اسلام آباد(نیوز ایجنسیاں، ٹی وی رپورٹ) سپریم کورٹ کے حکم پر سانحہ آرمی پبلک اسکول کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ جاری کردی گئی جس میں اس سانحے کو سیکورٹی کی ناکامی قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں کے حملے کی دھمکیوں سے متعلق نیکٹا نے وارننگ جاری کر رکھی تھی، سکیورٹی گارڈز کی تعداد کم تعیناتی بھی درست نہ تھی، انتہاپسندوں کومدد ملنا ناقابل معافی جرم ہے، گارڈز مزاحمت کرتے تو اتنا جانی نقصان نہ ہوتا، اپنا خون ہی غداری کرجائے تو نتائج سنگین ہوتے ہیں، سانحہ اے پی ایس نے ضرب عضب کی کامیابی کو غدار کر دیا۔
کمیشن رپورٹ میں عسکری حکام کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ واقعے کے بعد برگیڈئیر سمیت 15 ؍افسر اور جوانوں کیخلاف محکمانہ کورروائی ہوئی، میجر اور 4؍اہلکار برطرف کئے گئے تاہم کارروائی غفلت یا ملوث ہونے پر نہیں فوج کا روایتی معیاربرقراررکھنے کیلئے کی گئی۔
رپورٹ کمیشن کے سربراہ جسٹس محمد ابراہیم خان نے مرتب کی ہے جو 525 صفحات اور 4 حصوں پر مشتمل ہے۔ رپورٹ کے متن میں کہا گیا کہ ہمارا ملک دہشت گردی کیخلاف جنگ میں برسرپیکار رہا اور سال 14-2013 میں ملک میں دہشت گردی اپنے عروج پر پہنچی، اسکے باوجود ہماری حساس تنصیبات یا سافٹ ٹارگٹس پر ہونے والے حملوں کا جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ہماری شمال مغربی سرحد بہت غیر محفوظ ہے جہاں سے حکومتوں کے مابین اور بین الاقوامی سمجھوتوں کے تحت مہاجرین کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ ان حقائق کے باوجود انتہا پسند عناصر کو مقامی آبادی کی طرف سے مدد فراہم کیے جانا ناقابلِ معافی جرم ہے، جب اپنا ہی خون دغا دے تو ایسے ہی تباہ کن سانحات رونما ہوتے ہیں۔
ایسے عناصر کی وجہ سے نہ صرف محدود وسائل میں کیے گئے سکیورٹی انتظامات ناکام ہوتے ہیں بلکہ دشمن کو اپنے ناپاک عزائم پورے کرنے میں مدد ملتی ہے۔اس تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی ایجنسی افرادی قوت، انفرا اسٹرکچر اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے کتنے ہی وسائل کیوں نہ رکھتی ہو ایسے واقعات روکنے میں ناکام ہو جاتی ہے جب اندر سے ہی مدد فراہم کی گئی ہو۔سانحہ آرمی پبلک کیسے رونما ہوا۔
اس حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ سیکورٹی کے 3 دائرے تھے جن میں گیٹ پر موجود گارڈز، احاطے میں ایم وی ٹیز کا گشت اور وارسک میں قائم آرمی پبلک اسکول سے 10 منٹ کے فاصلے پر کوئیک رسپانس فورس موجود تھی، ایک ایم وی ٹی اس دھویں کی جانب متوجہ ہوگئی جو دہشت گردوں کی جانب سے منصوبے کے تحت ایک گاڑی کو آگ لگانے کی وجہ سے اٹھا۔
صرف اس ایک اقدام کے نتیجے میں دہشت گرد پیچھے سے اسکول میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے جہاں ایم وی ٹی کا گشت ہونا تھا۔حالانکہ ایم وی ٹی کے دوسرے دستے نے ریسپانس کیا لیکن وہ اتنا وقت نہیں بچا سکا کہ کوئیک ریسپانس فورس اور ریپڈ ریسپانس فورس پہنچ کر دہشت گردوں کے حملے کو تباہ کن ہونے سے روک پاتے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ حملے سے متعلق نیکٹا نے مسلح افواج کے تحت چلنے والے تمام تعلیمی اداروں کیلئے عمومی وارننگ جاری کر رکھی تھی کہ دہشت گرد اپنے خلاف کامیابی سے جاری آپریشنز بالخصوص ضرب عضب اور خیبر-1 کا بدلہ لینے کیلئے خاص کر آرمی خاندانوں کو نشانہ بناسکتے ہیں۔
جوڈیشل رپورٹ میں کہا گیا کہ اگرچہ پاک فوج ضربِ عضب میں کامیاب رہی لیکن سانحہ اے پی ایس نے اس کامیابی کو داغدار کردیا۔اس واقعے نے ہمارے سیکورٹی نظام پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، پہلے دائرے میں سکیورٹی پر تعینات اہلکار خطرے کے پیش نظر نہ صرف آنے والے حملہ آوروں کو روکنے کیلئے ناکافی تھے بلکہ ان کی پوزیشن بھی درست نہیں تھی۔
رپورٹ کے مطابق سکیورٹی کی تمام توجہ مرکزی گیٹ پر تھی جبکہ اسکول کے پچھلے حصے پر کوئی خاص سیکورٹی نہیں تھی جہاں سے دہشت گرد بغیر کسی مزاحمت کے اسکول میں داخل ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایم وی ٹی 2 اور کوئیک ریسپانس فورس کے آنے تک دہشت گردوں کی جانب سے ابتدائی طور پر کی گئی شدید فائرنگ اور دھماکوں کے مقابلے عسکری گارڈز اور ساتھ ہی تعینات سٹیٹک گارڈز کی صلاحیت ناکافی تھی۔اگر وہ تھوڑا ریسپانس دیتے اور عسکریت پسندوں کو ابتدا میں ہی روکنے کی کوشش کرتے تو اس واقعے سے ہونے والے تباہی شاید کم ہوتی۔