میں پاکستان میں بغاوتاً اردو بولتی ہوں نیو یارک میں اس لیے اردو بول رہی ہوں کہ اگر لاہور نیویارک سر کےبل چل کر آتا ہے تو کم ازکم اردو تو سر اٹھاکر کھڑی ہوسکے۔
میں ممنون ہوں جو موضوع چنا گیا اور اس موضوع پر بات کرنے کے لیے دس منٹ ہیں ، اس میں دس منٹ بہت خطرناک ہوتےہیں لیکن خیال کی زندگی کے لیے دس منٹ صدیاں ہوتی ہیں اور منٹو کے لیے دس منٹ ہزاروں صدیاں ہیں۔ اس لیے کہ وہ، وہ شخص ہے کہ جس کی بات کو کہنے کے لیے لوگ صفحے کالے کردیں وہ دو لفظوں میں کہہ کر بات کو ختم کردیتا ۔
اس نے اپنی کہانی کے لیے خود کہہ دیا کہ کہانی تو خدا لکھتا ہے منٹو صرف آخری فقرہ لکھتا ہے۔ یہ دراصل اشارہ ہے کہ جہاں سیاست زندگی کے بخیے ادھیڑتی ہے وہاں ادب انسانیت کے تعلق کے لیے ٹانکا لگاتا ہے۔
اس تعلق کے ٹانکے کے لیے کوئی وقت ہے نہ دورانیہ نہ لمبائی، نہ اونچائی،نہ چوڑائی اس کی ایک تاثیر، ایک حس ہوتی ہے وہ آپ کے دل کو مٹھی میں لے لے تو صدیاں منٹوں میں بیت سکتی ہیں،اور اگر وہ آپ کی مٹھی کو خالی چھوڑ دے تو پھرصدیوں کا سفر بھی بے کار جاتا ہے۔ منٹو کے ساتھ چلنے والا کوئی قدم بے کار نہیں اٹھا سکتا وہ مار ڈالے گا، اس لیے مار ڈالے گا کہ وہ انتہائی حساس اورانتہائی ذہین افسانہ نگار ہے۔ میں اس کو دنیا کے بڑے افسانہ نگاروں میں بلاخوف شریک کرتی ہوں۔
اس نے کمال یہ کیا ہے کہ ایک معاشرے کا گھناؤنا پن، معاشرے کی منافقت، دوغلے پن کو اس نے آئینہ دکھایا۔ہم اپنی مسخ شدہ صورت دیکھنے کو تیار نہیں ہوتے۔ خود پر غصہ نہیں کیا سارا عتاب منٹو پر نکال دیا ۔ عریاں نگاری کرتا ہے، فحاشی کرتا ہے کیا لطف کی بات ہے کہ عریاں معاشرہ ہوجائے فحاش معاشرہ ہوجائے لیکن ذمہ دار صرف لکھنے والا ٹھہرے گا۔ یہ ہمیں اچھا گر آتا ہے کہ ہم اپنے گناہوں کا بوجھ ہمیشہ کسی معصوم کے دامن ڈال دیتے ہیں۔ میں منٹو کو انتہائی معصوم شخص سمجھتی ہوں۔ ہم نے اسے یہ کہہ کر رد کردیا کہ اس کے افسانے غیر اخلاقی ہیں۔ ہم نے یہ تسلیم نہیں کیا کہ معاشرہ غیر اخلاقی تھا اور وہ اس غیر اخلاقی معاشرے کی صرف تصویر کھینچ رہاتھا۔
یہاں کہاگیا کہ یہ زنانہ مجلس ہے آپ کو معلوم ہے کہ اس زنانہ مجلس میں اردو ادب کے دوبڑے طاقت ور مرد موجود ہیں ایک کا نام غالب اور دوسرے کا نام منٹو ، مگر میں انہیں عورتوں اور مردوں کے خانے میں تقسیم نہیں کرتی۔خدا کی تخلیق میں سب سے بڑی چیز انسان ہے وہ عورت بھی ہوسکتی ہے اور مرد بھی۔
کیا ضروری ہے کہ اس کے لیے بھی کہیں سے صنف کا ٹانکا ڈھونڈ کر لائیں۔
منٹو پرہم نے حملے کیے، یورش کی، خفا ہوئے، منٹو پر الزام لگایا کہ تم گندے ہو تم بری باتیں کرتے ہو۔ قراۃ العین حیدر نے افسانہ لکھنا شروع کیا تو انہوں نے کہا،’’ کانونٹ میں جانے والی لڑکی پوم ،پوم ڈرالنگ عصمت چغتائی کے ہاں انتہائی زبردست جرات تھی کہ وہ پورے معاشرے کو للکار سکیں۔ تو ان کو قراۃ العین حیدر نے ’’ اردو افسانے کی چنگیز خاں‘‘ کہا۔ منٹو کے لیے کیا کہیں گے جو ایک حساس دل رکھتا تھا جو اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ انسان نے اپنے ضمیر کو جس طرح مسخ کیا ہے، اس کی ایک مسخ شدہ تصویر دکھادی جائے۔
منٹو کے افسانے معاشرے کی دورخی کو ظاہر کرتے ہیں اور وہ خفا ہم سے اس لیے ہے کہ اسے یہ پسند نہیں کہ جو آنکھ کے سامنے ہو اس سے انکار کردیا جائے وہ حالات انکار کا منکر ہے اور حالات اقرار کا پیغمبر،جو حالات انکار کا منکر ہو جویہ سکھاتا ہوکہ تسلیم کرلو ان باتوں کو مان لو-، اس لیے کہ بہتری کی صورت اسی صورت میں پیدا ہوتی ہے جب ہم اپنی کمزوری کو تسلیم کرلیتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں ترقی کے دعوے دار ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں، اگر کمزوری کو تسلیم کرلیا توہم پسپا ہوجائیں گے۔ خود پر نظر رکھنا سب سے مشکل کام ہے۔
میرے نزدیک جنوبی ایشیا ایک مشترکہ تاریخ ہے، مشترکہ تہذیبی ورثہ ہے۔ وہ تہذیبی ورثہ ،جس پرناز کیا جائے۔ جہاں کبیر کی آواز بھی گونجتی ہے، جہاں خسرو کے گیت بھی گنگناتے ہیں، جہاں نظام الدین اولیا ءؒ کہتے ہیں ’’ تم کوئی بھی ہو اس کے ہو تو ہمارے بھی ہو‘‘۔جہاں اپنانے کا یہ عالم ،ہو اس میں ہم لکیریں کھینچتے ہیں ہم نے ایک نئی تہذیب ایجاد کی ہے جو پل بنانا منع کرتی ہے، دیواریں کھڑی کرنا جائز سمجھتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اصل طاقت ور معاشرہ اسی طرح ہوگا۔
منٹو تو انسان کو انسان کے قریب لانا چاہتا تھا جو فاصلہ انسان نے پیدا کیا، کبھی مذہب کے نام پر، کبھی سیاست کے نام پرکبھی ؟؟ کے نام پر، اگر کبھی ہم اکھٹے نہیں ہوئے تو محبت کے نام پر،یہ احساس کہ ہم نے کبھی ایک دوسرے کو انسان سمجھ کرنہیں جانا۔ منٹو کو شکایت اس بات کی تھی کہ جن لوگوں کی بے بسی کو کچھ لوگوں کے تکبر نےخریدا اور اپنے نفس کی پرورش بنایا ان کی روح گندی ہے بدن گندے نہیں ہوئے۔ معاشرہ اس لیے خفا ہوگیا کہ اس نے روح کے زخم دکھا دئیے۔
منٹو کوزخمی بدن تو گوارہ ہیں،زخمی روح گوارہ نہیں، وہ صرف ایک بات چاہتا کہ کسی صورت سے یہ احساس ہوسکے کہ انسانی تہذیب کی بنیاد صرف چند لفظوں، عادتوں پر نہیں ہوتی، ان قدروں پر ہوتی ہے جو تہذیب میں ڈھلتی ہیں تو رویہ بن جاتی ہیں اور جب وہ تہذیب رویہ بن جائیں توزندگی شائستگی کی شکل اختیار کرلیتی ہے ہم جس معاشرے میں زندہ ہیں وہ یہ کہتا ہے کہ شائستہ ہونا تو کمزور ہونا ہے۔ جس قدر آوازسخت ہو ، لہجہ کرخت ہو ، الفاظ ناروا ہوں تو اس قدر ہم اچھے ہیں۔ اور وہی منٹو اپنے افسانوں میں دہراتا ہے توہم کہتے ہیں کہ یہ کیا بے ہودہ زبان لکھتا ہے ۔کوئی ان سے پوچھ لے کہ وہ کون سی زبان بول رہے ہیں۔ایک بے حس معاشرہ منٹو کو اچھا نہیں جان سکتا۔
منٹو ایک حساس لکھنے والا تھا اور وہ زخموں پر نہ مذہب کی ، نہ سیاست کی،نہ دوغلے پن اور نہ منافقت کی ریشمی چادر چڑھاتا ہے۔ وہ اس چادر کو کھینچتا ہے کہ یہ زخم تمہارے ہیں ان کا مداوا بھی تم ہی کروگے۔