شیخ عقیل احمد
سانیٹ غنائی شاعری کی ایک ایسی ہیئت کو کہتے ہیں، جس میں مصرعوں کی تعداد چودہ ہوتی ہیں اور جس کی بحر و قافیہ کی ترتیب ایک خاص نظام کے تحت ہوتی ہے۔اس کے بندوں کی تعداد اور قافیے کی ترتیب مختلف ہوتی ہے۔اردو سانیٹ میں انگریزی سانیٹ کی طرح کوئی ایک بحر مخصوص نہیں ہوتی ہے۔اردو شاعروں نے سانیٹ میں بہت سی بحروں کا استعمال کیا ہے۔
بعض شعرا کے مجموعہ کلام صرف سانیٹ پر ہی مشتمل ہے۔ ان شعرا کے علاوہ احمد ندیم قاسمی،اختر ہوشیار پوری،طفیل ہوشیار پوری،تابش صدیقی،منوہر لالہادی اور سلام مچھلی شہری وغیرہ نے بھی اس کی ہیئت میں تجربے کیے ہیں۔
مئی ۱۹۰۱میں حسرت موہانی کی نظم ’’بر بطِ سلمیٰ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی تھی، جس میں سانیٹ اور اسٹنزا کی تکنیک کا اثر ہے۔اس نظم کو سانیٹ نما نظم کہا جا سکتا ہے۔ویسے سانیٹ اردو میں سب سے پہلے اختر جونا گڑھی نے لکھا تھاجس کا عنوان ہے ’’شہرِ خموشاں‘‘ یہ سانیٹ ۱۹۱۴ء میں شائع ہوا تھا۔اس کے چند مصرعے ملاحظہ کریں:۔
کیا ہی یہ شہرِ خموشاں دل شکن نظارہ ہے
کتنی عبرت خیز ہے اس کی یہ پر غم خامشی
ایک حسرت سی برستی ہے دمِ نظارگی
دیکھ کر جس کو دلِ مضطر بھی پارہ پارہ ہے
سانیٹ کے بعد اردو شاعری میں سب سے زیادہ آزاد نظم کی ہیئت میں تجربے کیے گئے۔آزاد نظم دراصل انگریزی کے فری ورس کا اردو ترجمہ ہے۔ فری ورس کی کوئی معین ہیئت نہیں ہوتی اور اس کا آہنگ بھی متنوّع ہوتا ہے۔اس کا آہنگ جذبہ و خیال کے اتار چڑھاؤ سے تشکیل پاتا ہے۔فری ورس کی اکائی رکن یا مصرع ہونے کے بجائے اسٹرافی ہوتا ہے، جس میں تمام مصرعے ایک دوسرے سے پیوست ہو تے ہیں۔
چوں کہ آزاد نظم میں آہنگ کی بنیاد لہجے کی تاکیدوں پر رکھی جاتی ہے، اس لیے نہ صرف مصرعے چھوٹے بڑے ہوتے ہیں بلکہ مختلف بحروں کے امتزاج سے بھی تعمیر ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو محض نثری ترتیب سے قائم ہوتے ہیں۔ اردو آزاد نظم میں مصرعے جذبہ و خیال کے نشیب و فراز کے ہم قدم تو ہوتے ہیں لیکن اس میں کسی ایک مخصوص بحر کی پابندی لازمی ہوتی ہے،اس میں مصرعوں کی ترتیب پابند نظموں کی طر ح متعین ارکان پر نہیں ہوتی۔ان کا انحصار جذبہ و خیال کے ایک جزو کی تکمیل پر ہوتا ہےاور مصرعوں کے ارکان گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں۔
اردو میں تصدق حسین خالد نے سب سے پہلے آزاد نظم لکھی۔ویسے عبدالحلیم شرر کے منظوم ڈراموں میں آزاد نظم کا اولین نقش نظر آتا ہے۔ عظمت اﷲ خاں نے شیلی کی نظم ’’کلا و ڈ ‘‘ کے چند مصرعوں کا منظوم ترجمہ کیا ،اس کی تکنیک اور ہیئت آزاد نظم کی تکنیک اور ہیئت سے کافی ملتی ہے۔جذبہ اور خیال کے بہاؤ اور دباؤ سے مصرعوں کی لمبائی بھی یکساں نہیں ہے۔اس نظم کے مصرعے ملاحظہ ہوں :
ہاں ہاں میں ہوں لاڈلا بیٹا سندر پر تھی اور پانی کا
امبر نے ہے گود میں پالا
میں گزرا ہوں مساموں میں سے، ساحل کے اور سمندر کے
روپ بدلتا پر نہیں مر تا
