’’ پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی ‘‘ یہ وہ خوش کن نعرہ ہے جو محکمہ پولیس کی جانب سے عرصہ دراز سے لگایا جارہا ہے لیکن اس پر عمل بہت کم ہوتا ہے۔ سابقہ ادوار میں پولیس کی کارکردگی آج کے مقابلے میں خاصی بہتر تھی۔ جرائم کی شرح انتہائی کم تھی کیوں کہ افسران و اہل کار اپنے فرائض کی انجام دہی ایک قومی ذمہ داری سمجھ کر تے تھے۔ ۔ جرائم کی بیخ کنی اور جرائم پیشہ عناصر کے خاتمے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جاتے تھے۔ تاہم چند سالوں سے مختلف شہروں میں امن و امان کی صورت حال انتہائی دگرگوں ہے، اس کی وجہ محکمہ پولیس کی جرائم کی خاتمے میں عدم دل چسپی ہے۔ جہاں ہر جانب جھوٹےدعووں اور نام نہاد کارنامے عوام تک پہچانے کے لیے دروغ گوئی پر مبنی پریس بریفنگ کا رواج ہے،وہیں محکمہ پولیس بھی اس میدان میں پیچھے نہیں ہے۔
اس محکمہ میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی اور عہدوں پر منظور نظر افسران کے تقرر نے ایک جانب اس محکمہ کے افسران اس قدر بے خوف کردیا ہے کہ میڈیا کے موجودہ دور میں بھی وہ عوام کو خاطر میں لانا تو کجا ان کی زندگیوں سے کھیلنے کو بھی عار نہیں سمجھ رہے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف سندھ بلکہ پورے ملک کی ہے جہاں سیاست دان پولیس کی طاقت کے بل بوتے پر اپنی بادشاہی کو برقرار رکھنے میں کامیاب اور مخالفین کو ناکوں چنے چبواکر یا تو خاموش یا شہر خموشاں کا باسی بنا دیتے ہیں۔ محکمہ پولیس ہی وہ ریاستی قوت ہے جس کے ذریعہ اقتدار کو مضبوط اور اس کو دوام بخشا جاتا ہے۔
اس صورت حال کے تناظر میں اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ سندھ پولیس میں مرضی کے آئی جی کی تقرر ی اوراے ڈی خواجہ کو ہٹوانے کے لئے وزیر اعلیٰ سمیت پوری صوبائی کابینہ کیوںسرگرم تھی ؟۔ کلیم امام کی تقرری اور اس کے بعدبھی وفاق اور صوبائی حکومت کے درمیان سیاسی محاذ آرائی جاری رہی جو ان کے تبادلے پر ختم ہوئی۔ سندھ حکومت کی خواہش پر مشتاق مہر کی آئی جی سند ھ کی حیثیت سے تقرری عمل میں آئی لیکن پولیس کے افسران و اہل کاروں کے روئیے اور حالات میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر سندھ میں محکمہ پولیس میں قواعد وضوابط کے برخلاف کی جانے والی بھرتیوں کی چھان بین کے بعد گزشتہ ہفتے جن پندرہ سو پولیس اہلکاروں کو فارغ کیا گیا تھا ان کے بارے میں بتایا گیا کہ ان میں سے کئی افراد کا کریمنل ریکارڈ بھی موجود تھا۔ ان میں سے بیشتر کو جعلی میڈیکل فٹنس سرٹیفکیٹ کے ذریعہ بھرتی کیا گیا جنہیں عدالت عظمی کے احکامات پر برطرف کیا گیا۔ اس سلسلے میں یہ بھی شنید ہے پی پی حکومت کی ایک بااثر برادری سے تعلق رکھنے والے کئی ہزار افراد جو کہ مختلف محکموں میں بھرتی کئے گئے تھے، ان میں محکمہ پولیس میں سے نکالے گئے افراد کی تقرری بھی بتائی جاتی ہے۔ تاہم محکمہ پولیس سندھ میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی نے محکمہ پولیس کی کارکردگی کو اس حد تک زنگ آلود کردیا ہے کہ پولیس افسران خود کو صرف حکمران پارٹی کی خوش نودی تک محدود اور عوام سے لاتعلق ہوتے جارہے ہیں۔
