سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں وومن پولیس اسٹیشن کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ کئی برس قبل وومن پولیس اسٹیشن کے قیام کا اعلان صرف کاغذوں کی حد تک محدود ہے۔ خواتین پر تشدد، ظلم و ستم کے واقعات کی روک تھام سمیت دیگر مسائل کا حل وومن پولیس اسٹیشن کے قیام میں مضمر ہے مگر حکومت سندھ اور پولیس کی جانب سے اس ضمن میں توجہ نہ دینا قابل افسوس ہے اور حکومت و پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بھی ہے۔ پاکستان میں نصف سے زائد آبادی خواتینپر مشتمل ہے مگر ہماری خواتین آج کے اس جدید دور میں بھی معاشرتی رسوم و رواج کی بیڑیوں میں جکڑی ہوئی ہیں۔ کبھی انہیں غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے تو کبھی گھریلو تشدد یا تیزاب پھینک کر جلا دیا جاتا ہے۔ کبھی خواتین کو اغواء کرکے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی فرسودہ رسومات کےتحت ازخود فیصلہ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ۔ بیشتر واقعات تو ایسے ہیں جورپورٹ ہی نہیں ہوتے ہیں۔ ر ظلم کا شکار ہونے والی خواتین خاموشی کے ساتھ خود پرہونے والےمظالم سہتی رہتی ہیں ۔
حکومت سندھ اور پولیس کی جانب سے خواتین پر ظلم و تشدد کے واقعات کی روک تھام اور ان کی زندگیوں کو محفوظ رکھنے کے لئے بلند و بانگ دعوے تو کئے جاتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں آج تک وومن پولیس اسٹیشن کا قیام عمل میں نہیں لایا جاسکا ہے۔ سندھ کے مختلف اضلاع سمیت پنجاب اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والی متعدد خواتین انصاف و تحفظ کے لئے حصول کے لئے سکھر پہنچتی ہیں تاہم وومن پولیس اسٹیشن نہ ہونے کے باعث انہیں یقینی تحفظ کی فراہمی میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ پولیس کی جانب سے خواتین کے تحفظ کے لئے’’ ون فائیو مددگار سینٹر ‘‘میں ایک سیل قائم کیا گیا ہے جو کہ دو کمروں پر مشتمل ہے۔ر اس میں بھی خواتین پولیس اہل کاروں کی تعداد کم ہے۔ وومن پولیس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ گھریلو جھگڑوں کو وومن سینٹر میں ہی نمٹادیا جائے اور باہمی رضامندی سے ان میں صلح کرادی جائے تاہم زیادہ تر خواتین ایسی ہوتی ہیں جو واپس اپنے شوہر یا گھر جانے کے بجائے دارالامان میں رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔
چند سال قبل سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے سکھر میں وومن پولیس اسٹیشن کے قیام کا اعلان کیا تھا۔اس حوالے سے یہ بات طے ہوئی تھی کہ وومن پولیس اسٹیشن سکھر میں ڈی ایس پی/اے ایس پی کی پرانی رہائش گاہ میں بنایا جائے گا۔ ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس برانچ (ڈی آئی بی) اور لائسنس برانچ بھی اسی کی چاردیواری میں قائم ہوگی ، یہ عمارت شہر کے وسط میں واقع ہے یہاں وومن پولیس اسٹیشن، ڈی آئی بی برانچ اور لائسنس برانچ بنائے جانے سے لوگوں کو ریلیف ملے گا۔ مگر افسوس کہ کئی برس گزرنے کے باوجود پولیس کی جانب سے سکھر میں وومن پولیس اسٹیشن قائم کئے جانے کے حوالے سے کسی بھی قسم کی کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
