پاکستان میں کرکٹرز کی اکثریت لوئر مڈل کلاس گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے۔چوںکہ کھلاڑی کم عمری میں کھیل کی جانب سے راغب ہوجاتے ہیں اس لئے ان کے پاس تعلیم نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔چھوٹے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے یہ کھلاڑی جب عام گھروں سے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں داخل ہوتے ہیں ۔
ریڈ کارپٹ پر روشنیوں کی چکاچوند اور ہر وقت میڈیا کی توجہ کا مرکز رہنے پریہ کرکٹرز اکثر پٹری سے اتر جاتے ہیں۔کم عمری کے غلط فیصلے کئی بار انہیں مشکل میں ڈال دیتے ہیں خاص طور پر ایسے وقت پر جب وہ کوئی مقام حاصل کر لیتے ہیں۔
پاکستانی کرکٹرز کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے جب کھلاڑی کم عمری میں ایسی حرکتیں کر گذرتے ہیں جو ان کے کیئریئر میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔جب عام لڑکا سپر اسٹار بن کر ٹیم کی ضرورت بن جاتا ہے تو کرکٹ بورڈ اس کے پیچھے کھڑا ہوکر اسے بچالیتا ہے کیوں کہ پی سی بی حکام کو اس کھلاڑی کے ذریعے اپنی کرسیاں بچانا ہوتی ہیں۔بعض کیسوں میں پی سی بی کی جانب سے سخت رویہ دکھائی دیتا ہے اور پی سی بی اس کرکٹر کو نشان عبرت بنا دیتا ہے۔یہ موضوع یقینی طور پر سنجیدہ نوعیت کا ہے لیکن اس کے ساتھ ایک ایسا سبق ہے جو شائد کرکٹرز کے لئے نئی راہ متعین کرے۔
گذشتہ ہفتے دو ایسے کیس منظر عام پر آئے جس میں پی سی بی نے دو مختلف انداز اختیار کئے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان اور اس وقت دنیا کے صف اول کے بیٹسمین بابر اعظم گذشتہ ہفتے لاہور کی ایک لڑکی کی جانب سے سنگین الزامات کی زد میں رہے۔اس وقت بابر اعظم دنیا کے چند بڑے بیٹسمینوں میں سے ایک ہیں۔
پاکستان ٹیم کو ان کی شدید ضرورت ہے اس لئے پی سی بی نے نہ صرف اس کیس کو نظر انداز کردیا بلکہ بابر اعظم کے ساتھ دیا۔دوسرا کیس ایک انٹر نیشنل کھلاڑی رضا حسن کا ہےجو پاکستان کرکٹ کا بگڑا ہوا بچہ ہےاس نے حالات سے سیکھنے کی کوشش نہیں کی، اس لئے رضاحسن کو بایو سیکیور ماحول کی خلاف ورزی کرنے پر قائد اعظم ٹرافی میں شرکت سے روک دیا گیا۔
ان دونوں کیسوں میں بابر اعظم کو اس لئے شک کا فائدہ مل گیا کہ وہ ٹیم کے لئے ناگزیر ہیں اور ان کا پہلا کیس منظر عام پر آیا ہے۔کامران اکمل،عمر اکمل اور عدنان اکمل کے کزن بابر اعظم اس کیس سے قبل غیر متنازع رہے ہیں۔کم عمری کی غلطی اس کے اور اس کے خاندان کے لئے بدنام اور وقتی طور پر ذہنی اذیت کا سبب ہے ۔بابر اعظم نیوزی لینڈ میں ہیں۔
حامیزہ نے الزام لگایا ہے کہ بابر اعظم کی پڑوس میں رہتی ہے اور دونوں اسکول فیلو ہیں۔بابر اعظم نے مجھے محبت اور شادی کا جھانسہ دے کر دس سال تک اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔جب میں شادی کا مطالبہ کرتی تو مجھے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا،بابر اعظم شادی سے انکار کررہا ہے اس نے مجھے ذلیل وخوار کردیا ہے۔