ضلع شہید بے نظیر آباد جو کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا حلقہ انتخاب ہے اور وہ یہاں سےرکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں وہاں بھی پولیس گردی عام ہے۔ گزشتہ روز منشیات کے مقدمہ کا ایک قیدی جیل سے اسپتال منتقلی کے بعد دم توڑ گیا۔ اس کے لواحقین نے نعش قاضی احمد بائی پاس پر رکھ کر قومی شاہراہ پر ٹریفک معطل کردیا اور ڈنڈابردار مظاہرین نے گاڑیوں کو نقصان پہنچایا ۔
اس سلسلے میں متوفی مختار احمد زرداری کے بھائی عبدالوحید زرداری نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ مختار زرداری جونا موری بس اسٹاپ پر پکوڑے سموسے کا ٹھیلہ لگاتا تھا، اسے قاضی احمد پولیس نے ایک قتل کے سلسلے میں تفتیش کے لئے حراست میں لیا اور اس پر تشدد کیا۔ اس کے بعد اسے دولت پور پولیس کے حوالے کیا گیا جس نے اس کے قبضے سے پانچ کلو پچیس گرام چرس کی برآمدگی کا جھوٹا مقدمہ بنا کر اس کو عدالت کے حکم پر جیل کسٹڈی کردیا۔ تاہم عبدالوحید زرداری کے مطابق پولیس تشدد سے اس کی حالت خراب ہوگئی۔ تشویش ناک حالت ہونے کے باعث جیل حکام نے اسے پیپلز میڈیکل اسپتال پہنچایا جہاں وہ فوت ہوگیا ۔
بعد ازاں مختیارزرداری کے بھائی عبدالوحیدزرداری کی مدعیت میں قاضی احمد تھانے درج کرائی گئی ایف آئی آر میں ایس ایچ اوقاضی احمد حسین علی کھرل ،ایس ایچ او لاکھاٹ تھانہ داؤد رند ،اے ایس آئی عبداللطیف مبیجو اور ہیڈ کانسٹیبل پہلوان کنبھر کے خلاف مختیارزرداری پر تشدد اور قتل کرنے کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ پولیس اب تک اپنے پیٹی بھائیوں کی گرفتاری میں ناکام ہے۔
اس سلسلے میں ایس ایچ او حسین علی کھرل کے بارے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے قاضی احمد اور سکرنڈ میں بطور ایس ایچ او تعیناتی کے دوران پنجاب کی درگاہوں سے اغواء اور مختلف جرائم میں ملوث بااثر افرادکی گرفتاری میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان کی تعیناتی کے دوران منشیات فروشوں پر ان کے نام سے لرزہ طاری ہوجاتا تھا۔اچھی شہرت کے حامل پولیس افسر کے خلاف یہ الزام کیا حقیقت پر مبنی ہیں یا اس کی پشت پر سیاسی عزائم کارفرما ہیں؟ یہ سوال بھی نتہائی اہم ہے کہ مختار زرداری کو ہی قتل کی واردات میں کیوں شامل تفتیش کیا گیا جبکہ وہ سموسہ پکوڑا فروش تھا۔مختار ررداری کے ساتھ حراست میں لیا جانے والا عبدالغفار رند بھی تھااس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں گیا؟
باوثوق ذرائع کے مطابق متوفی مختار زرداری کی نعش کو گاؤں لے جاکر تدفین سے روکنے میں اس کی برادری کے وہ پولیس اہلکار بھی پیش پیش تھےجو کریمنل ریکارڈ کے باعث معزول ہوئے تھے۔ ڈی ایس پی سی آئی اے مبین پرھیار اور ایس ایچ او حسین علی کھرل کی جانب سے قاضی احمد کے گاؤں تریاٹ میں دیسی شراب کی فیکٹریوں پر چھاپے کے دوران ر فرار ہونے والے منشیات فروشوں کے دس گھروں کو مسمارکرنے والوں کے رشتہ دار بھی اس دھرنے میں پیش پیش نظر آئے۔
اس سلسلے میں ایس ایس پی نواب شاہ تنویر حسین تنیو نے جنگ کو بتایا کہ جیل کسٹڈی میںمختارر زرداری کی ہلاکت کی تحقیقات مجسٹریٹ کررہے ہیں جبکہ مقتول کے بھائی کی مدعیت میں دو ایس ایچ اوز سمیت چار پولیس اہلکاروں کوواقعہ قتل کے الزام پر انہیں عہدوں سے ہٹا دیا گیاہے ۔ واقعے کی اصل صورت حال چند روز بعد ہی واضح ہوسکے گی۔