• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلامی ضابطۂ حیات میں حُسنِ معاشرت،خدمتِ خلق اور حقوق العباد کی ادائیگی کو بنیادی نیکی اور افضل عمل قرار دیا گیا ہے۔بالخصوص سخاوت اور مہمان نوازی مثالی اسلامی معاشرے کی پہچان اور اسلامی بھائی چارے کی روح ہے۔اسلام مسلمانوں کو سخاوت اور انفاق کی تعلیم دیتا ہے۔اس حوالے سے مہمان نوازی میں سخاوت بھی ہے اور انفاق بھی۔قرآن و سنت میں اسے باعث اجرو ثواب عمل قرار دیا گیا ہے۔

سخاوت اور دریادلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مہمانوں کی خاطر مدارات کرنا انبیاءؑ کی سنت ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے مہمانوں کے ساتھ ان کی عزت و تکریم کے حوالے سے معاملہ کیا۔سورۃ الذاریات میں ارشاد ربانی ہے: کیا آپ کو ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمانوں کی خبر بھی پہنچی ہے؟وہ جب ان کے ہاں آئے تو سلام کیا، اور ابراہیمؑ نے سلام کا جواب دیا(اور کہا یہ تو ) اجنبی لوگ ہیں،پھر (چپ چاپ جلدی جلدی) اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ایک فربہ بچھڑے(کا بھنا ہواگوشت)لائے، اور اسے ان کے پاس رکھا ،انہوں نے اس ( ابراہیم علیہ السلام) کو ایک حلم والے لڑکے کی بشارت دی۔اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مہمان کی عزت اور اس کا اکرام، خاطر و مدارات اپنی حیثیت کے مطابق کرنا ضروری اور واجب ہے۔

رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاءؑ کا جامع اور افضل الرسل فرمایا ہے۔آپﷺ کی پاکیزہ سیرت میں سخاوت اورمہمان نوازی کی صفت اتنی اعلیٰ تھی کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔آپﷺ کی حیات مبارکہ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے،جن میں آپﷺ نے سخاوت اور مہمان نوازی کے اعلیٰ ترین معیار کا نمونہ قائم فرمایا۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے،جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتاہے،تو وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے، وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔(صحیح مسلم)

ایک موقع پر آپﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمروؓسے فرمایا:تمہارے مہمانوں کا تم پر حق ہے۔(صحیح بخاری)

سخاوت اورمہمان نوازی کو ایک فرض قرار دیتے ہوئے رسول اکرمﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے،اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مہمان کی عزت کرے۔ایک دن اور ایک رات تک اس کی (مہمان کی) خدمت تو اس کا انعام شمار ہوگی،جب کہ تین دن تک مہمان نوازی ہوگی،اس کے بعد کی خدمت صدقہ ہے۔ساتھ ہی اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ مہمان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ ٹھہرا رہے اور اسے (میزبان کو) تکلیف میں ڈالے۔(سنن ابودائود)

جب ہم رسول اللہ ﷺکی حیاتِ مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپﷺ کی حیات ِطیبہ میں سخاوت اور مہمان نوازی کے بے شمار واقعات پاتے ہیں۔آنحضورﷺ کا یہ معمول تھا کہ آپﷺ کے گھر جب کوئی مہمان آتا،توجو بھی بہتر سے بہتر میسر ہوتا،مہمان کی خدمت میں پیش فرماتے۔بعض اوقات کھانے کے دوران اگر کوئی آجاتا تو اسے بے تکلفی سے اپنے ساتھ شامل فرما لیتے۔صحابہؓ میں جو بھی انتظامی ڈیوٹیاں تقسیم ہوتیں،ان میں سے آپﷺ اپنے ذمے بھی کچھ نہ کچھ ذمے داری لیتے۔جب کافی تعداد میں مہمان آجایا کرتے تو آپﷺ صحابہؓ میں مہمانوں کو تقسیم فرما دیتے اور اپنے ساتھ مہمانوں کو گھر لے آیا کرتے۔

ابتدائی زمانہ غربت کا تھا، نیز آپﷺ کو صحابہؓ کی فاقہ کشی کا علم تھا،اس لیے جب بھی کھانے کے ظاہری اسباب میسر آتے، چاہے وہ تھوڑے سے ہی ہوں، آپﷺ اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ میری دعا سے برکت ڈالے گا،صحابہؓ کو بلوا لیتے اور ان لوگوں کو بھی بلوا لیتے جو بھوکے وہاں موجود ہوتے تھے، تاکہ ان کی بھی مہمان نوازی ہو جائے۔بسا اوقات آپﷺ نے اپنے ہاں مہمان ٹھہرائے اور ان کے لیے مستقل خوراک کا انتظام فرمایا۔بعد ازاں جب وفود کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو آپﷺ ان کی بھی مہمان نوازی کا انتظام فرماتے۔ہر موقع پر آپﷺ اس تلاش میں رہتے کہ کسی طرح مہمان کی خدمت کا موقع ہاتھ آئے۔

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات ایک کافر رسول اللہﷺ کے ہاں مہمان بنا۔ آپﷺ نے اس کے لیے بکری کا دودھ لانے کا حکم فرمایا، جو اس نے پی لیا۔ پھر دوسری اور تیسری یہاں تک کہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا۔راوی کہتے ہیں کہ صبح اس نے اسلام قبول کر لیا۔ آپﷺ نے پھر اس کے لیے دودھ لانے کا ارشاد فرمایا تو اس نے پی لیا، پھر آپﷺ نے دوسری بکری کا دودھ لانے کا ارشاد فرمایا تو وہ پورا دودھ ختم نہ کرسکا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا: مومن ایک آنت میں کھاتا ہے، جب کہ کافر سات آنتوں کو بھرتا ہے۔ (جامع ترمذی)

اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ بعض مرتبہ وفود کی مہمان نوازی کا فرض صحابہؓ کے سپرد فرماتے ۔ایک دفعہ قبیلہ قیس کا وفد آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپﷺ نے انصارؓ کو ان کی مہمان نوازی کا ارشاد فرمایا، چناںچہ انصارؓان مہمانوں کو لے گئے۔صبح وہ حاضر ہوئے تو آپﷺ نے دریافت فرمایا: تمہارے میزبانوں نے تمہاری کیسی خدمت کی، انہوں نے کہا یارسول اللہﷺ!بڑے اچھے لوگ ہیں۔ہمارے لیے نرم بستر بچھائے،عمدہ کھانے کھلائے اور پھر رات بھر کتاب و سنت کی تعلیم دیتے رہے۔ (مسند احمد)

حضرت ابوشریح ؓ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ وہ اپنے ہمسایے کی تکریم کرے اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو ،اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی جائزہ بھر ( یعنی خوب اعزاز و اکرام کے ساتھ ) تکریم کرے۔ عرض کیا گیا : ’’ یا رسول اللہ ﷺ ! ’’جائزہ‘‘ کیا ہے۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا : ایک دن رات ( مہمان کا خصوصی ) اعزاز و اکرام کرنا، مہمان نوازی تین دن، تین رات تک ہوتی ہے اور جو ان کے بعد ہو، وہ صدقہ شمار ہوتی ہے، جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ اچھی بات کرے ،ورنہ خاموش رہے۔ ‘‘ (الادب المفرد)

مہمانوں کے کھانے پینے پر مسرت محسوس کیجئے، مہمان زحمت نہیں، بلکہ رحمت اور خیرو برکت کا ذریعہ ہوتا ہے اوراللہ جسے آپ کے یہاں بھیجتا ہے اس کا رزق بھی اُتاردیتا ہے۔روایت کے مطابق حضور اکرم ﷺکے پاس جب مہمان آتے تو آپ ﷺبذاتِ خود ان کی خاطر داری فرماتے۔آپﷺ مہمان کو اپنے دستر خوان پر کھانا کھلاتے ۔

حضرت ابو الاحوص جشمیؓ اپنے والد کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ایک بار انہوں نے نبی پاک ﷺسے عرض کیا، اگر کسی کے پاس میرا گزر ہو اور وہ میری ضیافت اور مہمانی کا حق ادا نہ کرے اور پھر کچھ دنوں کے بعد اس کا گزر میرے پاس ہو تو کیا میں اس کی مہمانی کا حق ادا کروں؟ یا اس کی بے مروّتی اور بے رخی کا بدلہ اسے چکھاؤں؟ نبی پاکﷺ نے فرمایا: نہیں ،بلکہ تم ہرحال میں اس کی مہمانی کا حق ادا کرو۔(مشکوٰۃ)اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر حال میں سخاوت اور دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مہمان کا خیال رکھا جائے ۔ اگر آپ کے مہمان نے کبھی کسی موقع پر آپ کے ساتھ بے مروّتی اور روکھے پن کاسلوک کیا ہو ،تب بھی آپ اس کے ساتھ نہایت فراخ دلی، وسعت ظرفی اور فیاضی کا سلوک کیجئےاور حتیٰ الامکان اس کی میزبانی میں کوئی کمی نہ کیجئے۔

مہمان نوازی کو ایک فرض قرار دیتے ہوئے رسول اکرمﷺ نے فرمایا:جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے،اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مہمان کی عزت وتکریم کرے۔ایک دن اور ایک رات تک اس کی (مہمان کی) خدمت تو اس کا انعام شمار ہوگی،جب کہ تین دن تک مہمان نوازی ہوگی،اس کے بعد کی خدمت صدقہ ہے۔مہمان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ ٹھہرا رہے اور اسے (میزبان کو) تکلیف میں ڈالے۔(سنن ابودائود)

مہمان کاخصوصی اعزاز و اکرام ایک دن ایک رات ہے، اور مہمانی تین دن تین رات ہے ، مہمان کے لیے یہ بات جائز نہیں کہ وہ اتنا طویل قیام کرے کہ جس سے میزبان مشقت میں پڑجائے۔‘‘ ( بخاری، مسلم )اللہ تعالیٰ ہمیں سخاوت اورمہمان نوازی کے حوالے سے آنحضرت ﷺ کے اسوۂ حسنہ کو اپنانے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

تازہ ترین