دولت کی ہوس لوگوں کو انسانیت کی سطح سےگرا کر درندہ بنا دیتی ہے اور وہ ناجائز ذرائع سے پیسے حاصل کرنے کی ہوس میں کسی کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اس طرح کی داستانیں معاشرے میں ہر جگہ سننے کو ملتی ہیں۔ ہوس کے پجاریوں کی بربریت کا مظاہرہ چند روز قبل نواز شاہ کالونی میں دیکھنے میں آیا۔تین بہنوں کا اکلوتا بھائی اور والدین کا لاڈلا بیٹا قاسم رضا جو گیارہویں جماعت کا طالب علم تھا، کالج سے گھر واپس آکر تھوڑی دیر بعد ہی گھر سے یہ کہہ کر باہر گیا کہ’’ میں ابھی آتا ہوں،‘‘ لیکن اس کے گھر والے دوبارہ اس کی صورت نہیں دیکھ سکے۔
قاسم کے والد رضا قائم خانی زمیں دار ہیں اور علاقے میں سماجی کاموں کے حوالے سے معروف ہیں ۔ بیٹے کی گم شدگی کےبعد انہوں نے جنگ کو بتایاکہ ان کے سترہ سالہ بیٹے، قاسم رضا قائم خانی کی زیادہ دوستیاں نہیں تھیں۔ گلی میں بھی اس کے چند دوست تھے، اس کی گم شدگی کے بعد پولیس کے علاوہ ہم نے بھی اسے ہر جگہ تلاش کیا لیکن اس کا کہیں بھی سراغ نہیں ملا جب کہ پولیس کے لئے قاسم کی گم شدگی ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ رضا قائم خانی کے مطابق ، قاسم رضا کی تلاش کے دوران کچھ لوگوں سے معلوم ہوا کہ گم شدگی والے روز انہوں نے اسےایک شخص محبوب الٰہی کے ہمراہ کار میں قاضی احمد موڑ پر دیکھا تھا،یہ بات ہم نے پولیس کو بتائی، اس نے اپنی تفتیش کا رخ محبوب الٰہی کی جانب موڑدیا۔
اس دوران رضا قائم خانی کی مڈبھیڑقاضی احمد موڑ کے قریب محبوب الہی سے ہوئی جس سے انہوں نے اپنے بیٹے کے بارے میں معلوم کیا۔ اس نے جواب میں کہا کہ اگر آپ اپنے بیٹے کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو موہنی بازار میں کسی معتبر شخص کے ہمراہ مجھ سے مل لیں ۔اس کے یہ الفاظ اس کیس کا ڈراپ سین ثابت ہوئے۔ رضا قائم خانی نے بتایا کہ انہوں نے یہ اطلاع ایس ایس پی تنویر حسین تنیو کو دی۔
انہوں نے اس کیس کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی پولیس کے سینئر افسران کی دور کنی تفتیشی ٹیم جو کہ ایس ایچ او ثناء اللہ پہنور اور ایس ایچ او اقبال وسان پر مشتمل تھی، انہیں محبوب الہی کو شامل تفتیش کرنے کی ہدایت کی۔ ایس ایس پی تنویر حسین تنیو کے مطابق یہ ایک بلائنڈ کیس تھاجو پولیس کے لیے چیلنج بن گیا تھا۔ اگر دیانت داری سے انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کراپنے فرائض انجام دیئے جائیں تو اللہ ہر حال میں مدد کرتا ہے۔ایسا ہی قاسم رضا کیس میں بھی ہوا۔
ایس ایس پی تنویر تنیو کے مطابق، محبوب الہی کو جب پولیس نے تحویل میں لیا تو اس نے تفتیشی ٹیم کو بتایا کہ قاسم سے اس کی ملاقات چند ماہ قبل موہنی بازار میں ایک دوست کے پاس ہوئی تھی۔ جب اسے قاسم کے مالی حالات اور اس کے باپ کی حیثیت کا علم ہوا تواس نے اپنے والد کرم الٰہی، بھائی منظور الٰہی اوروالدہ نسیم اختر کے ساتھ مل کر قاسم کو اغوا کرکے تاوان کی وصولی کا منصوبہ بنایا۔اس مقصد کے تحت انہوں نے فون کرکے قاسم رضا کو قاضی احمد موڑ کے بازار میں بلایا ۔ اس کی موٹر سائیکل وہاں کھڑی کرکے قاسم رضا کو کار میں بٹھایااوربہانے سے اپنے گھر لےگیا ۔وہاں اس کو باتوں میں لگایا، اس دوران اس کو چائے میں نشہ آور دوا پلانے کے بعدبے ہوش کرکے اسے یرغمال بنا لیا۔
