20نومبر کو معروف شاعر فیض احمد فیض کی برسی ہے اس حوالے سے خصوصی تحریر نذرِ قارئین۔
٭……٭٭……٭
ادب اور فن کے شناوروں اور تنقید نگاروں نے تعینِ قدر کے جہاں اور بہت سے پیمانے وضع کیے ہیں وہاں ایک پیمانہ یہ بھی بنایا ہے کہ ایک فنکارکا دوسرے کے ساتھ موازنہ کرکے کسی ایک کو دوسرے پر برتر ثابت کریں۔ ’موازنۂ انیس و دبیر‘ سے شروع ہوکر یہ روایت آج تک جاری وساری ہے اور کچھ اس کا اطلاق بہت سے صاحبانِ نقد و نظر نے فیض احمد فیض پر بھی کیا ہے ۔چنانچہ ان کا موازنہ کبھی تو اقبال کے ساتھ کیا جاتا ہے اور کبھی ان کے ہم عصروں میں ن۔م۔راشد کے ساتھ۔شاید اس قسم کے موازنوں سے بھی گفتگو کے کچھ کارآمد پہلو نکلتے ہوں لیکن سچی بات یہ ہے کہ یہ طرزِ فکر اور تجزیوں کا یہ اسلوب ایک تخلیق کار کی جداگانہ حیثیت اور اس کے فن کی مکمل توجیہہ و تشریح کی راہ میں حائل ہوتا ہے۔
کسی شاعر اور ادیب کا بھرپور مطالعہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کو اس کے عہد کے سماجی و سیاسی تناظر میں اور ساتھ ہی ادب کی معروف اقدار و روایات کے پسِ منظر میں جانچا جائے۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو بیسویں صدی کے چوتھے عشرے سے اردو شاعری میں جو نمایاں ترین آوازیں اور لہجے ہمارے سامنے آتے ہیں ان میں فیض کی آواز اور لہجہ اپنی انفرادی پہچان رکھتا ہے۔انہوں نے ہم عصر تہذیبی رجحانات اور کشمش حیات سے اٹھنے والے محسوسات کو تخلیق کی سطح پر برتنے کی نہ صرف ایک کامیاب کوشش کی بلکہ ایسا کرتے وقت امید اور رجائیت کے پہلوئوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔فیض کی یہ رجائیت محض خام خیالی نہیں تھی۔نہ ہی وہ کسی اساطیری یا یوٹوپیائی امید کا چراغ روشن کررہے تھے بلکہ ان کی رجائیت تاریخ کے ان کے فہم سے مشتق تھی۔
وہ شعوری طور پر ترقی پسند فکر کے حامل تھے اور اس فکر کی آبیاری ان کی شاعری میں بھی ہوتی نظر آتی ہے ۔وہ انسانی تاریخ میں خیراور شر کی آویزش اور پھر خیر کی قوتوں کی حتمی کامیابی کے اس درجہ قائل تھے کہ ان کی اس فکر نے خود ان کو اپنے دور کے بحرانوں کو مناسب طور پر سمجھنے اور اُن سے عہدہ برا ہونے کی اہلیت عطا کی۔ان میں سے بہت سے بحرانوں سے وہ ذاتی طور پر بھی متاثر ہوئے ۔چنانچہ انہوں نے اپنی فکرو فلسفے کو خود اپنی ذات میں سمو کر یا internaliseکرکے بڑے اعتماد کے ساتھ ان بحرانوں کا سامنا کیا۔
