پاکستانی کرکٹ ٹیم کے نیوزی لینڈ پہنچتے ہی چھ اراکین کے کورونا ٹیسٹ مثبت آ نے سےکھلبلی مچ گئی ہے ۔نیوزی لینڈ کو اس کی سر زمین پر زیر کرنے کے مشن کو شدید دھچکہ لگا ہے۔ایک ہفتہ قبل کراچی میں پاکستان سپر لیگ کا میلہ کامیابی سے کراچی کنگز کی جیت کے ساتھ ختم ہوا تھا۔طویل انتظار کے بعد لاہور قلندرز نے پی ایس ایل فائیو میں اپنے ناقدین کو خاموش کردیاعاطف رانا کہتے ہیں کہ ابھی تو70فیصد اہداف حاصل کئے ہیں،مشن جاری رہے گا۔
ابتدائی چار ٹورنامنٹ میں آخری پوزیشن حاصل کرنے والی قلندرز کی ٹیم کو خراب کارکردگی کے بعد شدید تنقید کا سامنا تھا۔کسی نے کوچ عاقب جاوید کو تبدیل کرنے کا مشورہ دیا کسی نے کپتان سہیل اختر کو عثمان بزدار پلس قرار دے کر تبدیل کرنے کی بات کی۔لیکن عاطف رانا اور ثمین رانا اپنی دھن کے پکے تھے انہوں نے اپنے فیصلے پر اٹل رہ کر فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کرلیا۔
لاہور قلندرز کے سی ای او عاطف رانا کہتے ہیں ہم نے جس پراسس کے تحت اپنی ٹیم کو چلایا تھا فائنل کھیلنے کے باوجود ہم نے70فیصد ہدف حاصل کیا ہے۔انشا اللہ اس میں مزید بہتری لائیں گے۔ہماری کوشش ہے کہ ایک ایسا وقت آئے جب چار غیر ملکی کرکٹرز کے ساتھ قلندرز الیون میں سات کھلاڑی ہمارے پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام کے ہوں۔
ہم نے کئی بیٹسمینوں کے ساتھ کام کیا اس وقت فخر زمان ہماری دریافت ہیں۔شاہین شاہ آفریدی اور حارث روف پاکستان ٹیم کے ساتھ نیوزی لینڈ میں ہیں۔دونوں فاسٹ بولروں کو ہم نے دریافت کیا اور ان پر محنت کی۔عاطف رانا کہتے ہیں کہ تین سالوں میں ہمیں اس لئے تنقید برداشت کرنا پڑی کہ ہم نے عاقب جاوید کو ہیڈ کوچ برقرار رکھا۔عاقب جاوید خاموشی سے کام کرنے والے انسان ہیں انہوں نے بھی سر جھکا کر کام جاری رکھا۔سہیل اختر کو کپتان بنانے پر ہمیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا سہیل اختر کو عثمان بزدار سے ملایا گیالیکن میرا سوال ہے کہ کیا پنجاب نے ڈہائی سالوں میں اتنی ترقی کی ہے جتنی لاہور قلندرز نے کی ہے۔عاطف رانا اور ثمین رانا اس مشن کو تکمیل پہنچانے میں پیش پیش ہیں۔
عاطف رانا کہتے ہیں پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام کے بعد ہماراہائی پرفارمنس سینٹر ہمیں بہت آگے لے کر جائے گا۔پاکستان سپر لیگ سے شہ سرخیوں میں آنے والی لاہور قلندرز کی فرنچائز پورے سال پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام اور اپنے ہائی پرفارمنس سینٹر کی وجہ سے خبروں میں رہتی ہے۔اس فرنچائز کے چار ستون ہیں جن کی سوچ نے لاہور قلندرز کو مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔
قلندرز کے چیئرمین فوادرانا۔سی ای او رعاطف رانا ،سی او او ثمین رانا اور ڈائریکٹر عاقب جاوید پر مشتمل ان ستونوں نے اس فرنچائز کو سب سے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ایک وقت تھا جب عاطف رانا کی باتوں کو دیوانے کا خواب کہا جاتا تھا۔2016 میں فرنچائز کرکٹ یعنی پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی آمد ہوئی تو اس میں شامل لاہور قلندرز کی ٹیم نے ٹیلنٹ تلاش کرنے کا آغاز کیا۔
چار برس کے بعد اب لاہور قلندرز کا منصوبہ باقاعدہ پلیئر زڈویولپمنٹ پروگرام میں تبدیل ہو چکا ہے اور ایک عارضی اکیڈمی سے وہ ہائی پرفارمنس سینٹر تک کا سفر طے کر چکے ہیں،عاطف رانا کہتے ہیں کہ پاکستان میں ٹیلنٹ بہت ہے لیکن انہیں مواقع ملنے کی ضرورت ہے۔
