امریکہ نے 1950ء کے بعد یہ حکمت عملی اپنائی کہ سرد جنگ کے دوران کوئی مقروض ملک کا رہنما اشتراکیت کے لئے نرم گوشہ رکھے، اسے دنیا سے رخصت کر دیا جائے۔ فیڈل کاسٹرو نے کیوبا میں جس قسم کے حالات دیکھے، جاننے والے خوب جانتے ہیں لیکن چی گیورا کے ساتھ جو ہوا تاریخ کے اوراق اس کے گواہ ہیں۔ وہ جان کی بازی لگا کر دنیا کو تبدیل کرنے کے لئے افریقہ اور لاطینی امریکہ میں سامراج کے خلاف نبردآزما رہا، تاہم عام خیال یہ ہے کہ مسلم انتہاپسند اختلاف رائے پر سر کی قیمت طلب کرتے ہیں لیکن مشاہدہ کیا جائے، یہ سامراج کی انتہا اور توسیع پسندی کے ساتھ ساتھ منڈیوں پر قبضہ کرنے کی ہوس کی انتہا تھی، جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں تخت الٹے گئے، ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، ایٹم بم گرانے سے بھی گریز نہ کیا گیا۔ توسیع پسندی کا یہ عالم ہے کہ سمندروں پر قبضے، فضا میں سیٹلائٹس اور زمین پر فلسطین سے لے کر کشمیر تک خون کی ندیاں بہانے کی پشت پر امریکی سامراج کا ہاتھ رہا ہے اور اس صدی میں عراق سے افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کیلئے نیٹو کی افواج کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے، دوسری طرف دنیا یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ امریکہ نے ڈالر جمہوریت کو برآمد کیا اور کس طرح متناسب جمہوریت کے ذریعے مذہبی عناصر کو استعمال کیا اور پاکستان کو سابق سوویت یونین اور چین کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ بنا کر استعمال کیا اور ہم ڈالروں کے عوض استعمال ہوئے۔ امریکہ نے اپنے حاشیہ برداروں کے ذریعے دنیا بھر میں مقبول رہنماؤں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ ستم ظریفی یہ رہی کہ ناوابستہ ممالک کی تنظیم بھی کچھ نہ کر سکی۔ چلی کے منتخب اور مقبول رہنما آلیندے کو ملٹی نیشنلز کے ذریعے کس طرح قتل کروا دیا اور پنوشے جیسے آمر کو کئی عشروں تک چلی پر مسلّط رکھا اور پھر بڑھاپے میں اس پر مقدمہ چلوا کر ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ ڈالر جمہوریت کے کس قدر حامی ہیں۔ چلی کے معروف شاعر پابلونرود کی کئی نظمیں اس وقت کے حالات کی غمازی کرتی ہیں جو ان کے ساتھ ہوا، وہ الگ کہانی ہے۔ انڈونیشیا کے عوام کے پسندیدہ صدر سوئیکارنو جنہوں نے اقوام متحدہ میں یہ اعلان کیا تھا کہ ہم ترقی پذیر ملکوں کی الگ اقوام متحدہ بنائیں گے، انہیں جنرل سوہارتو کے ذریعے10 لاکھ سوشلسٹ ادیبوں، شاعروں، مصوروں اور سیاسی کارکنوں کو ہلاک کر کے آمرانہ حکومت کو کئی عشروں تک بٹھا دیا۔ آخرکار جنرل سوہارتو کا بھی وہی حشر کیا گیا جو پنوشے کا ہوا۔ صدر ناصر کے خلاف امریکی جنتا تگ و تاز کرتی رہی تاہم یہ بتایا جاتا ہے کہ اسے بھی ”سلو پوائزن“ کے ذریعے عالمی منظرنامے سے ہٹایا گیا۔ افریقہ میں سفید فاموں نے لوٹ مار کا بازار آج تک گرم کر رکھا ہے۔ افریقہ کے خوابوں کا سورج آگسیٹینوینٹو جو چی گیورا کے ساتھ تھے ان کا تختہ الٹ دیا جن کی شاعری آج تک زندہ ہے۔ اسلامی ملکوں میں شاہ فیصل، ذوالفقار علی بھٹو اور آخر میں کرنل قذافی کو اپنے راستے سے ہٹا دیا کیونکہ یہ رہنما تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی بات کرتے تھے۔ ایٹمی توانائی حاصل کرنا اور فلسطین کو آزاد کرنے کے موٴقف پر اڑے ہوئے تھے۔ امریکی سامراج اختلاف رائے رکھنے والے ملکوں کو ہی تباہ کر دیتا ہے۔ انتہاپسند تو سر کی قیمت طلب کرتے ہیں۔ ان میں تو کچھ امریکہ کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور کچھ امریکہ کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ سامراج سے لڑنے والا آخری سپاہی ہوگیو شاویز تھا جس نے طویل عرصے بعد امریکہ کو للکارا۔ ان کے نائب صدر نے یہ انکشاف کیا کہ ہوگیو شاویز کو”سلو پوائزن“ سے مارا گیا ہے۔ تاریخ میں یہ بات بھی دیکھی گئی ہے کہ جس دن آمر پیدا ہوتا ہے اسی دن وہ مر جاتا ہے اور جس دن ہیرو قتل کیا جاتا ہے اس دن وہ پیدا ہوتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتا ہے۔ سامراج کی لوٹ مار اور قتل عام کے نتیجے میں دنیا بھر میں انتہاپسند پیدا ہو رہے ہیں جن میں کچھ ان کے اپنے پیدا کردہ ہیں تاکہ ابہام پیدا ہو اور عوام کو یہ معلوم نہ ہو سکے کہ ان کا اپنا کون ہے اور کون ان کا دشمن ہے۔
