• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

18 اگست کوکلفٹن کے ایک نجی اسپتال میں ملازم ،نوجوان لیڈی ڈاکٹر ماہا علی کی خودکشی کے واقعہ پاکستان میں جرم کی تاریخ کا سب سے پے چیدہ مسئلہ بن کر رہ گیا ہے ۔ ڈیفنس میں24 سالہ ڈاکٹر ماہا علی کی خودکشی کے واقعہ سے مختلف سوالات بھی جنم لے رہے ہیں۔ دوسری جانب چندر روز قبل ڈاکٹر ماہا علی کے والدآصف شاہ کی جانب سے کی گئی پریس کانفرنس کے بعد خودکشی کرنے والی ڈاکٹر ماہا علی کو گولی لگنے کے ابہام اور تضاد کو ختم کرنے کے لیے ایس ایس پی انویسٹی گیشن سائوتھ بشیر احمد بروہی نے متوفیہ کی قبر کشائی اور میت کا پوسٹ مارٹم کرا نے کا فیصلہ کیا ۔ 

اس سلسلے میں ڈاکٹر ماہا علی کی قبرکشائی کے لیے سیشن جج میر پور خاص کوخط بھی لکھاگیا لیکن سیشن جج میرپور خاص نے8 ستمبر کودرخواست مسترد کردی، اس سے قبل ایسی ہی ایک درخواست کراچی کی عدالت نے مسترد کی تھی ۔ایس ایس پی انویسٹی گیشن کا کہنا ہے کہ جائے وقوعہ کے معائنے سے شواہد ملےہیں کہ ڈاکٹر ماہا علی کو گولی سر میں دائیں جانب سے لگی تھی، جبکہ جناح اسپتال کے ایم ایل او ڈاکٹر حسان احمد کی جاری کردہ رپورٹ میں متوفیہ کو گولی سر پر بائیں جانب لگنے کی رپورٹ لکھی تھی ۔پولیس حکام کے مطابق متوفیہ کے والد نے اپنی پریس کانفرنس میں ایم ایل او اور ملزمان کی ملی بھگت کا الزام عائد کیا تھا۔ میڈیکل رپورٹ اور جائے وقوعہ کے شواہد میں تضاد نے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ میت کےدوبارہ پوسٹ مارٹم سے قانونی طور پر معاملہ کلیئر ہو جاتا لیکن عدالت کی طرف سے درخواست مسترد ہونے کے بعد مذکورہ معاملہ ابھی تک ایک معمہ بنا ہوا ہے۔

بچوں کے ساتھ زیادتی ویڈیو بنا کر بلیک میل کیا جاتا ہے
متوفیہ کے والد آصف شاہ

دوسری جانب ڈاکٹر ماہا خودکشی کیس میں جنید پر شکنجہ تنگ ہونے لگا ۔ باخبر ذرائع کے مطابق ڈاکٹر ماہا کا خودکشی سے چند روز قبل ایک وائس نوٹ بھی منظر عام پر آگیا،جو اس نے اپنی ایک دوست کو بھیجا تھا، جس میں لکھاگیا تھا کہ میں شدید ذہنی پریشانیوں کا شکار ہوں ، جنید نے میری زندگی عذاب کردی ہے۔مجھے سکون کے لیے خواب آور گولیاں کھانا پڑتی ہیں۔ میں ذہنی دبائو کے باعث مرگی کی مریضہ بھی بن گئی ہوں۔ جنید اکثر و بیشتر مجھ سے لڑتا رہتا ہے، میں اس سے کافی عرصہ قبل تعلقات منقطع کرچکی ہوں۔ واضح رہے کہ اس واقعے میں اب تک 2 مقدمات درج ہوئے ہیں ،جبکہ2 افراد کو گرفتار بھی کیا جاچکا ہے۔

گذری پولیس نے ماہا علی کے والد سید آصف علی شاہ کی مدعیت میں 3 ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر کے معروف ڈینٹسٹ ڈاکٹر عرفان قریشی کو گرفتارکیا تھا جس نے ضمانت کرالی ہےجبکہ ملزم جنید پہلے ہی ضمانت قبل از گرفتاری کرا چکا ہے۔ مقدمے میں نامزد ملزم جنید خان پر ماہا علی پر تشدد، زخمی کرنے اور دانت توڑنے کا الزام ہے۔ نامزد ملزم عرفان قریشی پر اپنے دفتر میں بلا کر ماہا کو نشہ کرانے اور بلیک میل کر کے فحش حرکات کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ماہا کے والدآصف شاہ کا کہنا ہے کہ میری بیٹی کو ایسے حالات کا شکار کیا گیا کہ وہ جان دینے پر مجبور ہوگئی ۔دوسری طرف ملزم جنید کے والد کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ماہا علی میری بیٹی کی طرح تھی، میرا بیٹا اور ماہا ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔میرے بیٹے جنید کو ڈاکٹر ماہا علی نے آخری میسج ’’آئی لو یو ٹو ‘‘کا کیا تھا۔

