کو ذمہ داری سونپی گئی ہے انہیں دیکھنا چاہیے کہ ٹیمیں پسند و ناپسند پر کیوں بن رہی ہیں۔ مینجمنٹ میں شامل موجودہ لوگوں سے بات ہو ئی ہے اور مجھے بہت مثبت رسپانس ملا ہے، امید ہے کہ آئندہ جس ٹیم کا بھی انتخاب ہو گا مجھے ضرور موقع ملے گا تاہم مصباح الحق جانتے ہیں کہ پرفارمنس کی کیا قدر ہے۔
کامران اکمل کا کہنا تھا کہ میں ٹیم میں شامل نہ بھی ہوں لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ ٹیم میں دو تین وکٹ کیپرز شامل ہونے سے فرق نہیں پڑتا، کوئی اچھا بیٹسمین ہے تو آپ اسے کھلائیں، کیا دیگر ٹیموں میں ایک سے زیادہ وکٹ کیپر بیٹسمین نہیں کھیلتے ؟ اچھا بیٹسمین ہونے کی وجہ سے دنیا کی ٹیموں میں تین تین وکٹ کیپرز کھیلے ہیں۔ پاکستان ٹیم میں دو وکٹ کیپرز ہوں یا ایک، میرا کام پرفارمنس دینا ہے، اچھا بیٹسمین ہونے کے باوجود اگر کسی وکٹ کیپر کو ٹیم میں شامل نہیں کیا جاتا تو یہ زیادتی ہے۔فاسٹ بولر جیند خان نے ورلڈ کپ کی ٹیم میں شامل نہ ہونے پر گذشتہسال منہ پر ٹیپ لگا کر اپنی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کردی تھی۔
اس بار بھی جنید خان خاموش نہ رہے ان کا کہنا ہے کہ اگر انگلینڈ میں پرفارمنس کی بنیاد پر سلیکشن کی گئی ہے تو میرا ریکارڈ سب سے اچھا ہے ۔29 کھلاڑیوں میں بھی نام نہ آنے پر بہت افسوس ہوا۔ جیند خان کا کہنا تھا کہ سنٹرل کنٹریکٹ سے باہر ہونے پر دکھ نہیں ہوا تھا لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ دورہ انگلینڈ کے لیے 29 کھلاڑیوں کا اعلان ہوا جن میں میرا نام نہیں ۔پاکستان ٹیم میں شامل کھلاڑیوں میں سب سے زیادہ کاؤنٹی کرکٹ میں کھیلا ہوں۔
جنید خان نے کہا کہ بہت اچھا ہے کہ شاہین آفریدی اور نسیم شاہ جیسے کئی نوجوان ٹیم کا حصہ ہیں ٹیم میں نوجوان ہوں گے تو سینئر کھلاڑیوں پر پرفارمنس دکھانے کا پریشر ہو گا سینئر کھلاڑیوں کے ٹیم میں ہونے سے نوجوان کھلاڑیوں کو سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔محمد حفیظ ،کامران اکمل اور جنید خان نے انگلینڈ کے دورے سے قبل تنازع کھڑا کردیا ہے۔
پی سی بی ان سنیئرز کے خود کش حملوں پر خاموش ہے۔لیکن انگلینڈ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی مجموعی کارکردگی کے بعد ان کھلاڑیوں کے بیانات کو سامنے رکھ کر میڈیا پوسٹ مارٹم کرے گا۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کئی نشیب وفراز سے گذر کر اب انگلینڈ میں ہے اور قرنطینہ کا وقت گذار رہی ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے انگلش بورڈ کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد تین ٹیسٹ اور تین ٹی ٹوئینٹی انٹر نیشنل میچوں کی سیریز کو حتمی شکل دی۔پاکستان گذشتہ دو ٹیسٹ سیریز انگلینڈ میں برابر کھیل کر آیا ہے لیکن موجودہ ٹیم کی بولنگ کم تجر بہ کار ہے بیٹنگ میں بڑے نام ہیں سب سے بڑھ کر کوچنگ میں مصباح الحق،وقار یونس ،یونس خان اور مشتاق احمد جیسے بڑے نام کیا فرق ڈالیں گے اس کا جواب وقت ہی دے سکے گا۔