پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اور وزیرِخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم کا نہ جھنڈا ایک ہے، نہ لیڈر ایک ہے، نہ ہی منشور و نظریہ ایک ہے۔
ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ لوگوں کی رائے میں پی ڈی ایم وقتی اور منفی اتحاد ہے، اپوزیشن کو اپنے کیے کا خوف ہے، ان کے کیسز منطقی انجام کے قریب پہنچ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ کے ایک کھلاڑی نے کہا کہ دسمبر سے پہلے حکومت کو رخصت کر دیں گے ، نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے پانچ پانچ سال پورے کیئے، نظام رخصت ہونے سے اپوزیشن کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا، اگر آپ آئے تو چل پائیں گے؟ کوئی چلنے دے گا؟ اپوزیشن اپنی خواہشات اور سازش سے حکومت کو رخصت نہیں کر سکتی، عوام سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن کا اتحاد وقتی ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ گوجرانوالہ جلسہ ختم ہونے سے پہلے لوگوں نے قلعی کھول دی، عوام گوجرانوالہ کے پی ڈی ایم کے جلسے سے لا تعلق رہے، یہ جلسہ معمول کا تھا، اس جلسے میں سمندر امڈ آیا کے دعوے کے شیرازے بکھر گئے، لوگ حکومت کی 2 سالہ کارکردگی کو مہنگائی کا ذمے د ار نہیں ٹھہراتے۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے پاس جادو کی چھڑی نہیں کہ مسائل حل کر سکے، مسائل حل کر سکتے ہوتے تو اپوزیشن کو ماضی میں موقع ملا تھا، لوگ سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن کا غیر فطری اتحاد ہے، مختلف الخیال لوگ اپنے کیے کے خوف سے ایک ہو گئے ہیں، اپوزیشن کو اپنے کیسوں کے منطقی انجام کے قریب پہنچنے کا خوف ہے۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ اسٹیج پر بہت سے پلیئرز کو اپنا سیاسی مستقبل تاریک دکھائی دے رہاہے، جن پرانے کھلاڑیوں کی وکٹ گری وہ اپوزیشن کے اسٹیج پر دکھائی دیئے،اپوزیشن کو تحریکِ انصاف اور عمران خان کا خوف ہے ، وقت نے ثابت کیا کہ عمران خان نے محنت اور نظریے پر گراس روٹ پارٹی بنائی۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی 12 سال سے سندھ میں حکومت میں ہے، بلاول کہتے ہیں کہ تیر کمان سے نکل گیا، سندھ میں تیر لوگوں کے سینوں میں پیوست ہو گیا ہے، بھٹو کے نام پر کتنی بار ووٹ لو گے، کتنی بار وہی فلم چلاؤ گے ، اسٹیج سے وزیرِ اعظم نواز شریف کے نعرے لگتے ہیں تو پی پی کا کارکن لاتعلق دکھائی دیتا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اپوزیشن کو اپنا سیاسی مستقبل تاریک دکھائی دے رہاہے، بلاول تقریر کے لیے کھڑے ہوئے تو ن کے سپورٹرز آپس میں گفتگو کرتے رہے ، مولانا فضل الرحمٰن نے خالی اسٹیڈیم میں مکمل خطاب کیا، اپوزیشن کے جلسے میں کوئی ربط نظر نہیں آیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمیں جلسے کو ناکام کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوئی، کوئی سازش نہیں تھی،ہم نے اپوزیشن کو جلسے کے لیے فری ہینڈ دیا، صرف ہمدردی حاصل کرنے اور ناکامی کی پیش بندی کے لیےاپوزیشن نے گرفتاری کا مؤقف اپنایا، آپ کی کوئی سازش پاکستان کے عوام پوری نہیں ہونے دیں گے۔
وزیرِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی خواہش پر منتخب حکومت جانے والی نہیں، اسے عوام کا مینڈیٹ حاصل ہے، بلاول سے کہنا چاہتا ہوں کہ بیٹا! بھارت کے بیانیے کے حصے دار نہ بنیں، بلاول نے میرا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سعودیہ سے تعلقات میں گرمجوشی نہیں رہی، سعودیہ سے تاریخی تعلقات کا پورا تحفظ کرتے ہیں، میرا تعلق تو عرب کے قریش قبیلے سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ کہا گیا کہ سی پیک پر لوگوں کو تجسس ہے، سی پیک کا منصوبہ جاری ہے اور رہے گا، اس پر قومی اتفاقِ رائے رہے گا، کچھ قوتوں کو سی پیک چبھتا ہے، پی ٹی آئی حکومت میں اس منصوبے پر کام بڑھا ہے، سی پیک اپنی منزل تک پہنچے گا، سی پیک کے دوسرے مرحلے کا افتتاح بھی ہو چکا ہے۔
شاہ محمودقریشی کا کہنا ہے کہ کچھ قوتوں کا ایجنڈا اداروں کو نیچا دکھانا ہے، افواجِ پاکستان کا قیام امن میں کلیدی کردار ہے، آپ جتنا ورغلا لیں آپ کو ناکامی ہو گی، اداروں کو سیاست میں گھسیٹنا کسی کے مفاد میں نہیں ہے، عدلیہ سے متعلق دہرا معیار ٹھیک نہیں ہے، اگر رینجرز نہ ہو تو آپ امن و امان پر قابونہیں پا سکتے، افواجِ پاکستان نے بیرونی قوتوں کے آگے بند باندھا ہے، افواجِ پاکستان نے بہت سی قوتوں کے آگے بند باندھا ہے، دہشت گردی کو شکست نہ دی ہوتی تو آپ آزادانہ جلسے نہ کر رہے ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی سے باہر آ کر مستقبل میں دیکھنا ہو گا، آپ اپنے مقاصد کے لیے نہ قومی اداروں کو نقصان پہنچائیں نہ جمہوریت کو، پارلیمنٹ میں، ٹاک شو میں آپ تنقید کریں ، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کا آپ کھوج لگا سکے، نہ انہیں سزا دلوا سکے۔
وزیرِ خارجہ نے مزید کہا کہ حکومت عدالت کے سامنے حقائق رکھ رہی ہے، بظاہر نواز شریف صحت یاب دکھائی دیتے ہیں، اسپتال نہیں جاتے، ٹریٹمنٹ نہیں جاری تو مطلب ہے قوم سے ناٹک رچایا گیا ہے، اپوزیشن ماضی کی روایات پر گامزن ہے، عوام ساتھ نہیں دیں گے۔
انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستانی قوم متحد ہے، چینی معاملے پر نئی قانون سازی کی گئی، شوگر ملز نے اتفاق کیا کہ 10 نومبر سے کرشنگ شروع کر دیں گی، چینی کی قیمت میں استحکام کے لیے درآمد کی جا رہی ہے۔