وزیرِ اعظم عمران خان نے چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کے لیے توانائی کے پیکیج کا اعلان کر دیا جس کے مطابق یکم نومبر سے صنعتوں کو زائد بجلی پر 50 فیصد رعایت ملے گی، صنعتوں کو 24 گھنٹے آف پیک آور ملیں گے۔
وزیرِ اعظم عمران خان کا وفاقی وزراء کے ہمراہ بریفنگ دیتے ہوئے کہنا ہے کہ رعایتی پیکیج سے ملک میں صنعتی ترقی میں اضافہ ہو گا۔
انہوں نے کہا ک بدقسمتی سے بجلی کے مہنگے کنٹریکٹ کیئے گئے، صنعتی شعبےکے لیے پیکیج تیار کیا ہے، مہنگی بجلی کی وجہ سے صنعتوں کو مشکل کا سامنا ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ دنیا نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کورونا وائرس کی وباء سے سب سے تیزی سے نکلا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے پیکیج سے برآمدات بڑھیں گی، چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کو یکم نومبر سے 30 جون تک اضافی بل پر 50 فیصد کم ریٹ پر بجلی ملے گی۔
وزیرِ اعظم نے بتایا کہ چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو بجلی کے کم ریٹ 30 جون 2021ء تک ملیں گے، تمام صنعتوں کو اضافی بجلی پر آئندہ 3 سال تک 25 فیصد کم ریٹ پر بجلی ملے گی۔
اس موقع پر وفاقی وزیرِ صنعت و پیداوار حماد اظہرنے کہا کہ تمام صنعتوں کے لیے پیک آورز ختم کر دیا گیا ہے، اب 24 گھنٹے آف پیک آور ہو گا، پیک آور میں 7 سے 11 بجے تک بجلی کی کھپت پر 25 فیصد نرخ بڑھ جاتے تھے۔
وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ ہر وہ فیصلہ کرنا ہے جس سے معیشت کی رفتار تیز کی جا سکتی ہے، مربوط اصلاحات کا پیکیج بنایا گیا ہے، توانائی سیکٹر میں بڑے فیصلے کیئے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہر وہ کام کرناہے کہ عوام کا روزگار متاثر نہ ہو، ہم چاہتے ہیں کہ صنعتوں کا پہیہ 24 گھنٹے چلے، امریکی بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کی طرح کورونا وائرس کی وباء کا مقابلہ کیا ہوتا تو 10 کھرب کے نقصان سے بچ جاتے۔
وفاقی وزیرِ تونائی عمرایوب نے کہا کہ راستہ ابھی بھی کٹھن ہے لیکن ہم درست سمت میں ہیں، ہماری 70 فیصد بجلی درآمد شدہ فیول سے بن رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ شمسی توانائی اور دیگر ذرائع سے 18 ہزار میگاواٹ بجلی کا ہدف حاصل کریں گے، 70 سے 80 فیصد توانائی اپنے قومی وسائل سے حاصل کریں گے۔
عمر ایوب کا یہ بھی کہنا ہے کہ بجلی بیچنے والے اور خریدار ادارے بھی زیادہ ہوں گے اس سے بھی بہتری آئے گی، ملک کے کسی بھی کونے میں موجود بجلی پروڈیوسر کسی بھی جگہ پر اپنے خریدار کو بجلی پہنچا سکے گا۔
وزیرِ اعظم کے مشیر برائے خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت کی پالیسی کا محور عوام اور ان کے روزگار کے مواقع ہیں، سارے سال میں حکومت نے اسٹیٹ بینک سے ایک ٹکا بھی قرض نہیں لیا۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ کے علاوہ کوئی سپلیمنٹری بجٹ نہیں دیا، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ صفر کیا گیا، سخت فیصلوں کے بعد یہ فیصلہ بھی کیا کہ پیسے عوام پر خرچ کرنے ہیں۔