ڈاکٹر ماہا خودکشی کیس کے حوالے سے ایک سنسنی خیز انکشاف بھی سامنے آ یا ہے کہ ڈاکٹر ماہا ڈیوٹی ختم کر کے براہ راست گھر نہیں گئی ۔تفتیشی حکام کے مطابق ڈاکٹر ماہا علی کلفٹن کے نجی اسپتال سے ساڑھے 4 بجے چھٹی کرکے چلی گئی تھی اور اپنے گھررات ساڑھے 8 بجے پہنچی۔دوسری جانب متوفیہ کے قریبی دو ست اور نام زد ملزم جنید نے اپنے وکیل کے ہمراہ پیش ہو کر ایس پی انویسٹی گیشن اور تفتیشی ٹیم کو اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا۔ پویس نے متوفیہ ماہا علی شاہ کو پستول فراہم کرنے کے الزام میں2 ملزمان سعد نصیر اور تابش کو گرفتار کرلیا۔ سعد نصیر کا کہنا ہے کہ نائن ایم ایم پستول اس کی تھی جو ماہا کے دوست تابش قریشی نے مجھ سے لے کر ماہا کو د ی۔ماہا کے اہل خانہ کے مطابق ڈاکٹر ماہا جب ڈیوٹی ختم کر کے اسپتال سے واپس آئی تو کافی ڈیپریس تھی۔ 

ماہا بہن کے ساتھ کمرے میں لیٹی تھی والد آصف شاہ بھی آ کر اسی کمرے میں بیڈ پر لیٹ گئے۔ ڈاکٹر ماہا باتھ روم میں گئی، دروازہ بند کرکے شاور چلا دیا، باتھ روم میں دیوار کے ساتھ بیٹھ کر کنپٹی پر نائن ایم ایم پستول سے خود کوگولی ماری۔ گولی سر سے پار ہو کر دیوار میں پیوست ہو گئی ۔گولی کی آواز سن کر والد بھاگے اور شور مچایا۔ بیٹی کے ساتھ مل کر باتھ روم کا دروازہ توڑا۔باتھ روم میں چلتے شاور کے نیچے ماہا خون میں لت پت پڑی تھی اور سر کموڈ پر تھا۔ والد نے مددگار 15 پولیس کو فون کیا۔ قریبی عزیز ہ ڈاکٹر زہرہ کو فون کرکے بلوایا اور ڈاکٹر ماہا علی شاہ کو اسپتال منتقل کیا گیا،لیکن وہ جان بر نہ ہوسکی ۔ 

اس کے والد کے مطابق میری بیٹی ماہا علی شاہ شدید ڈپریشن کا شکار تھی، خود کو مارنے کی باتیں کرتی تھی ڈاکٹر ماہا علی نے خودکشی کیوں کی، مشتبہ کرداروں کے خلاف تفتیش جاری ہے۔ ماہا علی نے جس پستول سے خودکشی کی تھی اس کےاصل مالک سعد نصیر نے پولیس سے رابطہ کر کے اپنا بیان قلمبند کرایا کہ میں ڈیفنس کا رہائشی اور شادی شدہ ہوں اور پستول کے حوالے سے اہم معلومات فراہم کیں جن کے مطابق اس نے یہ پستول 2010 میں بشیر خان ٹریڈنگ کمپنی سے خریدا تھا۔پولیس نے سعد نصیر کی تلاش بھی شروع کردی ہے۔ پولیس کے مطابق اسلحہ بیرون ملک سے بلوچستان آیا تھا۔

دوسری جانب ڈاکٹر ماہا علی شاہ کے والد آصف شاہ نے اپنے گھر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر ماہا کے قتل کوکئی ہفتے ہوگئے ہیں،اس بات کی بھی تصدیق ہوگئی ہے کہ ماہا نے خودکشی کی تھی۔ اس کی موت کے حوالے سے میڈیا پر جو بھی خبریں نشر ہوتی رہیں وہ سب بے بنیاد تھیں۔ماہا کی موت کے بعد سب سے پہلے مجھے وقاص نامی لڑکا ملا ،جو ہم سے پہلے پہنچا ہوا تھا ، میں نے وقاص سے پوچھا تم کون ہو تو اس نے کہاں میں ماہا کے ساتھ ہوتا تھا میں ٹیکنیشن ہوں۔پھر ایک دوسرا لڑکا ملا، پھرجنید سے ملاقات ہوئی جس نے بتایا کہ وہ ماہا کی دوست مہوش کا دوست ہے ۔جنید اور وقاص نے مل کر بہت بڑا گیم کیا۔

