منگل کے روز جی ایچ کیو میں منعقدہ کور کمانڈر کانفرنس کی صدارت کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ نے قوم اور اداروں کے ساتھ مل کر تمام چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے جس عزم کا اظہار کیا وہ ہر پاکستانی کا عزم اور اُس کے دل کی آواز ہے۔ اِس عزم کا بار بار دہرایا جانا اس بنا پر ضروری ہے کہ قیام پاکستان کے وقت سے ہی وطن عزیز کو بھارت جیسے پڑوسی کی اُن سازشوں، ریشہ دوانیوں اور مذموم کوششوں کا سامنا رہا جن کا مقصد پاکستان کے وجود کا خاتمہ ہے۔ برٹش انڈیا کی تقسیم سے پہلے مسلمانان ہند کے رہنما قائداعظم محمد علی جناحؒ جو ہندو مسلم اتحاد کے زبردست حامی تھے، انڈین نیشنل کانگریس کے متعصبانہ رویے کی بنا پر اس سے علیحدگی اختیار کرنے اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کرنےپر مجبور ہوئے۔ ان کا واضح موقف تھا کہ برصغیر جنوبی ایشیا کی دونوں بڑی اقوام دو ملکوں میں اپنے اپنے طور پر زندگی گزارتے ہوئے دوستی اور تعاون کی فضا میں ترقی کی منازل تیزی سے طے کرسکتی ہیں۔ برطانوی استعمار کی رخصتی کے بعد بھارت اپنے ہر رویے سے ثابت کرتا رہا کہ اس نے پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا جبکہ پاکستان کی ہر حکومت دوستی اور تعاون کی ضرورت اجاگر کرتے ہوئے اس کے لیے پوری طرح کوشاں رہی۔ وزیراعظم عمران خان نے تو اپنے برسراقتدار آنے پر یہاں تک کہا کہ بھارت ہماری طرف دوستی کا ایک قدم بڑھائے گا تو ہم دو قدم بڑھائیں گے۔ مگر نئی دہلی کے حکمرانوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق متنازع قرار دیے گئے علاقے کے اپنی فوجوں کے زیر قبضہ علاقے میں آزادی اور استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والے عوام پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ کر، خود بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کے لئے زندگی اجیرن بناکر، کشمیر کی کنٹرول لائن پر گولہ باری کرکے، سرحدی خلاف ورزیاں کرکے اور نائن الیون کے بعد افغانستان کی صورتحال سے فائدہ اٹھاکر اپنے ایجنٹوں اور دہشت گردی نیٹ ورکس کے ذریعے وہ سب کیا جو بھارت سرکار کے بس میں تھا مگر پاکستانی عوام اور فوج کے مشترکہ عزم نے دہشت گردوں کا بڑی حد تک صفایا کرکے دنیا سے اپنا لوہا منوالیا۔ بھارتی رویے کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ وہ ہر قیمت پر اس علاقے اور خطے کا امن تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اسی مہینے کے دوران پاکستان کی طرف سے اس باب میں شواہد اور ثبوتوں کے ساتھ جو ڈوزئر جاری کیا گیا وہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب منیر اکرم نے عالمی ادارے کے سیکریٹری جنرل انتونیو گو تیرش کو پیش کیا ہے۔ اس ڈوزئر میں پاکستانی سرزمین پر کی جانے والی دہشت گردی، افغانستان میں بھارتی سفارتی مشنوں کے ذریعے پاکستان کے خلاف تخریب کاری، عدم استحکام کی کارروائیوں، دہشت گردوں سے رابطوں اور سازشوں سے متعلق جو ثبوت دیئے گئے، وہ اس بات کے متقاضی ہیں کہ عالمی ادارہ بھارت کی امن دشمن سرگرمیوں کا سختی سے نوٹس لے کیونکہ اقوامِ متحدہ کے کسی رکن ملک کی سرحدوں میں واقع سرزمین پر کسی دوسرے رکن ملک کے مداخلت اور تخریبی کارروائیاں اقوامِ متحدہ کے منشور کی خلاف ورزی ہیں جن پر حرکت میں آنا سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مذکورہ ڈوزئر کو فائلوں کے انبار میں گم ہونے سے بچاتے ہوئے عالمی اداروں اور مختلف ممالک میں قیادتوں کے ساتھ ملاقاتیں کرکے موثر و مسلسل پیروی کی جائے۔ 237ویں کور کمانڈرز کانفرنس کی کارروائی سے بھی واضح ہے کہ بھارت دہشت گردوں کی مالی مدد کرکے بدامنی کی جو کوششیں کررہا ہے ان سمیت ہر چیلنج سے نمٹنے کے لیے فوج اور عوام متحد و مستعد ہیں۔ فلیگ آپریشن جیسے ڈرامے نہیں چلنے دیے جائیں گے اور کسی بھی جارحیت سے ملک کو محفوظ رکھا جائے گا۔