میں نے انصاف کے لئے پولیس سے مدد لی لیکن مجھے انصاف نہ مل سکا۔پاکستان کرکٹ بورڈ کو فون کیا تو بورڈ نے بتایا کہ یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔یقینی طور پر یہ بابر کا نجی معاملہ ہے لیکن جب کوئی عام آدمی سپر اسٹار بن جاتا ہے تو یہ خبریں بھی میڈیا کی زینت بن جاتی ہیں۔
ان الزامات میں کتنی صداقت ہے یہ کہنا مشکل ہے لیکن بابر اعظم کیس کئی نوجوانوں کے لئے عبرت کا نشان ضرور ہے۔بابر اعظم بھی لوئر مڈل کلاس خاندان سے منظر عام پر آئے اور آج ان کا شمار کرکٹ کی دنیا میں بڑے بیٹسمینوں میں ہوتا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے دنیا کے صف اول کے بیٹسمین بابر اعظم کو تینوں فارمیٹ کا کپتان بنانے کے بعد اسے گروم کرنے کے لئے لاہور میں ایک استاد کی تقرری کی ہے تاکہ ان کی شخصیت کو مکمل تبدیل کیا جاسکے۔استاد کی تقرری کے بعد بابر اعظم میں تبدیلی آرہی ہے۔
زمبابوے کی سیریز میں بابر ایک مختلف شخص کے طور پر سامنے آئے ہیں۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کی شخصیت میں اعتماد پیدا کرنے کے لئے ان کے لئے لاہور میں ایک ایسے استاد کی تقرری کی ہے جو انہیں انگریزی اور اردو پڑھاتے ہیں اور زبان کی آگاہی اور سمجھ بوجھ کے لئےان پر کام کیا جارہا ہے۔جب بابر اعظم لاہور میں نہیں ہوتے وہ آن لائن کلاسیں لیتے ہیں۔استاد ان کی شخصیت پر بھی کام کررہے ہیں انہیں بتایا جارہا ہے کہ وہ کس طرح میڈیا کا سامنا کریں گے اور کس طرح انہوں نے محافل میں بڑے لوگوں سے میل ملاپ رکھنا ہے۔پی سی بی کو یقین ہے کہ استاد کی تقرری سے بابر اعظم کی شخصیت میں نمایاں تبدیلی آئے گی ۔
وہ اس وقت دنیا کے چند بڑے بیٹسمینوں میں شامل ہیں استاد کی تقرری سے ان کی بات چیت کے انداز اور شخصیت میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ پی سی بی کے سی ای او وسیم خان براہ راست بابر اعظم کے معاملات دیکھ رہے ہیں۔بابر اعظم نےجو عام طور پر کم گو اور سیدھے سادھے دکھائی دیتے ہیں۔کپتان بننے کے بعد ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی ہے اور کئی بڑے فیصلوں میں وہ مصباح الحق سے بحث کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔اس طرح یہ تاثر بھی زائل کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ انہیں ریموٹ کنٹرول سے قابو کیا جارہا ہے۔گذشتہ ہفتے ایک اور کیس میں رضاحسن پر پی سی بی پابندی لگادی۔
رضا حسن ان کھلاڑیوں میں سے ہیں جو اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے میں شہرت رکھتے ہیں۔سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے اسپنر رضا حسن ماضی میں قوت بخش ادویات کے استعمال سمیت ڈسپلن کی خلاف ورزیوں میں ملوث رہے ہیں۔ڈوپ کیس میں ان پر جب دو سال کی پابندی لگی تو وہ شدید مالی مسائل سے دوچار ہوگئے اسی دوران لاہور قلندرز کے ڈائریکٹر عاقب جاوید نے ان کی خراب حالت دیکھ کر انہیں ٹیم میں موقع دیا۔رضاحسن کی ڈومیسٹک سرکٹ میں واپسی ہوئی لیکن پھر وہ ایک نئے تنازع میں الجھ گئے۔
