ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں سفارتخانہ پاکستان کے زیراہتمام ویبینار کے مقررین نے مطالبہ کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں روکی جائیں اور مسئلہ کشمیر کا پرامن اور منصفانہ حل تلاش کیا جائے۔
ویبینار کے دوران نظامت کے فرائض نارویجین پاکستانی مصنف اور سابق رکن نارویجین پارلیمنٹ خالد محمود نے انجام دیے۔
ناروے میں پاکستان کے سفیر ظہیر پرویز خان، انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد کے ڈی جی اعزاز احمد چوہدری، جنوبی ایشاء کے بارے میں تحقیقی ادارے "ساسی" کی سربراہ ڈاکٹر ماریہ سلطان، سابق رکن نارویجین پارلیمنٹ لارش رایسے اور پیس اور کلچر آرگنائزیشن کی چیئرپرسن مشال ملک نے بھی خطاب کیا۔
سفیر پاکستان ظہیر پرویز خان نے کہا کہ کئی دہائیوں کے دوران پاکستان کئی بار مذاکرات کی کوشش کرچکا ہے لیکن اب تک بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اب تو نریندرا مودی کی متعصبانہ پالیسی کی وجہ سے مذاکرات کا عمل بند ہے اور پانچ اگست 2019 کے بعد مقبوضہ کشمیر کی صورتحال بہت خراب ہوچکی ہے۔
ناروے کے بارے میں انہوں نے امید ظاہر کی کہ ناروے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں رکوانے اور مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا۔
اعزاز احمد چوہدری نے کہا کہ بھارت نہ صرف کشمیریوں پر ظلم کررہا ہے بلکہ مودی حکومت کے امتیازی رویے کی وجہ سے دنیا بھر میں بھارت کا متعصبانہ چہرہ بے نقاب ہورہا ہے۔ خاص طور پر اقلیتوں کے خلاف ظلم و زیادتی اور شہری حقوق کے متعلق متنازعہ قانون کے آنے کے بعد مودی حکومت کا تعصب کھل کر سامنے آیا ہے۔ خطے میں پاکستان کے علاوہ چین، بنگلادیش اور نیپال کے ساتھ بھی بھارت کا تعصب آشکار ہوچکا ہے۔
ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ بھارت نے جموں و کشمیر کی ریاست کے دیرینہ قوانین اور اس ریاست کی الگ شناخت ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ جموں و کشمیر میں ہر سرکاری ملازم پر لازمی قرار دیا جارہا ہے کہ وہ بھارتی ریاست کے ساتھ اپنی وفاداری ثابت کرے۔
بھارت کی شہریت کے نئے قانون کے تحت بھارت میں رہنے والے لوگوں سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنی شہریت تب برقرار رکھ سکتے ہیں جب وہ اپنی سکونت کے بارہ سال قبل کے ثبوت پیش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت جمہوری قدریں پامال کررہا ہے اور انسانی حقوق کو بری طرح مسخ کررہا ہے۔
لارش ریسے جو سابق رکن نارویجین پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ میں کشمیر کمیٹی کے سابق سربراہ ہیں، نے کہا کہ ناروے میں اس سے قبل کشمیر کے حوالے سے کوششیں ہوئی ہیں اور مزید مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ اب تک ہونے والی کوششوں کے حوالے سے انہوں نے کشمیر اسکینڈے نیوین کونسل اور اس کے سربراہ علی شاہنواز خان کا ذکر کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے لیکن بھارت اس کو اپنا اندرونی معاملہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ مسلم اور غیر مسلم کا مسئلہ نہیں، نہ ہی یہ علاقائی تنازعہ ہے بلکہ کشمیر ایک حل طلب بین الاقوامی مسئلہ ہے۔
اس سے قبل سفارتخانہ پاکستان میں 27 اکتوبر یوم سیاہ کے موقع پر ایک کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں متعدد دانشوروں، اساتذہ اور معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی۔
کانفرنس سے سفیر پاکستان ظہیر پرویز خان، سفارتخانہ کی قونصلر زیب طیب عباسی، کمیونٹی ویلفیئر اتاشی خالد محمود، مسجد مرکزی جماعت اہلسنت کے امام مولانا نعمت علی شاہ، اسلامک کلچرل سینٹر کے سابق امام ڈاکٹر حامد فاروق، یو این اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن ناروے کی صدر حریم نگار ملک اور دیگرشخصیات نے خطاب کیا۔
ظہیر پرویز خان نے کہا کہ بھارت مظلوم کشمیریوں پر ظلم کررہا ہے۔ ہمیں زمینی حقائق کو دنیا کے سامنے لانا ہوگا۔ ناروے انسانی حقوق اور امن کا علمبردار ہے، اس لیے ناروے سے توقع کرتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا۔ ہم ناروے کی حکومت کو کشمیر کے حالات سے آگاہ کرتے رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کشمیریوں کی غیرمشروط سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔
دیگر مقررین نے بھی زور دے کر کہا کہ کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر دیرینہ حل طلب مسئلہ ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ جموں و کشمیر کے سیاسی مستقبل کے تعین کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں رائے شماری کرائی جائے۔