یہی نہیں بلکہ فیض کی قبولیت اور شہرت کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ وہ معاشرے کے ارتقا،انسان کے روشن مستقبل،اور شر پر خیر کی فوقیت کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے اپنا اسلوب تمام و کمال اردو شاعری کی کلاسیکی روایت کے ساتھ ہم آہنگ رکھتے ہیں۔اور کلاسیکی روایت ہی کی بات ہو تو اردو شاعری پر ہی کیا موقوف،فیض نے فارسی اور عربی کی کلاسیکی روایت سے بھی اپنا ذہنی رشتہ مضبوطی کے ساتھ جوڑے رکھا۔چنانچہ ان کے ڈکشن میں اور ان کی لفظیات میں اردو کے علاوہ عربی اور فارسی ادبیات کے اثرات پہلی ہی نظر میں سامنے آجاتے ہیں۔یہ انہی عوامل کا اشتراک اور امتزاج ہے جنہوں نے فیض کو فیض بنایا ہے اور وہ اردو شاعری میں اپنی منفرد پہچان کے ساتھ زندہ ہیں۔
فیض نے اپنے تاریخی شعور ہی کی روشنی میں عصری رجحانات اور مسائل کی تفہیم حاصل کرنے کی کوشش کی۔چنانچہ اُن کا سماجی شعور اُن کے فہمِ تاریخ ہی کی رہنمائی میں پروان چڑھا۔اس سلسلے میں جس تاریخی عامل نے اُن کی سب سے زیادہ رہنمائی کی وہ خیر اور شر کی کشمکش کا تصور تھا۔وہ تضادات کی آویزش اور جدلیات کے تصور سے نہ صرف واقف تھے بلکہ انہوں نے ان کی کارفرمائی ماضی اور حال کی دنیا میں سمجھی اور دیکھی تھی ۔شاعری میں انہوں نے تضادات کے تال میل سے نئی بات پیدا کرنے کی کوشش کی۔تاریخِ ادب میں اکثربڑے ادیبوں اور شاعروں نے paradoxesاور متناقض حوالوں سے ہی نت نئے خیالات پیدا کیے ہیں۔
خود ہماری شعری روایت میں paradoxesکی بہترین مثالیں موجود ہیں۔فیض کی ایک اہم پہچان یہ ہے کہ وہ اردو شاعری کی روایت سے ہم آہنگ ہوکر اپنے عہد کے آلام اور بحرانوں پر اظہار خیال کرتے ہیں۔یہ روایت اپنی جگہ بڑی زرخیز اور معنی آفرینی سے آراستہ ہے ۔میر تقی میرؔ نے جب یہ کہا تھا کہ ؎
محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور!
تو وہ ظلمت اور نور کی متناقض کیفیات ہی کی طرف اشارہ نہیں کررہے تھے بلکہ ایک قدم آگے جاکر ان متضاد رویّوں کے درمیان تعامُل کو نئے امکانات کے ظہور کا وسیلہ بھی قرار دے رہے تھے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ میرؔ کی سوچ جدلیاتی تھی۔وہ تضادات کے باہم ٹکڑائو سے نئے امکانات کے اظہار کے قائل تھے۔یہ جدلیاتی سوچ ہماری روایتی شاعری میں بار بار اپنی جھلکیاں دکھاتی ہے اور ہم حیران ہوتے ہیں کہ ہمارے اسلاف نے زندگی کے تجربات سے کتنے سچے سبق اخذ کیے تھے۔ فکرو عمل کے یہ ایسے ہی نتائج تھے جنہوں اُن کی سوچ کو ایک ایسے راستے پر گامزن کیا جو تخلیق کی سطح پر ہی نہیں فلسفہ و حکمت کی سطح پر بھی ابدی سچائیوں کی طرف لے جانے والا راستہ تھا۔ چنانچہ سودا ؔکا یہ شعر اسی سچائی کا اظہار کرتا نظر آتا ہے کہ ؎
داغِ ہجراں سے ترے رشکِ چراغاں ہے دل
گاہ پروانہ گہے شمعِ شبستاں ہے دل
یہ ۱۸ ویں صدی کا شعر ہے جس میں ہمارا شاعر ہجر کے داغ سے دل میں چراغاں کرتا نظر آتا ہے۔ اس کے بعد اگلی صدی میں مرزا غالب ؔ کا طوطی بولتا ہے اور غالب ؔ نے جس طرح متناقض تصورات کو نئی تعبیرات کے لیے استعمال کیا ہے اور جس تواتر سے استعمال کیا ہے اس کی مثال شاید کسی اور شاعر کے ہاں تلاش نہ کی جاسکے۔غالبؔ کے نظامِ فکر میں کیا کیا چیزیں ایک دوسرے کے مقابل آکر نئے راستے کھولتی ہیں، یہ تحیّر کا ایک بڑا میدان ہے ؎