اب شرمندگی محسوس کررہے ہیں ۔رضا حسن نے کہا کہ غلطی کا اعتراف کرتا ہوں اور سب سے معافی مانگتا ہوں۔ کرکٹ بورڈ ساتھی کھلاڑیوں اوراپنے پرستاروں سے وعدہ کرتا ہوں کہ دوبارہ شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔ رضا حسن نے کہا کہ اس سے پہلے ڈوپ ٹیسٹ کرنے کا غلط قدم اٹھایا جس کی سزا بھگتنے کے بعد دوبارہ کرکٹ میں واپسی ہوئی۔ اب بھی تسلیم کرتا ہوں کہ میری وجہ سے بائیو سیکیور ببل کا ماحول ڈسٹرب ہوا۔ ٹیم کوچزاورخاص طور پر ڈائریکٹر ڈومیسٹک ندیم خان سے اپیل ہے کہ دوبارہ ٹرافی میں کھیلنے کا موقع دیں۔
اچھی فارم میں ہوں، خواہش ہے کہ عمدہ پرفارم کرکے ٹیم میں کم بیک کروں۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے کوویڈ 19 پروٹوکولز کی سنگین خلاف ورزی پر ناردرن سیکنڈ الیون کے کھلاڑی رضا حسن کوگھر بھیج دیا تھا۔
فیصلے کے مطابق اب وہ ڈومیسٹک سیزن21-2020 میں مزید حصہ نہیں لے سکیں گے ۔ رضا حسن میڈیکل ٹیم اور پی سی بی ہائی پرفارمنس ڈیپارٹمنٹ سے پیشگی اجازت کے بغیر ہوٹل کے بائیو سیکور ماحول سے باہر گئے۔ ڈائریکٹر ہائی پرفارمنس پی سی بی ندیم خان کا کہنا ہے کہ یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ کوویڈ 19 پروٹوکولز کی اہمیت اور ضرورت کے بارے میں متعدد بار کی یاددہانیوں اور ایجوکیشن پروگرامز کے بعد رضا حسن نے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیا اور حدود سے تجاوز کیا ۔
رضا حسن کو ٹورنامنٹ سے نکال دیا گیا ہے اور اب ان کو رواں سیزن 21-2020 میں شرکت کی اجازت نہیں ہو گی۔ندیم خان نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کویڈ 19 کے طے شدہ ضوابط پر کسی بھی قسم کا سمجھوتانہیں کرے گا۔یہ قواعد و ضوابط نہ صرف تمام شرکا کی صحت اور حفاظت کے لیے ضروری ہیں بلکہ دنیاپر یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ ہم تمام ڈومیسٹک مقابلوں کا انعقاد کامیابی سے کر سکتے ہیں۔
میں یہ سمجھتا ہوں حسن رضا اپنے غیرذمہ دارنہ رویے کو محسوس کریں گے اور طے شدہ ضوابط کی خلاف ورزی کی وجہ سے کرکٹ اور کھیل کو جو نقصان ہوا اس کے ازالہ کی کوشش کریں گے۔بابر اعظم اور رضا حسن کیس کی نوعیت یقینی طور پر مختلف ہے لیکن پاکستان کے وہ کھلاڑی جو کیئریئر شروع کررہے ہیں وہ ان کیسوں سے عبرت حاصل کرسکتے ہیں۔ماضی میں پاکستانی کرکٹرز کے کیئر یئر ایسے ہی واقعات کی وجہ سے تباہ ہوئے۔
1995میں پاکستان انڈر19 کرکٹ ٹیم نیوزی لینڈ کے دورے پر تھی تو ایک کھلاڑی اسد علی عباس کو ریپ کیس کے الزامات میں وطن واپس بھیج دیا پھر اس کا کیئر یئر ختم ہوگیا۔1990 کی دہائی میں ویسٹ انڈیز کے ملک جمیکا کے شہر کنگسٹن میں پاکستان کے ایک ابھرتے ہوئے کھلاڑی ذیشان پرویز ایک اسکینڈل میں ملوث ہوکر جیل گئے پھر ذیشان پرویز کا کیئریئر ختم ہوگیا۔
خواہش یہی ہے کہ پاکستانی کرکٹرز تنازعات سے بچیں،اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لئے مشکلات پیدا کرنے سے گریز کریں۔بابر اعظم اور رضاحسن سے معذرت کے ساتھ کہ اس طرح کے کیسوں سے سبق سیکھ کر ہی وہ اپنے کیئریئر کو طول دے سکتے ہیں۔زندگی اسی کا نام ہے۔