وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کچھ اور مضبوط ہو گئے۔ ایک قد آورشخصیت ان کی کیبنٹ میں شامل ہو گئی۔ فردوس عاشق اعوان ا س سے پہلے دو مرتبہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات ، ایک مرتبہ وفاقی وزیر پاپولیشن ویلفیئر اورایک مرتبہ کیبنٹ کی پارلیمانی سیکرٹری رہ چکی ہیں۔
اب مجھے یقین ہے کہ عثمان بزدار کے خلاف جو پچھلے ڈیڑھ سال تک طوفان ہرزہ سرائی برپا رہا اور پچھلے چھ ماہ سے کچھ مدہم ہے۔ اب یقیناً اپنے اختتام کو پہنچ جائےگا۔فردوس عاشق اعوان کی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ لگا کر ایک نہایت Bold فیصلہ کیاتھاجس کی بنیاد محروم طبقات کی نمائندگی تھی۔ وزیر اعلیٰ کی کرسی پر پسماندہ جنوبی پنجاب سے لا کر کسی کو بٹھانا کوئی آسان کام نہ تھا، عمران خان نے کر دکھایا اورعثمان بزدار بھی ان کے بھروسے پر پورا اترے۔وہ لوگ جو کل تک کہتے تھے.
عمران خان مردم شناس نہیں۔ اب ان کا کیا خیال ہے ؟ اب اگر 2023 میں عمران خان کی حکومت دوبارہ آئی، تو عثمان بزدار صرف جنوبی پنجاب کی نمائندگی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی کارکردگی کے سبب دوبارہ وزیر اعلیٰ بنیں گے۔
یہ جو اپوزیشن جماعتیں ایک ساتھ مشن پر نکلی ہیں، ایک تو ان کی سمت درست نہیں اور دوسرا انہوں نے آتے آتے بہت دیر کردی۔
2018 کے آخر یا 2019 کے آغاز میں کچھ کرتے تو حکومت کو کوئی خطرہ بھی ہوتا، کیونکہ اس وقت تک لئے جانے والے Corrective Measures کا ثمر ملنا ممکن نہیں تھا، پنجاب میں جو منصوبے اگست 2018 سے شروع ہوئے اُن کو ظاہر ہونے کیلئے کم از کم ایک سال تو چاہئےتھا۔یقیناً اس وقت پنجاب حکومت کی کارکردگی کا دفاع مشکل تھا۔
اب تو26 مہینےگزرچکے ہیں۔ عثمان بزدارنے اپنی سیاسی بصیرت سے نہ صرف اپنے ناقدین کو اپنے ساتھ کھڑا کیاہے بلکہ اپوزیشن پر بھی دروازے کھول دئیےہیں۔ گزشتہ دنوں لیگی ایم پی اے اظہر عباس چانڈیا وزیر اعلیٰ کے پاس ملاقات کیلئے آئے اور ان پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ اب اگر کسی Hard
-core نون لیگی سے بھی پوچھ لیں تو وہ پنجاب حکومت سے کسی شکایت کا اظہار نہیں کرتا۔ کرےبھی کیسے؟ لوگوں کی سمجھ میں آ چکا ہے کہ اب نون لیگ کا جھنڈا اٹھا کر حلقے میں جاناممکن نہیں۔ اوپر سےوزیر اعلیٰ نے یہ روش بھی ختم کردی ہے کہ اپوزیشن کے حلقوں میں ترقیاتی کام روکے جائیں یا فنڈز ہولڈ کئےجائیں۔ سبھی کام ہو رہے ہیں۔
عثمان بزدار سے اس وقت بیوروکریسی بھی خوش ہے اور عوام میں بھی پسندیدگی بڑھتی نظر آرہی ہے۔اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ بیوروکریسی اب کسی خاندان کی غلام نہیں رہی، ان کو اب بے جا سرزنش کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور نہ وزیر اعلیٰ کو خوش کرنے کیلئے کوئی غیر اصولی کام سرانجام دینا ہوتا ہے۔ بیوروکریسی 10 سال بعد آزاد ہوئی ہے اور اب خوف سے نہیں بلکہ لگن سے کام کرتی نظر آرہی ہے۔ اس سب کے پیچھے پنجاب میں ہوئی شفلنگ نے بھی اہم کردار ادا کیاہے۔
یہاں سیکرٹریز ذاتی پسند و ناپسندکی وجہ سے نہیں بلکہ اہلیت اور متعلقہ شعبہ میں ان کی قابلیت کے پیشِ نظر لگائے گئے ہیں۔
دوسری جانب اگر عوامی بہبود کے منصوبوں کی بات کی جائے تو پنجاب میں پہلی مرتبہ ایسے منصوبوں کی بنیاد رکھی گئی جس کی پولیٹکل اونرشپ آج سے پہلے زیرو رہی، سابق حکمرانوں نے ایسے منصوبوں کیلئے نہ کوئی حکمت عملی تشکیل دی اور نہ کسی قسم کی کوئی پیش رفت ہوئی۔
پنجاب میں 13 فیصد آبادی میں آج بھی کھلے میں رفع حاجت کا رجحان ہے جس کی وجہ سے بچے کئی طرح کی بیماریوں کا شکار ہو جاتےہیں۔ وزیر اعلیٰ کی ہدایات پر ایسے اضلاع کی نشاندہی کے بعد 1775 دیہات میں اوپن ڈیفکیشن فری پروجیکٹ کا آغاز کیا گیا ہے جس کے تحت 2 لاکھ گھرانوں میں لیٹرین بنائے جارہے ہیں۔
اسپتال،ا سکول، کالج، یونیورسٹیاں بنانا جہاں موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے اور جس پر پیش رفت کا ذکر میں پچھلے کالم میں بھی کرچکا ہوں، وہاں قیادت کی جانب سے ان سوفٹ ریفارمز کیلئے Political Will نہایت حوصلہ افزا اور خوش آئند عمل ہے۔
سینی ٹیشن کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کیلئے ویلیج واش کمیٹیز متحرک ہیں جس سے تقریباً 51 لاکھ لوگوں کا رجحان صفائی اور سینی ٹیشن کی طرف لانے میں مدد ملی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے صوبے بھر میں جو ریونیو عوامی خدمت کچہریوں کا آغاز کیا ہے،وہ سائلین کیلئے بہت بڑا ریلیف ثابت ہوا ہے۔
یہاں ریونیو سے متعلقہ عملہ صبح 10 بجے سے دوپہر 3 بجے تک موجود رہتا ہے اور عوام کے مسائل موقع پر ہی حل کئے جاتے ہیں۔ یہاں فرد کے اجرا سے لیکر انتقال کے اندراج، انکم سرٹیفکیٹ، ڈومیسائل کے اجرا سمیت دیگر خدمات ایک چھت تلے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اس Exercise کا ایک اور بھی فائدہ ہے اور وہ یہ کہ ایسے میں انتظامیہ بھی اور بیوروکریسی بھی خود کو عوام کے آگے جوابدہ محسوس کرتی ہے۔
تاہم اگر یونہی عثمان بزدارخود کو اور بیوروکریسی کو حقیقی معنوں میں عوام کا خدمت گزار سمجھتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب پنجاب ماڈل صوبہ بن کر ابھرے گا۔فردوس عاشق اعوان کے آنے سے میڈیا کے معاملات بھی بہت بہتر ہوجائیں گے۔
پنجاب حکومت کی کارکردگی، جو پہلے عوام تک بھرپور اندازمیں نہیں پہنچتی تھی، اب کھل کر سامنے آئے گی۔ میں امید کرتا ہوں کہ وہ میڈیا کےلئے اشتہارات کی تمام بندشیں ختم کرانے میں کامیاب ہونگی۔
میڈیا بزنسز تیزی سےترقی کریں گے۔ گزشتہ دو سال میں اس صنعت کو جو ضعف پہنچا ہے۔ اس کا بھی تدارک ہوگا۔