خانہ زادِ زلف ہیں زنجیر سے بھاگیں گے کیوں
ہیں اسیرانِ بلا زنداں سے گھبرائیں گے کیوں
اور بات اگر ہجر اور انبساط کی ہو تو ان متضاد کیفیات کا ملاپ بھی ہمارے کلاسیکی شعراء میں بڑا کمال کا نظر آتا ہے۔غالب ؔ ہی کا شعرہے ؎
یہ ہم جو ہجر میں درو دیوار کو دیکھتے ہیں
کبھی صبا کو، کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں
ہجر کی یہ کیفیت فیضؔ کے ہاں بھی ایک بالکل الٹ کیفیت یعنی سرور اور انبساط سے ہم آہنگ ہوکر ایک نیا راستہ کھولتی ہے۔ایک ہی نہیں بلکہ یوں کہیں کے طرح طرح کے راستے کھولتی ہے ۔فیض کی شاعری میں تناقضات کو جن مختلف طریقوں سے برتا گیا ہے وہ فیضؔ کی خلّاقی اور اُن کی صناعی پر دلالت کرتا ہے ۔تناقضات کی ہم آہنگی سے راہ کشائی کی ایک صورت تو وہ ہے جس میں مشکلات اور مایوسیوں کو برداشت کرکے یا اُن پر قابو پاکر، بقول پروفیسرسحرؔ انصاری، دشت کو گلزار میں تبدیل کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے ۔پھر فیض نے تنہائی کو جس مثبت انداز میں پیش کیا ہے وہ تنہائی کو ’تنہائی‘ نہیں رہنے دیتا بلکہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ ؎
ہم اہلِ قفس تنہا بھی نہیں ہر روز نسیمِ صبح وطن
یادوں سے معطر آتی ہے اشکوں سے منور جاتی ہے
تناقض سے ایک نیا مفہوم اور ایک نیا احساس اخذ کرنے کا ہنر شاعر کو مایوسی میں امید کی کلیاں کھلانے کاا ہل بنادیتاہے۔وہ ویرانے میں چپکے سے بہار کی آمد کی آہٹ سنتا ہے، دشتِ تنہائی میں محبوب کی آواز کے سائے اورہونٹوں کے سراب دیکھتا ہے، اپنے غم کدے کے در کو کھول کر اپنے ملنے والوں کا استقبال کرتا ہے۔فیضؔ کی شاعری میں تناقضِ تصورات اور کیفیات سے ایک بالکل نیا مفہوم اخذ کرنے کا رجحان اُن کی اُن نظموں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے جو بظاہر المیوں اور حادثات پر لکھی گئی ہیں لیکن ان المیہ نظموں(Tragedies)کے بطن سے ہمیشہ امید کا پیغام جنم لیتا نظر آتا ہے ۔ ۵۳۔۱۹۵۲ء کی اُن کی نظم ہے ’ ایرانی طلبہ کے نام‘ جو اُن ایرانی طلبہ کے موضوع پر تھی جنہوں نے پہلوی شہنشاہیت کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا اور امن اور آزادی کی جدوجہد میں جام ِ شہادت نوش کیا تھا۔یہ نظم ارضِ عجم کے جواں سالوں کے خون کے نوحے کے طور پر شروع ہوتی ہے۔شاعر سوال اٹھاتا ہے__یہ کون سخی ہیں ،جن کے لہو کی، اشرفیاں، دھرتی کے پیہم پیاسے، کشکول کو بھرتی جاتی ہیں۔۔۔۔یہ کون جواں ہیں ارضِ وطن۔۔۔جن کے جسموں کی بھرپور جوانی کا کندن، یوں خاک میں ریزہ ریزہ ہے۔پھر شاعر خود جواب دیتا ہے ؎
اے پوچھنے والے پردیسی!