اگر اس سارے پس منظر پر نگاہ ڈالی جائے تو پاکستان ایک ایسی مثال ہے جو سامراج کی بدترین تجربہ گاہ بن چکا ہے۔ یہاں ہر طاقتور اقتدار کا بھوکا سامراج کا حاشیہ بردار ہے۔ تین آمروں نے جن میں جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف قابل ذکر ہیں، نے دس دس سال اقتدار میں گزارے اور ملک کا معاشی، سیاسی، سماجی تارپود تار تار کر دیا۔ جو ملک میں بصیرت رکھتے تھے ان کو نذر زنداں رکھا گیا یا پھانسی پر چڑھا دیا گیا اور اب فوج اور عدلیہ کی کوشش ہے کہ پاکستان کو جمہوری لبادہ اوڑھا دیا جائے جس طرح کسی مقبول رہنما کی میّت کو پرچموں سے لپیٹا جاتا ہے۔ اب تو نگراں وزیراعظم بھی آ گئے ہیں جن کی بات چیت سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مضبوط نگراں وزیراعظم ثابت نہیں ہوں گے۔ ویسے بھی پاکستان میں زیادہ تر حکومتیں ”ڈمی“ ہی رہی ہیں، البتہ ایک خبر بہتر ہے کہ پاکستان کے بڑے صوبے میں ایک دانشور اور متوازن شخصیت نجم سیٹھی کا انتخاب متفقہ طور پر کیا گیا ہے۔ اگر اس مرتبہ بھی ملک کو اسکرپٹ کے تحت چلایا گیا تو یہ سمجھ لیجئے کہ عوام کا جمہوریت سے اعتماد اٹھ جائے گا اور ملک انارکی کی انتہا کو پہنچ جائے گا۔ جنرل مشرف بھی علامہ قادری کی طرح پاکستان کی سرزمین پر اترے۔ جنرل مشرف اور جنرل ضیاء الحق افغان جنگ کو پاکستان کے اندر لانے کے مرتکب ہوئے ہیں اس لئے جنگ کی آتش فشانی کا پودا ضیاء الحق نے لگایا تھا آج وہ درخت بن گیا ہے اور انتہاپسندی عام ہو گئی ہے اس لئے اختلاف رائے پر لوگ سر مانگتے ہیں، ویسے بھی مہنگائی اور بیروزگاری ناگفتہ بہ ہو جائے تو انسان کی قیمت صفر ہو جاتی ہے۔ پاکستان اس وقت صنعت کاروں، جاگیرداروں، طالع آزماؤں، نسل پرستوں، فرقہ پرستوں، ٹیکس چوروں اور بیورو کریسی کے قبضے میں ہے، ان کے ذریعے سے ”گرے منی“ ”بلیک منی“ عام ہو گئی۔ جس کے نتیجے میں ترقی نہیں ہو سکتی، اس سے جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر ”اسٹیٹس کو“ کے حامیوں نے اس کا تدارک بھی نہ کیا تو پاکستان کی سرنگ کے آخری سرے پر بھی روشنی نظر نہیں آئے گی۔ پاکستان میں تعلیم یا علم کا حصول نصیحتوں اور خوف پر رکھا گیا ہے۔ انسان میں جو تحرک پایا جاتا ہے یہ صرف تجسس اور جستجو کا ہی مرہون منت ہے لیکن یہاں تو لکھے ہوئے متروک الفاظ ہی پتھر کی لکیر سمجھے جاتے ہیں اس لئے درس گاہوں اور اسپتالوں کو مافیا ہی چلائیں گے۔ ایسے معاشرے میں تخلیق کار نہیں بند دماغ ہی پیدا ہوں گے جو ناانصافی تو برداشت کر لیں گے ایک دوسرے کو برداشت نہیں کریں گے۔ اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ معاشرے میں غیر منصفانہ، جماعتی اور طبقاتی امتیاز پایا جاتا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانے والے طبقے احساس جرم سے محفوظ رہنے کیلئے ایسے نظریات کی طرف میلان رکھتے ہیں جن کا منشا یہ ہو کہ وہ کسی نہ کسی لحاظ سے کم نصیب لوگوں کی نسبت بہتر ہیں۔ ان نظریات کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ ہمدردیاں محدود ہو جائیں اور انصاف کی مخالفت اور حالت موجودہ کی حمایت کی جائے۔ اس طرح سے معاشرے کے زیادہ خوش قسمت اراکین ترقی کے مخالف بن جاتے ہیں اور وہ لوگوں سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کو شعور آ جائے اور وہ ان کے آرام و آسائش کیلئے خطرے کا باعث بن جائیں لہٰذا یوں ذہنی پسماندگی اور انتہاپسندی بڑھتی ہے اور پھر عدم برداشت کے نتیجے میں اختلاف رائے پر لوگ سر کی قیمت مانگتے ہیں۔