• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

راحیلہ سلطان

سڑکیں سنسان ،گلیاں ویران،کھیل کے میدان اجاڑ ،بازار بےرونق ،یہ میرا شہر تو نہیں،وہ شہر جس کی راتیں جاگتی تھیں۔ صبح چار بجے بھی منچلوں سے قہوہ خانے آباد رہتے تھے۔ سمندر کے ساحل رات ڈھلے تک انسانی وجود سے رنگین نظر آتے تھے ۔ بازار میں ہجوم خبر دیتا تھا کہ یہ شہر کروڑوں کی آبادی کا ہے ۔

صبح ہوتے ہی لوگ اپنے اپنے گھروں سے نکل پڑتے ،کسی کو آفس جانے کی جلدی ،کسی کو دکان کھولنے کی ،علی الصبح بچے گاڑیوں میں، اسکول وینوں میں بھرے کچھ نیم غنودگی میں تو کچھ شور مچاتے اسکول کی طرف رواں دواں ۔تعلیمی درسگاہیں بیش قیمت اساتذہ اور طالب علموں سے آباد منور نظر آتی تھیں ۔ مزدور پیشہ طبقہ صبح کی روشنی کے ساتھ ہی رزق کی تلاش میں سڑک پر بیٹھ جاتا۔ ہنرمند اپنے ہنر سے لوگوں کی زندگی کو آسان بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہوجاتے۔

مشینوں کا پہیہ گھومنا شروع ہوجاتا ۔ صنعتیں کاریگروں سے آباد ہو جاتیں ۔سڑکیں گاڑیوں سے بھری ,ہر ایک کو پہلے نکلنے کی جلدی۔ ہارنوں کا شور ،اوور ٹیک کرنے پر ایک دوسرے کو صلواتیں سناتےلوگ ،پیدل نکلنے والوں کا ہجوم ،سڑک کنارےکھڑے ریڑھی والوں کی صدائیں۔ ہر شخص اپنی ہی دنیا میں مگن وقت کی لگامیں تھامنے کی کوشش میں مصروف تھا ۔

زندگی افراتفری کا شکار نظر آتی تھی ۔ہر کسی کووقت کی کمی کا رونا تھا لوگ ایک دوسرے سے دور پیسہ کمانے کی مہم میں مصروف تھے کہ اچانک قدرت نے جادو کی چھڑی پھیر دی اور یوں لگا کہ جیسے وقت تھم گیا ہو ایک ان دیکھے وائرس کے خوف نے ہر شخص کو اپنے گھر میں مقید کردیا ۔ یہ شہر اجنبی لگنے لگا ہے۔ یہ میرا شہر تو نہیں اس کی ویرانی دل ڈبو دیتی ہے ۔ جس شہر میں راتیں بھی بولتی تھیں۔ آج وہاں دن بھی رات کی طرح خاموش ہے ۔اتنا سناٹا کہ خاموشی بولتی ہوئی محسوس ہو تی ہے۔

سنسان سڑکوں پر اب کسی کو کسی سے آگے بڑھنے کی جلدی نہیں ۔شہر کی فضائیں مانوس ہارنوں کے شور سے محروم گونگی نظر آتی ہیں ۔گلیاں لوگوں کے قدموں کی چاپ کو ترسنے لگیں ۔مشینوں کا پہیہ رک گیا اب صنعتیں دھواں اور زہر نہیں اگلتیں ۔کھیل کے میدان بچوں اور نوجوانوں کے بنا اجاڑ ہوگئے ۔لوگ ایک دوسرے سے دور اس انجانے خوف میں مبتلا کہ کہیں میرے ساتھ چلنے والا کسی وائرس کا شکار تو نہیں ۔ 

بازار بے رونق ہوگئے اب معیار زندگی کو اونچا کرنے کی اڑان تھم گئ ۔لوگ سوچنے لگے ایک دوسرے کے بارے میں،ان لوگوں کی یاد آئی جن کو مصروف زندگی میں کہیں پیچھے چھوڑ دیا تھا ۔ وقت کے گھوڑے کو لگام دی جو وقت کی تنگی پر شاکی تھے اب فراغت میں وقت نہ گزرنے پر شکوہ کناں ہیں ۔زندگی جو صرف پیسہ کمانے تک محدود تھی اب اپنے مقصد پر سوال اٹھانے لگی ہے۔ کتابوں کی گرد جھڑنے لگی ۔دوربسے لوگوں کے فون نمبرز ڈائل ہونے لگے ۔جانمازیں بچھنے لگیں تسبیح کے دانے انگلیوں کے گرد گھومنے لگے ۔دلوں کے فاصلے اب سماجی دوریوں میں ڈھل گئے ۔

میرے پڑوس کے انکل جو ہمیشہ گلی میں بچوں کے کرکٹ کھیلنے پر شور سے نالاں نظر آتے تھے۔ کل اپنی بالکونی میں کھڑے اس شور کو یاد کر کےکہہ رہے تھے ’’ اب میں ان بچوں کو کرکٹ کھیلنے اور شور مچانے پر کبھی نہ روکوں گا یہ شور مجھے زندگی کا پتا دیتاتھا اب تو لگتا ہے کہ جیسے ہر طرف موت کا سکوت ہے ۔اللہ جلد ان میدانوں کو آباد کرے‘‘۔ شاید ہم سب کم وبیش کچھ ایسا ہی سوچ رہے ہیں۔اب فضاؤں میں صرف موسم کے رنگ نظر آتے ہیں۔پرندوں کی اڑان اور چہکاروں کا شور سنائی دیتا ہے۔انہوں نے بھی انسانوں اور مشینوں کے بند ہونے پر اپنی پرواز نیچی کرلی ہے ۔ میرے ٹیرس پر رنگا رنگ پرندے رزق کی تلاش میں آنے لگے ۔اگرچہ دل اداس ہے ۔ آگے کیا ہوگا کا، خوف دل میں بکل مارے بیٹھا ہے۔

روزوشب طویل سے طویل ہوتے جارہے ہیں ۔ خود سے زیادہ اپنے گھر والوں کی فکر کھائے جارہی ہے ۔مایوسی اور اُمید ایک دوسرے سے جنگ میں مصروف ہیں۔روز بروز انسان نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا ہورہا ہے ،مگریقین ہے کہ ہر رات کے بعد دن طلوع ہوتا ہے اور ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ صبح دوبارہ روشن ضرور ہوگی۔راتیںدوبارہ جگمگائیںگی۔موسم دوبارہ مسکرائیں گے۔ ۔بہار پھر آئے گی ۔ ۔ شہر پھر بسیں گے ۔۔گلیاں دوبارہ انسانی قدموں سے آباد ہوں گی۔کیونکہ میرے کمرے کی کھڑکی میں اب بھی سرخ پھول کھلتے ہیں۔

تازہ ترین