جنید اور اسلم کا الزام ہے کہ اس کا باپ ظالم تھا۔میں نے اپنی بیٹی کو سخت محنت کرکے تعلیم دلائی ۔ڈاکٹر ماہا کا واٹس ایپ ابھی میرے سامنےآیا کہ بابا اپنا بہت خیال رکھنا ۔آصف شاہ کے مطابق ان دونوں لڑکوں نے ماہا کو ہراساں کیا کہ اگر ہمارا کہنا نہ مانا تو ہم تمہارے گھر والوں کو نقصان پہنچائیں گے۔ڈاکٹر ماہا نے اپنی ایک دوست کو واٹس اپ پر رو روکر اپنا حال بتایا۔جنید نے میری بیٹی کو بلیک میل کیا اور اس پر بہت تشدد کیا، میری بیٹی ماہا نے اپنا تمام احوال اپنی دوست کو بتایا۔ ابھی تک ملزم جنید گرفتار نہیں ہوا چند دنوں بعد میں اس راز سے بھی پردہ اٹھاؤں گا کہ جنید کو گرفتار کیوں نہیں کیا جا رہا ۔جنید اگرماہا سے شادی کا خواہش مند تھا تو اس نے ہمارے گھر ماہا کا رشتہ کیوںنہیں بھیجا ، یہ سب ان کی من گھڑت باتیں ہیں اور میں ثبوت کے ساتھ یہاںہوں ۔ہو سکتا ہےآئندہ دنوں مجھے بھی دھمکیاں ملنے لگیں۔

دوسری طرف ڈ اکٹر ماہاخودکشی کیس میں نامزد ملزم جنید کی جانب سے جوابی پریس کانفرنس میں نئے انکشافات کے بعد معا ملہ نیا رخ اختیار کر گیا۔ ملزم نے میڈیا کو بتایا کہ ڈاکٹر ماہا کے اپنے والد آصف شاہ سے تعلقات اچھے نہیں تھے اور دونوں باپ بیٹی کا جائیداد پر تنازع بھی چل رہا تھا۔ متوفیہ کے والد آصف شاہ نے مجھ پر الزامات عائد کیے اور میرے آڈیو پیغامات چلائے گئے۔ ملزم جنید نے بتایا کہ ڈاکٹر ماہا سے میری ملاقات 2016 ء میں ہوئی اور یہ دوستی اس کی موت تک رہی۔ 19 جولائی کو میری سالگرہ پر اس نے کارڈ بھی بناکر دیا۔

اگر میں ماہا پر تشدد کرتا تو وہ مجھے محبت بھرے پیغام نہ بھیجتی۔جنید کے مطابق ڈاکٹر ماہا کے والد روحانی پیشوا ہیں، کورونا کے آغاز پر ماہا کے والد اسے زبردستی میرپورخاص لے گئے۔ آصف شاہ نے ایک 20 سالہ لڑکی کے لئے ماہا کی والدہ کو چھوڑا تو ماہا سے ان کا جھگڑا ہوگیاتھا۔ماہا اور اس کے والد کا آخری تنازع جولائی 2020ء میں کھڑا ہوا، ماہا کی ماں کے نام پر جو جائیداد تھی اسے آصف شاہ نے فروخت کردیا تھا، ماہا کے والد نے 23 جولائی کو پیغام دیا کہ ماہا کو خاندانی جھگڑوں کا حصہ نہ بنایا جائے اس لئے اس نے ماہا اور ان کی ماں کو کرائے کے گھر منتقل کردیا۔ 18 اگست کو رات ساڑھے دس بجے ماہا کے بھائی نے کال کرکے بتایا کہ ماہا نے خود کو گولی مارلی ہے، میں اسپتال پہنچا اور باہر کھڑا رہا۔

ماہا کی مبینہ خودکشی کے بعداس کےوالد نے پولیس کو ماہا کا فون دینے سے انکار کردیا۔جنید نے بتایاکہ ماہا نے خودکشی نہیں کی،جب کہ اس کے خیال میں یہ قتل کاواقعہ ہے، ماہا کے کیس کی جے آئی ٹی تشکیل دی جائے۔ مجھ پر لڑکیوں کو منشیات کا عادی بنانے کا الزام ہے جب کہ یہ الزامات آج تک ثابت نہیں کیے جاسکے۔ یہ کیس کیا رخ اختیار کرتا ہے یہ تو پولیس کی تفتیش کے بعد ہی معلوم ہوسکے گا لیکن لوگ شش و پنج کا شکار ہیں کہ کیا ماہا کو قتل کیا گیا ہے یا اس نےخودکشی کی تھی؟

تازہ ترین
تازہ ترین