اکثر ایسا ہوتا ہےکہ گہری نیند میں کوئی ادھورا خواب دیکھتے دیکھتے اچانک آنکھ کھل جاتی ہے پھر لاکھ کروٹیں بدلوں، واپس خوابوں کی وادی میں جانے کو دل نہیں کرتا۔ آج پھر ایک ادھورا خواب ٹوٹا ہے جو مجھے ٹھیک سے تو یاد نہیں لیکن آنکھ کھلتے ہی پتہ نہیں کیوں انتہائی قابل احترام جناب سہیل وڑائچ یاد آگئے کہ شائد ان کے ڈاک خانے میں عالمِ ارواح سے جناحؒ صاحب کی کوئی تازہ چٹھی آئی ہو، یا بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کی بیٹھک سے کوئی نئی مشترکہ قرار داد منظور ہوئی ہو جو ہماری رہنمائی فرما سکے۔لگتا ہے ہماری وزارت مواصلات نے عالمِ ارواح سے تازہ ڈاک کی ترسیل میں بھی کوئی خلل ڈال دیا ہے اورحالات کی ماری قوم تازہ ترین ملکی صورت حال میں رہنمائی حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ رات کے آخری پہر اب نیند مجھ سے کوسوں دور ہے اور یہی مناسب سمجھا ہے کہ ایک تار(ٹیلی گرام، تیز رفتار پیغام رسانی کا پرانا ذریعہ) پوسٹ ماسٹر جنرل جناب سہیل وڑائچ کے ٹیلی گراف آفس کی وساطت سے عوام الناس بنام جناحؒ صاحب ہی ارسال کرکے دیکھیں کہ شائد جناحؒ صاحب کی قیادت میں عالم ارواح میں ہونے والی آل پارٹیزکانفرنس ہی موجودہ صورت حال کاکوئی حل تجویز کرسکے اور قوم کی رہنمائی فرمانا آسان ہو تو آپ بھی شریکِ تار ہو جائیے۔
عالی جناب! محترم جناحؒ صاحب آپ یقیناً اپنے رب کے حضور خوش و خرم ہوں گے لیکن پاکستان کے موجودہ حالات دیکھ کر آپ کی فکر مندی ہم سےکہیں زیادہ ہوگی۔ آپ قیام پاکستان کے بعد مختصر عرصہ علیل رہے اور ہمیں روتا چھوڑ گئے۔آپ نے دانش، حکمت، تدبر اور سیاسی بصیرت سے ہمیں پاکستان کی شکل میں جو انمول تحفہ عنایت فرمایا تھا، وہ ہمیں دل و جان سے عزیز ہے اور ہماری پوری خواہش ہے کہ اس کی حفاظت ، تعمیر و ترقی اور خوش حالی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں۔ جناحؒ صاحب! جب سے آپ ہمیںچھوڑ کر گئے ہیں، ہمارے حالات روز بروز بگڑتے ہی جارہے ہیں۔ اب تو حالت یہ ہو چلی ہےکہ تن ڈھانپنے کو کپڑا نہیں، پیٹ بھرنے کو روٹی نہیں، بچوں کی تعلیم و تربیت کے اخراجات نہیں، یہاں آئے دن احتجاج، ہنگامے، دھرنے اور سر پھٹول کی سیاست عروج پر رہتی ہے۔کوئی ایسا بھی نظر نہیںآتا جو ان حالات کو سنبھالنے کے لئے احسن کردار ادا کرسکے۔ ہر طرف مایوسی کا دور دورہ ہے ، یہاں کی سیاسی صورت حال سے زیادہ معاشی صورت حال بری طرح بگڑ چکی ہے اور دشمن ہماری نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کو کھوکھلا کرنے کے لئے دن رات سازشیںکررہا ہے، دوسری طرف دوست دشمن بنتے جارہے ہیں۔ امت مسلمہ کا شیرازہ بکھر چکا ہے اور مسلم ممالک کے باہمی تعلقات ”ایک ہوںمسلم حرم کی پاسبانی کے لئے“ سے زیادہ ذاتی مفادات پر استوار ہورہے ہیں۔ یہاں کسی کو مسئلہ کشمیر کی فکر ہے نہ مسئلہ فلسطین کی۔ اب تو’’یہودیوںکا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے‘‘ کا نعرہ لگانے والے بھی خاموش ہیں۔ ہر طرف یہودی مسلم تعلقات کی بحالی کی لہر چل رہی ہے۔ جناح ؒصاحب! اب آپ ہی بتائیے کہ ہم کیا کریں؟ ہمارے وزیر خارجہ اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ متحدہ عرب امارات نے پاکستانی مزدوروں کے لئے ویزے کی سہولت ختم کردی ہے اور وزیراعظم کے کار خاص ذلفی بخاری کہہ رہے ہیںکہ ایسا کچھ نہیں بلکہ حالات پہلے سے بہتر ہیں۔ آخر ہم کس کی بات مانیں؟ جب سعودی عرب کے بارے ان سے سوال کیا جائے تو کہتے ہیںکہ سب اچھا ہے اور اصل جواب دینے کی بجائے فرماتے ہیں ،سعودی عرب نے نئی تنظیم میں پاکستان کو شمولیت کی دعوت دی ہے ۔
جناحؒ صاحب! ہمارے ہاں بھوک افلاس ، غربت تو پہلے ہی دن سے برقرار ہے اور ہم صبر شکر کرکے آس پڑوس سے مانگ تانگ کر زندگی گزاررہے تھے لیکن اب ہر آنے والا دن پہلے سے بدتر ہے۔ ہم آپ کا فرمان ”اتحاد ،تنظیم ، یقینِ محکم“ بھلا کر پچھتا رہے ہیں۔ اب عالمی حالات نے جو نئی کروٹ لی ہے اور ہمارے دکھ سکھ کے دوست سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات بھی ہم سے ناراض ہیں۔ اب آپ ہی بتائیے کہ عالمی استعمار کے گٹھ جوڑ نے ایران کے ایٹمی پروگرام کے بانی محسن فخری زادہ کوجس انداز میں شہید کیا ہے، ایسے حالات میں تو یہ خدشہ پیدا ہونے لگا ہےکہ خلیج فارس کے پانیوں سے اٹھنے والا یہ ارتعاش کہیں مکران کے ساحلوں سے ہی نہ ٹکرا جائے اور اس پورے خطے کو جنگ کی لپیٹ میں نہ لے لے۔ ہمارے حکمران ہیں کہ ہر طرف چین کی بانسریاں بجا رہے ہیں، پہلے جنوبی پنجاب تو اب جنوبی بلوچستان بنا رہے ہیں ۔ جناحؒ صاحب کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ آخر ہم گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے اعلان سے مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اُجاگر کرنے کی بجائے دفن کرنے کی کیسی کوشش کررہے ہیں؟ ایسے میں تو ہماری راتوں کی نیند اُڑ رہی ہے،یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اور ہمارے رہنماؤںکو ایک دوسرے پر الزام تراشی کے سوا کوئی کام نہیں۔ جناحؒ صاحب! آپ کے کہنے پربرصغیر کے مسلمانوں نے تہتر سال قبل اپنے کڑیل جوان بیٹوں کی جانیں اور بہنوں، بیٹیوں کی عصمتیں لٹا کر یہ پاکستان بنایا تھا اور اس کی بنیادوں میں مسلم مخالف، ہندوسکھ اتحاد کے مظالم کی نہ لکھی جانے والی داستانیں دفن ہیں۔ ہم نے اس امید کے ساتھ اپنی جوانی گزاری کہ ایک دن تو آئے گا کہ جس مقصد کے لئے آپ نے یہ پاکستان بنایا تھا وہ اپنی منزل پا لے گا لیکن ہم سٹھیاپے کی عمر سے گزر کر لاٹھی کے سہارے چلنے والے بڑھاپے تک آگئے جسے اپنی ہی اولاد سنبھالنے کو تیار نہیں۔ ہرگزرتے دن یہاں نفرتوں کی فصلیں بوئی جارہی ہیں۔اب تو لوگ جنازوں کو بھی سیاست میں لے آئے ہیں ۔ خدارا! آپ ہی ہماری رہنمائی فرمائیں کہ آخر ہم کیا کریں؟ دعا گو
عوام الناس