جنوبی کوریا، ایشیا کے مشرق میں واقع ممالک میں سے وہ نمایاں ملک ہے، جس نے عہدحاضر میں برق رفتاری سے ترقی کی ہے۔ تجارت سے لے کر ادب و ثقافت تک ہر میدان میں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان کے ہاں سب سے زیادہ ترقی یافتہ شعبے ٹیکنالوجی اور شوبز کے ہیں، البتہ ان کا ادب بھی مختلف جہتوں میں ارتقا کی نئی منزلیں طے کر رہا ہے۔ 2020 کی بہترین فلم کی کہانی کا آسکر ایوارڈ، جنوبی کوریا کی فلم ’’پیراسائٹ‘‘ کو ملا۔ یہ اعزاز پتہ دے رہا ہے کہ ان کے ہاں کہانی کہنے کے طریقے بھی جدید خطوط پر استوار ہو رہے ہیں۔ اس فلم کی متاثرکن کہانی تو یہی بتاتی ہے۔
ہمارا آج کا انتخاب، جنوبی کوریا کے مشہور ادیب’’آہن جونگ ہائیو‘‘ہیں۔ جن کی شہرت ایک ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی مترجم، اسکرپٹ رائٹر اور صحافی کے طور پر بھی رہی ہے۔ وہ انگریزی زبان سے کورین زبان میںعالمی ادب کے تراجم کرتے ہیں۔ انہوں نے 1975 میں سب سے پہلے جس ناول کا ترجمہ کیا، وہ کولمبیا کے ممتاز ادیب’’گبرائیل گارشیا مارکیز‘‘ کا ناول’’تنہائی کے سو سال‘‘ تھا۔ اس ناول سمیت متعددعالمی شہرت یافتہ ناولوں کے تراجم کیے، ان کی اس ساری ریاضت کا محور، کورین زبان میں شائع ہونے والا ایک ادبی جریدہ’’ماہنامہ ادب و افکار‘‘ تھا، جس کے لیے یہ تراجم کا کام کرتے تھے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق، انہوں نے اپنے ادبی کیرئیر میں اب تک بطور مترجم، عالمی ادب سے ڈیڑھ سو کے قریب تخلیقات کا ترجمہ کورین زبان میں کیا ہے، جو ایک متاثرکن سنگ میل ہے۔
’’آہن جونگ ہائیو‘‘ جنوبی کوریا کے سب سے بڑے اور دنیا کے جدید ترین شہر’’سیول‘‘ میں2 دسمبر 1941 کو پیدا ہوئے۔ انگریزی زبان میں گریجویشن کرنے کے بعد اسی زبان سے ان کی وابستگی ہوئی، بطور صحافی اور محقق کئی اداروں کے ساتھ کام کرتے رہے، جن میں’’کوریا ہیرالڈ‘‘ اور’’کوریا ٹائمز‘‘ شامل ہیں۔ دنیا کے معروف انسائیکلوپیڈیا بریٹینکاکے کورین زبان کی ڈویژن کے مدیر اعلیٰ بھی رہے۔ انہوں نے ستر کی دہائی میں تراجم کی ابتدا کی، جبکہ اسی کی دہائی میں اپنے طبع زاد ناول لکھنے کا آغاز کیا۔
اب تک ان کے پانچ ناول شائع ہوچکے ہیں، جن کے نام بالترتیب اشاعت، وائٹ وار، اوٹمین سی پیوپل، سلور اسٹالن، کلسام اور دی لائف آف دی ہالی ووڈ کڈ‘‘ ہیں۔ ان کے آخری ناول کی اشاعت 1992 میں ہوئی، اسی سال ان کو جنوبی کوریا کا ایک معروف ادبی ایوارڈ’’کم یوجونگ لٹریری ایوارڈ‘‘ بھی دیا گیا تھا۔ ان کے دو ناول ’’وائٹ وار‘‘ اور’’سلور اسٹالن‘‘ بہت مقبول ہوئے، ان پر فلمیں بھی بنیں، جبکہ انہوں نے دو مزید فلموں کے اسکرپٹس بھی لکھے۔ یہاں جس ناول کو منتخب کیا گیا ہے، اس کا نام’’سلور اسٹالن‘‘ ہے، جس کی اشاعت 1990 میں ہوئی تھی۔
ان کے اس ناول’’سلور اسٹالن‘‘ کی کہانی کا مرکزی خیال یوں ہے کہ دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی اور جنوبی کوریا کو جاپان کی غلامی سے آزادی ملی، مگر جنگ عظیم دوم ختم ہونے پر اتحادی فوج کے رکن ملک امریکا کی فوج جنوبی کوریا میں داخل ہوئی، تو اس سے مقامی آبادیاں کیسے متاثر ہوئیں، اس صورتحال کی عکاسی کی گئی ہے۔ جنوبی کوریا کے ایک گائوں کے قریب امریکی فوجیوں کا بیس قائم ہوا، جس کے نتیجہ میں اس گائوں کا امن و سکون ختم ہوگیا اور مقامی لوگوں کی زندگی اجیرن ہوگئی۔ اس تناظر میں ایک بیوہ خاتون جس کا ایک کمسن بیٹابھی ہے، اس کو ان حالات سے نبرد آزما دکھایا گیا ہے۔ ان امریکی فوجیوں کی وجہ سے گائوں کا ماحول اخلاقی طور پر بھی غتربود ہوا۔ اس پورے منظرنامے کو انتہائی باریک بینی سے کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔
اس کہانی پر کورین زبان میں فلم بنی، جس کی ریلیز 1991 میں ہوئی۔ اس فلم کے اسکرپٹ نویس’’جانگ کل سُو‘‘ اور’’چو جئی ہونگ‘‘ تھے، جبکہ فلم کی ہدایات بھی’’جانگ کل سُو‘‘ نے دی تھیں۔ فلم میں مرکزی کردار نبھانے والی اداکارہ’’لی ہئی سوک‘‘ تھیں، جن کی شہرت جنوبی کورین سینما اور ٹیلی وژن کی صنعت میں ہے۔ انہوں نے اپنے کام سے انصاف کرتے ہوئے متاثرکن کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور کہانی میں حقیقت کے رنگ بھر دیے۔ اس فلم کو پسند کیا گیا اور اس نے متعدد فلمی اعزازات بھی وصول کیے۔
اس ناول یا فلم کی کہانی کے بارے میں جب مغربی ویب سائٹس پر پڑھتے ہیں، یا کسی کتاب اور رسالے میں مطالعہ کرتے ہیں تو انہوں نے بہت متوازن انداز بلکہ یوں کہنا چاہیے، خاصی حد تک جانبداری سے اس طرح کی کہانیوں کو بیان کیا ہے، لیکن جنوبی کورین ویب سائٹس بتاتی ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ جاپان نے جس ظلم و ستم کا سلسلہ شروع کیا تھا، وہ تھم گیا، لیکن درحقیقت ایسانہیں ہوا تھا، امریکی فوجیوں کی صورت میں جنوبی کورین کے استحصال کی نئی شروعات ہوئی، جوکافی عرصے تک جاری رہی، بلکہ امریکی فوجیوں کے ظلم و جبر کی مشق کا یہ سلسلہ تو جاپان تک دراز ہوچکا تھا۔