• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس کے ساتھ جینے کیلئے حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل ناگزیر ہے؟

کورونا وائرس سے متعلق مکمل اور جامع معلومات دستیاب نہیں لہٰذا دُنیا بھر میں مختلف شعبہ جات میں بنیادی صحت اور حفظانِ صحت کے اقدامات کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کے بعد عالمی ادارۂ صحت نے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایات جاری کیں تاکہ کورونا وائرس کی تیز ترین منتقلی روکی جاسکے۔

چین کے صوبے ووہان سے پھیلنے والے کورونا وائرس پر تاحال قابو نہیں پایا جاسکا کہ اب بھی کئی مُمالک اس عالمی وبا کی زد میں ہیں۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اس وقت 7.5بلین افراد کسی نہ کسی طرح اس وائرس سے متاثر ہوچُکے ہیں جبکہ اموات کی تعداد 0.7 ملین سے تجاوز کرچُکی ہے۔

پوری دُنیا میں لگ بھگ 22 ملین افراد اب بھی کورونا وائرس  سے متاثر ہیں، یہ کہنا بجا ہوگا کہ کورونا وائرس نے نہایت مختصر عرصے میں دُنیا پر دو دھاری تلوار کی مانند حملہ کیا یعنی ایک ہی وقت میں انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ معاشی بحران کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

تاہم، ان تباہ کاریوں کے ساتھ اس وبا نے نئی عالمی تشکیل کے حوالے سے ہمیں کئی اہم سبق بھی سکھائے کیونکہ آنے والے وقت میں صحت اور حفظانِ صحت کے ضمن میں کورونا وائرس پوری دُنیا کا منظر نامہ یک سر تبدیل کرنے والا عنصر ثابت ہوگا۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق 289,000 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں 6,190 اموات بھی شامل ہیں۔ عمومی طور پر احتیاطی تدابیر پر عمل تحفّظ کا احساس دیتا ہے۔

اِسی لیے شہریوں نےوبائی ایّام میں ریستوران، شاپنگ مالز، تھیٹرز، تفریحی پارکس، ورزش گاہیں اور سماجی روابط کے دیگر مقامات پر سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے ساتھ ماسک اور سینیٹائزر کا استعمال کیا۔

پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز پر مکمل طور پر قابو پانے کے لیے صاف پانی، نکاسی آب کے موزوں نظام اورحفظانِ صحت اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کا شمار دُنیا کے اُن 10 ممالک میں کیا جاتا ہے، جہاں عوام کی بڑی تعداد کی صاف پانی تک رسائی نہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق ڈبلیو اے ایس ایچ (واش) کی ناکافی سہولتیں صحت کے خطرناک مسائل کا باعث بنتی ہیں لہٰذا صاف پانی اور نکاسیٔ آب کے اداروں پر ذمّے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ عوام النّاس کی صحت کی حفاظت کے لیے ان بنیادی ضروریات تک رسائی ہر صُورت ممکن بنائیں۔

پاکستان میں تو تعلیمی اداروں کو بھی سہولتیں میسّر نہیں، خاص طور پر پینے کے پانی کے حوالے سے صُورتِ حال کافی ابتر ہے۔ اس کے علاوہ بیش تر سرکاری اسکولز کے بیت الخلا صابن اور پانی تک سے محروم ہیں۔ 

2008ء سے 2013 ء کے دوران اسکولز میں پانی کی فراہمی 67 فیصد سے کم ہو کر 63 فیصد تک رہ گئی جبکہ نکاسیٔ آب کی سہولتوں میں بہتری کا سلسلہ بھی 63 فیصد پر آکر رُک گیا۔

اس حالیہ بحران کے دوران حکومت کی جانب سے ٹیلی اسکولز جیسے اہم اقدام کیے گئے تاکہ تعلیمی سلسلے میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ تاہم، اب وقت آگیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی وزارتِ تعلیم سرکاری اسکولز میں واش سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے سرمایہ وقف کریں۔

قومی، وفاقی اور ضلعی حکومتیں شہریوں کے تحفّظ کی ذمّے دار ہیں، تاہم اس سے کہیں بڑی ذمّے داری عوام النّاس پر عائد ہوتی ہے کہ وہ خود بھی حفظانِ صحت کے اصول اپنائیں۔

مثلاً سماجی فاصلہ برقرار رکھا جائے، کھانستے، چھینکتے ہوئے منہ پر رومال یاکپڑا رکھیں، ماسک پہنیں(خواہ موسمی نزلہ ہو)، نزلہ زکام اور بخار کی صُورت میں اجتماعات میں شرکت سے اجتناب برتیں  تاکہ انسانی صحت کے اس دشمن وائرس کو پنپنے کا موقع نہ مل سکے۔

تازہ ترین