خواتین کے ساتھ ظلم و ستم کے واقعات کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے، تشدد وزیادتیوں اور نا انصافیوں کا شکار خواتین سکھر پریس کلب بھی پہنچتی ہیں اور وہاں اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کی روداد بیان کرتی ہیں۔ ان میں متعدد خواتین ضعیف العمر بھی ہوتی ہیں، جن کاکہنا ہوتا ہے کہ ان کے بھائیوں یا بیٹوں نے انہیں گھر سے نکال کر ان کی جگہ پر قبضہ کر لیا ہے جبکہ شوہر کے تشدد سے تنگ خواتین بھی پریس کلب آتی ہیں۔ پریس کلب آنے والی خواتین کی تعداد بھی ہر ماہ 40سے50 یا اس سے بھی زائد ہوتی ہے ، وہ شوہر، سسر، دیور،بھائی ، باپ یا کسی دیگر رشتے داروں کے تشدد ، جگہ پر قبضے ، گھر سے بے دخل کئے جانے کی شکایت کرتی ہیں۔
متعدد دیہی علاقوں کی خواتین ایسی بھی آتی ہیں جن کا کہنا ہوتا ہے کہ انہیں با اثر زمینداروں کی جانب سے مزدوری کی اجرت نہیں دی جاتی اور اجرت مانگنے پر انہیں تشدد کانشانہ بنایا جاتا ہے۔ وومن پولیس اسٹیشن کا قیام عمل میں لاکر خواتین پر ہونے والے مظالم اور زیادتیوں کی روک تھام کو یقینی بنایا جاسکتا ہے مگر نہ جانے کیوں پولیس حکام اور حکومت کی جانب سے اس اہم مسئلے کی جانب کسی بھی قسم کی کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ سندھ پولیس کی جانب سے خواتین کو تحفظ اور قانونی معاونت فراہم کرنے کے لئے مختلف اضلاع میں ویمن ہیلپ سینٹرز تو قائم کئے گئے ہیں لیکن ان کے وہ خاطر خواہ نتائج دکھائی نہیں دیتے جو کہ نظر آنے چاہیں۔
ملک میں خواتین پر تشدد کے حوالے سے قانون سازی بھی کی جاتی ہے اور سرکاری و غیر سرکاری تنظیمیں خواتین پر ہونے والے تشدد اور زیادتیوں کی روک تھام کے لئے کام کرنے کا دعویٰ بھی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس حوالے سے پولیس کے بعض بالا افسران کا کہنا ہے کہ خواتین پر ہونے والے ظلم و تشدد کے واقعات دنیا بھر میں رونما ہورہے ہیں، مگر مہذب معاشرے ،فرسودہ رسوم اور روایات کو ترک کرکے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے موثر اقدامات کررہے ہیں۔ ہمارے معاشرے کی صورت حال ایسی ہے کہ درس گاہیں، وہ ادارے جہاں خواتین ملازمت کرتی ہیں، پبلک مقامات سمیت دیگر میں خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ خواتین پر گھریلو تشدد اس کے علاوہ ہیں، کبھی شوہر بیوی پر تشدد کرتا ہے تو کبھی دیگر رشتہ دار خواتین پر تشدد کرتے ہیں۔
سنگ چٹی، کم عمری کی شادی، کاروکاری یا غیرت کے نام پر قتل سمیت دیگر فرسودہ رسومات کے تحت بھی خواتین پر ہی ظلم کےپہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ بیشتر واقعات میں خواتین اپنے شاتھ ہونے والے ظلم و تشدد اورہراسگی کے متعلق اہل خانہ کو بتانے سے گریز کرتی ہیں، کیونکہ اگر ایک ایسی لڑکی جو کالج یا یونیورسٹی جاتی ہے وہ جب اپنے بھائی کو یہ کہتی ہے کہ راستے میں مجھے لوگ چھیڑتے ہیں تو بھائی کا کہتا ہے کہ آپ کالج یا یونیورسٹی جانا چھوڑ دیں۔ تعلیم ادھوری رہنے کے خوف سے خواتین خاموش رہتی ہے۔
سکھر کے عوامی و سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت اور آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر کو سکھرسمیت سندھ کے دیگر اضلاع میں وومن پولیس اسٹیشن کا قیام عمل میں لانا چاہیے تاکہ خواتین پر ہونے والےمظالم، زیادتی یا کسی بھی قسم کی شکایات کے ازالے کے لئے وومن پولیس اسٹیشن سے رجوع کرسکیں۔