ہیومن ریسورس کی ضرورت تھی ہم نے دور دراز علاقوں سے غیر معروف کرکٹرز کو تلاش کیا اور انہیں انٹر نیشنل سہولتیں دیںجس سے ٹیلنٹ پالش ہوا۔ٹیپ بال کھیلنے والے کرکٹرز آج پاکستان ٹیم کا حصہ ہے اور کئی اور کرکٹرز پاکستان ٹیم میں آنے کے لئے دستک دے رہے ہیں۔
عاقب جاوید پاکستان ٹیم میں رہ کر جو کام کرسکتے تھے وہ انہوں نے ہمارے ساتھ رہ کر کیا۔اس سال بھی ہمیں تین میچوں کے بعد مسترد کردیا گیا تھا لیکن ہم نے اپنے وژن کی تکمیل اپنے جذبے کے ساتھ جاری رکھی۔لاہور قلندرزپی ایس ایل کی مقبول ترین اور ایک اعتبار سے معروف ترین ٹیم بھی ہے۔
یہ جیت کے عین قریب آ کر میچ کو فنش نہیں کرسکتی تھی، اس کے کھلاڑی سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ زیرِ بحث رہتے، یہ ہار کر بھی ہزیمت کو ہنسی میں اڑا دیتے ۔اس بار ٹیم اپنے وقار کو بحال کرنے میں سنجیدہ بھی تھی اور ٹرافی جیت کر سبھی کے منہ بھی بند کرنا چاہتی تھی۔ فائنل کھیل کر قلندرز نے کافی حد تک اپنی ناکامیوں کا ازالہ کیا۔
مجھے یاد ہے پنڈی اسٹیڈیم میں جب قلندرز کو ایک میچ میں شکست ہوئی تو ایک سابق پاکستانی کپتان نے مجھے مشورہ دیا کہ اب تو آپ قلندرز کی حمایت ترک کردیں میں نے کہا دیکھیں یہ ٹیم اس ٹورنامنٹ میں کم بیک کرے گی ،پھر جب پنڈی سے لاہور پہنچے تو بین ڈنک کے چھکوں نے قلندرز کے مشن ایمپوسیبل کو پوسیبل کردیا۔لاہور قلندرز نے ابتدائی چار سالوں میں کرس گیل،اے بی ڈی ویلیئرز اور برینڈن میکالم جیسے کھلاڑیوں کو بھی اپنی ٹیم میں شامل کیا۔
کوچنگ اسٹاف میں پیڈی اپٹن،اعجاز احمد،انضمام الحق،شعیب اختر جیسے بڑے نام رہے لیکن اس بار عاقب جاوید مسلسل چوتھے سال کوچ تھے جبکہ ان کے ساتھ کوچنگ اسٹاف غیر معروف لوگوں پر مشتمل تھا۔قلندرز نے13میں سے سات میچ جیتے اور چھ ہارے۔پلے آف میں پشاور زلمی اور ملتان سلطانز جیسے بڑی ٹیموں کو شکست دے کر فائنل کھیلا ۔
فائنل میں ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا لیکن دونوں ٹیموں میں بابر اعظم اصل فرق ثابت ہوئے۔پاکستان سپر لیگ کے پانچویں ٹورنامنٹ کے فائنل میں کراچی کنگز نے لاہور قلندرز کو شکست دے کر پہلی مرتبہ ٹی ٹوئنٹی میچوں کا یہ ٹورنامنٹ اپنے نام کر لیا ۔
دونوں ٹیموں میں اگر کوئی بڑا فرق نظر آیا تو وہ دنیائے کرکٹ اور ٹی ٹوئنٹی کے صف اول کے بیٹسمین بابر اعظم تھے۔ بابر اعظم نے جس اعتماد اور غیر متزلزل انداز میں اپنی ٹیم کو ہدف تک پہنچایا وہ ان ہی کا خاصہ ہے۔بابر نے 49 گیندوں پر 63 رنز ا سکور کیے اور آؤٹ نہیں ہوئے۔
لاہور قلندرز کے شاہین آفریدی سب سے زیادہ 17 وکٹیں لینے والے بولر ہیں۔وہ ٹورنامنٹ کے بہترین بولر قرار پائے۔قلندرز کے دلبر حسین نے ایمرجنگ پلیئر کی حیثیت سے پہلی بار ٹورنامنٹ میں شرکت کی اور14وکٹوں کے ساتھ سب کو حیران کردیا۔فاسٹ بولر حارث روف کی جگہ دلبر بگ بیش کا بھی ایک میچ کھیل چکے ہیں۔
حارث روف نے پلے آف میں شاہد خان آفریدی کو جس انداز میں پہلی گیند پر بولڈ کیا اس کے اعتراف خود شاہد آفریدی نے بھی کیا۔لاہور قلندرز گزشتہ پانچوں ٹورنامنٹس میں کوئی خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی تھی اور اس ہی وجہ سے لاہور قلندرز کے چاہنے والے مایوسی کر شکار ہو گئے تھے۔
لیکن پلے آف میں ان کی ٹیم نے جس طرح سنسنی خیز مقابلے کے بعد فائنل میں جگہ بنائی اس سے کرکٹ شائقین اور لاہور قلندرز کے مداحوں میں جوش اور جذبہ ایک مرتبہ پھر تازہ ہو گیا ہے۔کووڈ 19 کی وبا کی وجہ سے پی ایس ایل کے پانچویں ٹورنامنٹ میں خلل پڑ گیا تھا اور آخری مرحلے کے مقابلے کئی ماہ کی تاخیر کے بعد سخت پابندیوں اور خالی سٹیڈیمز میں دوبارہ کھیلے گئے لیکن ٹی وی پر اس کی مقبولیت پہلے سے زیادہ رہی۔