تصدق حسین خالد کے بعد ن م راشد، میرا جی، محمد دین تاثیر، حفیظ ہوشیار پوری، مجید امجد، یوسف ظفر، علی جواد زیدی وغیرہ آزاد نظموں کی طرف متوجہ ہوئے۔ آزاد نظم کی ہیئت کو معیار و وقار عطا کرنے میں ن م راشد اور میراجی کا ہاتھ ہے۔ ن م راشد کی پہلی آزاد نظم ’’جرعاتِ پرواز ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔اس نظم نے اس دور کے تمام ادیبوں اورشاعروں کو اپنی طرف کھینچ لیا تھالیکن بعض نقادوں کے مطابق ن م راشد کی پہلی آزاد نظم ’’اتفاقات‘‘ تھی جو ۱۹۳۵ءمیں شائع ہوئی تھی۔
حفیظ ہوشیار پوری کی نظم ’’بے وفائی ‘‘ ۱۹۳۴میں شائع ہوئی جو بائرن کی نظم کا منظوم ترجمہ ہے۔اس نظم کے چند مصرعے ملاحظہ ہوں :
شکستہ دل
خموش آنکھوں میں آنسو
ہوئے اس طرح برسوں کے لیے ہم
جدا
کمہلا گئے تھے
فرطِ غم سےترے گلہائے عارض
لمس جن کا
رواں کرتا تھا ہر افسردگی
رگ و پے میں
کھلی اب یہ حقیقت
غمِ انجام کا اک آئینہ تھا
جدائی کا وہ لمحہ
آزاد نظم کا آغاز ۱۹۰۱ء میں عبد ا لحلیم شرر اور عظمت اﷲ خاں کے ہاتھوں ہوا۔ان کے کامیاب تجربوں کے بعد آزاد نظم لکھنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے آزاد نظم اردو شاعری میں اظہار کا ایک مقبول و مشہور وسیلہ بن گیا۔
انگریزی شاعری کے زیرِ اثر اردو میں جدید تصورِ نظم آیا، جس کے تحت اردو میں مختصر نظمیں رائج ہوئیں۔ مختصر نظم قطعہ اور رباعی سے مختلف ہوتی ہے۔۱۹۲۲ء سے ۱۹۴۷ء تک مختصر نظم کو صرف مختصرہونے کی وجہ سے مختصر نظم کہی جاتی تھی لیکن ۱۹۴۷ء کے بعد اسے اردو شاعری کی نئی ہیئت قرار دے دی گئی۔مختصر نظم میں جذبہ کا ارتکاز اور بیان کے ایجاز کا ہونا ضروری ہے۔
مختصر نظم کا اولین نمونہ سجاد حیدر یلدرم کی نظم ’’شملہ کالکہ ریلوے اسٹیشن پر ایک نظارہ ‘‘ ہے جو ۱۹۲۶ء میں شائع ہوئی تھی۔اس کے بعد مخمور جالندھری، خورشید الا سلام کے مجموعہ کلام شائع ہوئے اورس طرح یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہا۔دوسری زبانوں کے ادب سے جتنی بھی ہیئتیں اردو ادب میں آئی ہیں ان کو من وعن نہیں اختیار کیا گیا بلکہ کچھ تبدیلیوں کے بعد اسے اپنایا گیا۔نثری نظم بھی ایسی ہی ایک ہیئت ہے ،جسے کافی بحث و مباحث کے بعد تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اردو شاعری میں اپنا لیا گیا اور اسے نثری نظم کا نام دیا گیا۔
نثری نظم دراصل انگریزی کے پروز پوئم کا ترجمہ ہے ،جسے کچھ ناقدین ادب نے ’’ادب لطیف ‘‘ یا ’’نثرِ لطیف‘‘ کہتے ہیں۔نثری نظم کا کلیدی عنصر فکرِ محسوس کی توانائی ہے۔اس میں غزل جیسا فکرِ محسوس کا ارتکاز اور ایجاز ہو تا ہے۔نثری نظم قاری کے لیے ایک پوری کیفیت عطا کرتی ہے۔نثری نظم لکھنے والوں کے بہاؤ کو فن اپنی گرفت میں کبھی نہیں لیتا ہے۔
اس صنف کو اردو میں فروغ دینے والوں میں سجاد ظہیر، میرا جی، بلراج کومل،محمد حسن، خورشید الاسلام، ندا فاضلی، قاضی سلیم،زبیر رضوی، عادل منصوری، باقر مہدی،خلیل الرحمٰن اعظمی،احمد ندیم قاسمی،شہر یار،مخمور سعیدی، کشور ناہید اور محمد صلاح الدین پرویز قابلِ ذکر ہیں۔