یہ طفل و جواں
اُس نور کے نورس موتی ہیں
اُس آگ کی کچی کلیاں ہیں
جس میٹھے نور اور کڑوی آگ
سے ظلم کی اندھی رات میں پھوٹا
صبحِ بغاوت کا گلشن
(نظم سے اقتباس)
اس نظم کے کوئی ۳۰ سال بعد فیض ؔ نے ایک اور المیہ نظم لکھی ’ایک نغمہ کربلائے بیروت کے لیے ‘۔اس نظم میں بھی ایک المیہ جس طرح سے ایک امید افزا پیغام میں ڈھلتا ہے ،وہ فیض کے اعجاز ِ ہنرہی کا منہ بولتا ثبوت ہے ؎
بیروت نگار بزمِ جہاں
بیروت بدیلِ باغِ جناں
بچوں کی ہنستی آنکھوں کے
جو آئینے چکنا چُور ہوئے
اب ان کے ستاروں کی لَو سے
اس شہر کی راتیں روشن ہیں
اور رُخشاں ہے ارضِ لبناں
بیروت نگارِ بزمِ جہاں
جو چہرے لہو کے غازے کی
زینت سے سوا پُر نور ہوئے
اب ان کے رنگیں پر تو سے
اس شہر کی گلیاں روشن ہیں
اور تاباں ہے ارضِ لبناں
بیروت نگارِ بزمِ جہاں
ہر ویراں گھر، ہر ایک کھنڈر
ہم پایۂ قصردارا ہے
ہر غازی رشک ِ اسکندر
ہر دختر ہمسر لیلیٰ ہے
یہ شہر ازل سے قائم ہے
یہ شہر ابد تک دائم ہے
بیروت نگارِ بزمِ جہاں
بیروت بدیلِ باغِ جناں
ان نظموں میں دیکھا جاسکتا ہے کہ فیض نے کہاں سے بات شروع کرکے کہاں پہنچائی ہے ۔یہ ہجر سے وصال یا ہجر میں نشاط کی کیفیت کا ہی پھیلائو ہے کہ المیوں سے سحر کی بشارت اخذ ہورہی ہے اور غلامی اور مجبوری سے مختاری اور بغاوت کے گلشن آباد ہورہے ہیں۔
فیض کی شاعری میں اس رجحان کا اتنا عمل دخل اور پھیلائو ہے کہ شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس شاعری کا ایک بڑا حصہ اسی ماحول کا پروردہ ہے ۔شاید اس کا سبب یہ ہو کہ چیزوں کو اُن کے تضاد کے حوالے سے دیکھنا فیض کے لیے صرف تخلیقی تجربہ ہی نہیں تھا یا یہ اپنے تخلیقی جوہر دکھانے کے لیے اُن کا اختیار کردہ شعری رویہ ہی نہیں تھا بلکہ بغور دیکھا جائے اور فیض کی شاعری کے ساتھ اُن کی نثری تحریروں کو بھی پیشِ نظر رکھاجائے تو تضادات سے نئے امکانات کی طرف بڑھنے کا عمل اُن کی فکر اور سوچ کا ناگزیر حوالہ معلوم ہوتا ہے ۔
اُن کی نثری تحریروں میں بھی اُن کی جدلیاتی فکر نمایاں ہے ۔یہی اُن کا فلسفۂ زیست اور طرزِ فکر و احساس بھی تھا۔یہی نہیں بلکہ وہ اس طرز فکر کو فرد کی ذاتی کلفتوں اور مایوسیوں سے فراغت اور نجات کا ذریعہ بھی سمجھتے تھے ۔دورانِ اسیری انہوں نے ایلس فیض کے نام ایک خط میں اُس احساس ِ بے چارگی اور مایوسی پر تبصرہ کیا جس سے بعض اوقات اچھے خاصے جدوجہد آزما افراد بھی دوچار ہوجاتے ہیں۔فیضؔ نے لکھا کہ یہ احساسات ہمیں اس لیے گھیرے رہتے ہیں کہ:
’’انسانی مسرت کی جدوجہد بظاہر اتنی طویل،اتنی گراں اور اتنی دائمی معلوم ہوتی ہے کہ اس کے مقابلے میں ایک فرد کی ذات بالکل ہیچ اور نزار دکھائی دیتی ہے ۔لیکن یہ جبھی ہوتا ہے اگر تم اس جدوجہد کو ایک فرد کی نظر سے دیکھو ۔۔۔۔اگر یوں نہیں ہے تو اسے دیکھنے کا ایک ہی صحیح طریقہ ہے اور وہ اجتماعی نقطۂ نظر ہے۔اگر اس نظر سے دیکھو تو یہی جدوجہد شجاعانہ،بامقصد اور امید افزا نظر آتی ہے ۔‘‘
فیض کی شاعری میں آزمائشوں اور المیوں کا اور انسان پر ٹوٹنے والی آفتوں کا بڑا ذکر ہے ۔بڑی دردناک فضائیں اُن کی نظموں میں چھائی رہتی ہیں__’’یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر‘‘ ، ’’گڑی ہیں کتنی صلیبیں مرے دریچے میں‘‘، ’’کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ‘‘۔یہ سب اُن کی شاعری میں ہے لیکن پھر یہ سندیسے بھی ہیںکہ ’’ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے‘‘،’’سب تاج اچھالے جائیں گے‘‘،’’سب تخت گرائے جائیں گے‘‘،’’اٹھے گا انا الحق کا نعرہ جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو، اور راج کرے گی خلقِ خدا جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو‘‘۔فیضؔ کا تاریخی اور سماجی شعور اُن کو یقین کی اس دولت سے بھی ہم کنار کرتا ہے کہ؎
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم