ہمارا دین یعنی اسلام ایک کامل ضابطۂ حیات اور قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے وہ مثالی منشور اور شاہراۂِ حیات ہے جس میں ہرشعبۂ زندگی سے متعلق امور کے بارے میں انسانیت کی بھرپور رہنمائی کی گئی ہے اور یہ خصوصیت اور امتیاز بنیادی طور پر صرف اور صرف دین کامل، اسلام کو حاصل ہے۔
اسلام میں جہاں عبادات ،معاملات،حُسنِ معاشرت ،باہمی رویوں، حسنِ سلوک اور مکارم ِ اخلاق کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ وہیں دینی ، اخلاقی اوراسلام کی عطا کردہ خاندانی اقدار کو کلیدی اور بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ معلّمِ اخلاق بناکرمبعوث فرمائے گئے۔آپﷺ کا پیغام ،آپﷺ کی شریعت اور آپ ﷺ کا دین حسن ِ اخلاق اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا علَم بردار ہے۔اس لحاظ سے اسلامی معاشرے میں حسنِ اخلاق ، اعلیٰ اخلاقی و خاندانی اقدار کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
انسان کے فطری مزاج اور طبقاتی اور خاندانی رنگا رنگی کے راز کو قرآن کریم نے مختصر اور بلیغ انداز میں اس طرح بیان کیاہے:’’ ہم نے تمہارے اندر مختلف جماعتیں اور قبائل بنائے، تاکہ تم باہم پہچانے جاؤ‘‘۔(سورۃ الحجرات) یہ طبقاتی فرق انسان کے لیے ایک امتحان ہے کہ اس فرق کا استعمال بندہ کس طور پر کرتا ہے؟ قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر فرمایاگیا:( ترجمہ) ’’اللہ ہی نے تمہیں زمین کا خلیفہ بنایا اور باہم فرق مراتب رکھا، تاکہ تمہیں عطا کردہ چیز کے بارے میں آزمائے،بے شک، تمہارا پروردگار جلد عذاب دینے والا ہے اور وہ یقیناً بخشنے والا اور مہربان بھی ہے‘‘۔
اسی لیے شریعت مطہرہ نے اپنے تمام قانونی احکام اور اخلاقی ہدایات میں اس فطری تنوع کا لحاظ رکھا ہے،زندگی کا کوئی مرحلہ ہو اسلام نے اپنے کسی بھی حکم میں یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ اس نے کسی فریق یا زندگی کے کسی پہلو کو نظر انداز کیاہو،یا کسی کی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی ہو،یہ مثالی اسلامی معاشرےکی پہچان ہے کہ اس میں اعلیٰ اخلاقی اقدار اور حسنِ معاشرت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اعلیٰ اخلاقی اقداراور حسن معاشرت اپنے جامع مفہوم میں معاشرے کے تمام افراد سے اس امر کے متقاضی ہیں کہ معاشرے کا کوئی فرد کسی کی حق تلفی اور ناانصافی کا ارتکاب نہ کرے۔
اعلیٰ اخلاقی اقدار اور حسن معاشرت کی بنیاد باہمی عدل اور انصاف کو یقینی بنانے میں ہے۔جب کہ بدخلقی اور ناانصافی کسی بھی معاشرے میں بالخصوص مثالی اسلامی معاشرے میں کسی طور بھی قابل قبول نہیں۔ اسلامی قانون سراپا عدل وانصاف پر مبنی ہے،اسی بنیاد پر یہ دین قیم اور دین فطرت ہے،اسلام کے نزدیک عدل ہی تقویٰ کا معیار ہے۔ ہم مثال کے طور پر اسلام کی چند ان ہدایات کا تذکرہ کرتے ہیں،جن کا تعلق دو مختلف المراتب فریقین سے ہے اور جن سے انسان کو روز وشب دو چار ہونا پڑتا ہے۔
والدین اور اولاد دو مختلف طبقے ہیں،مگر اسلام نے دونوں کے مراتب کا مکمل لحاظ رکھتے ہوئے قانونی ہدایات دی ہیں،اسلامی معاشرے میں ایک طرف والدین کا اتنا عظیم حق بتایا گیا کہ ان کے سامنے اُف تک کہنے کی اجازت نہیں ہے،قرآن کریم میں ہے:’’ اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو، اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو اور نہ جھڑکو،ان سے اچھے لہجے میں بات کرو اور رحمت وانکسار کے ساتھ ان کے آگے جھک جاؤ اور ان کے لیے دعاکرو کہ پروردگار ان پر رحم فرما، جس طرح انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی تھی۔ احادیث میں والدین کے حق کو جہاد فی سبیل اللہ سے بھی مقدم بتایاگیا ہے۔
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ، اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل کیا ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا، وقت پر نماز پڑھنا، میں نے عرض کیا، اس کے بعد کس عمل کا درجہ ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، میں نے عرض کیا پھر کون سا عمل؟ آپﷺ نے فرمایا، جہاد فی سبیل اللہ۔
دوسری طرف والدین کو اپنی اولاد کے حقوق کی طرف توجہ دلائی گئی اورانسان پر اولاد کی تعلیم و تربیت کی پوری ذمے داری ڈالی گئی اور کہا گیا کہ اس سلسلے میں اللہ کے دربار میں انہیں جواب دہی کا سامنا کرنا ہوگا،ایک حدیث کے الفاظ ہیں: ’’مرد اپنے گھروالوں کا نگراں ہے،اس سے اس کی رعیت کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔ اولاد کو انسان کی سب سے بڑی پونجی اور صدقہ جاریہ قرار دیاگیا۔ میاں اور بیوی گھریلو زندگی کے بڑے ستون ہیں،ازدواجی زندگی میں دونوں کو الگ الگ ہدایات دی گئیں،شوہر سے کہا گیا کہ تمہاری یک گونہ فضیلت کے باوجود ان کے حقوق کے معاملے میں تم اسی طرح جواب دہ ہو جس طرح کہ وہ تمہارے معاملے میں جواب دہ ہیں: (ترجمہ) عورتوں کا مردوں پر اتنا ہی حق ہے، جتنا مردوں کا ان پر ہے، البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت حاصل ہے۔
جو لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھے طور پر رہتے ہیں، انہیں معاشرے کا اچھا آدمی قرار دیاگیا ۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں بہتر شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔ ایک حدیث میں ہے:کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے نفرت نہ کرے، اس لیے کہ اگر ایک بات ناپسند ہوگی تو دوسری کوئی بات ضرور پسند آئے گی۔ شوہر کی رضا مندی کو عورت کے لیے جنت میں داخلے کا وسیلہ قرار دیاگیا۔ حضرت ام سلمہؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو عورت مرجائے اور اس کا شوہر اس سے راضی ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔یہ تمام باتیں اخلاقی اقدار اور حسن معاشرت سے متعلق ہیں۔
حُسنِ معاشرت اخلاقی اقدار کی روح اور اس کی بنیاد ہے۔والدین معاشرے میں بلند مقام رکھتے ہیں،اس کے بعد درجہ بہ درجہ معاشرے کے تمام افراد کے ساتھ اچھے اخلاق کا رویہ،حسن سلوک اور حسنِ معاشرت اسلامی معاشرے کی اساس اور بنیاد ہیں۔جن پر عمل پیرا ہوکر ہی ہم ایک بہتر اور مثالی انسانی معاشرے کی تشکیل کرسکتے ہیں۔
پرہیزگاری …نیک اعمال کی بنیاد…!
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اُس نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ ﷺ مجھے کچھ نصیحت فرمائیے۔‘‘ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تقویٰ کو اپنے اوپر لازم کرلو، اس لیے کہ وہ ہر چیز کا گنجینہ ہے، اور جہاد کو لازم کرلو اس لیے کہ وہ مسلمانوں کی رہبانیت ہے اور اللہ کا ذکر اور اُس کی کتاب کی تلاوت پابندی سے کرتے رہو، اس لیے کہ وہ تمہارے لیے زمین میں نور اور آسمانوں میں ذکر (چرچے) کا باعث ہوگا اور اپنی زبان کو خیر کے سوا ہر چیز سے روکے رکھو، اس طرح تم شیطان پر غلبہ پاسکتے ہو۔‘‘ (طبرانی /معجم صغیر)