ہمارا منصوبہ قاسم کے والد سےبیٹے کی زندگی بچانے کے لیےبھاری تاوان وصول کرنا تھا۔ محبوب الٰہی کے بیان کے مطابق ،نوجوان قاسم پر نشہ آور دوا کازیادہ اثر نہیںہواتھا وراس پر صرف غنودگی کی کیفیت طاری ہوئی تھی جس کا ہمیں علم نہیں ہوسکا۔ہم نے آپس میںاپنے منصوبے کے بارے میں جو گفتگو کی وہ اس نے نیم بے ہوشی کی حالت میں سن لی تھی۔ میرے سامنے آنے پر اس نے آنکھیں کھول کر وہاں سے جانے پر اصرارکیا اور میری خاموشی پر اس نے جارحانہ رویہ اختیار کیا۔ یہ صورت حال محبوب الٰہی اور اس کے اہل خانہ کے لیے انتہائی تشویش ناک تھی۔
گلی میں ہمارے گھر کے سامنے ایک مکان کی تعمیر ہورہی تھی جس میں آٹھ دس مزدور کام کررہے تھے ۔ قاسم رضا کی مزاحمت بڑھتی جارہی اورہمیں خدشہ تھا کہ اس کے شور شرابے سے اگر مزدوروں کو قاسم رضا کے بارے میںپتہ چل گیا تو وہ پولیس کو خبر کریں گے اور ہمارے سارے خاندان کو اغواء برائے تاوان کے جرم میں سزا بھگتنا پڑے گی۔ ہم نے اس خطرے سے بچنے کے لیے قاسم کی جان لینے کا فیصلہ کیا اور اس کے سر پر بھاری چیز سے زور داروار کیا جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔محبوب لٰہی کے بیان کے مطابق اس کے اور اس کے گھر والوں کے لیے اگلا مرحلہ اس کی لاش ٹھکانے لگانے کا تھا۔گلی میںمزدوروں کی موجودگی کے باعث یہ کام بھی ناممکن تھا۔ ہم نے اسے گھر کے صحن میں گڑھا کھود کردفن کرنا چاہا لیکن قاسم کا قد لمبا ہونے کی وجہ سےگڑھا چھوٹا پڑگیا۔
دوسری جانب یہ خدشہ بھی بڑھتا جارہا تھا کہ قاسم کی تلاش میں پولیس اور اس کے رشتہ دار سرگرداں تھے،اگر کوئی شخص اس طرف آگیا تو لاش کی موجودگی کا پتہ چل جائے گا۔ ہم نے اس کی لاش کے ٹکڑے کئے اور اس کو اسی گڑھے میں دفن کردیا۔ قاسم کی موٹر سائیکل جو موہنی بازار میں کھڑی کی گئی تھی، اسے ایئر پورٹ روڈ پر جھاڑیوں میں پھینک دیا۔ اس کا موبائل فون اور پرس روہڑی کینال میں پھینک دیاگیا، جبکہ پولیس چھاپے کے دوران ٹوپی،انگوٹھی اور گھڑی اس کی ماں نسیم اخترنے پولیس کے حوالے کردی۔ پولیس نے مقدمہ درج کرکے ملزمان کے بیانات کی روشنی میں تفتیش مکمل کرکے عدالت میں چالان پیش کیا جہاں ایڈیشنل سیشن اینڈ فرسٹ ماڈل کورٹ کے جج آصف مجید قریشی نے کیس کی سماعت کی ۔ مقتول کے مقدمہ کی پیروی نعیم منگی ایڈووکیٹ نے کی۔
قتل کا جرم ثابت ہونے پر عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے محبوب الہی قریشی کو سزائے موت اور دو لاکھ روپیہ جرمانہ جبکہ جرم چھپانے پر مزید سات سال قید اور پچاس ہزار روپیہ جرمانے کی سزا سنائی اور جرم میں معاونت پر ملزم کے بھائی منظور الہی ،والد کرم الہی اور والدہ نسیم اختر کو سات سات سال قید اور پچاس ، پچاس ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا سنائی ۔ فیصلے کے بعد مجرمان کو جیل حکام کےحوالے کردیا گیا۔